میںبچپن میں اپنے والد مرحوم جناب زکی کیفی کے کچھ قریبی دوستوں کو اپنے گھر’’ کاشانۂ زکی ‘‘ -17 اردو نگر سمن آباد موڑ پر بکثرت آتے جاتے دیکھتا تھا۔ کبھی باقاعدہ دعوت پر،کبھی ویسے ہی میل ملاقات کے لیے،کبھی مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے ملنے ، جو لاہور میں ہمارے گھر ہی ٹھہرا کرتے تھے۔جو دوست صحافت سے متعلق تھے ان میں ایک نوجوان دوست مجھے ہمیشہ سے بہت اچھے لگتے تھے۔اگرچہ اس زمانے میں جناب مجیب الرحمٰن شامی بھی کافی کم عمر تھے اور ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن جس نوجوان کی بات میںکر رہا ہوں وہ عمرمیں ان سے بھی چھوٹے تھے۔میرا تاثر ان کے بارے میں ہمیشہ سے یہ تھا کہ یہ سب سے کم عمر ، سب سے خوبصورت،اور سب سے کم گو دوست ہیں۔ نامورسینئرصحافی ،سی پی این ای کے صدر،اے پی این ایس کے سینئرنائب صدر جناب جمیل اطہر آج بھی مجھے کم عمر اور خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔رہی کم گوئی تو اس کا تاثر ان کی کئی بولتی کتابوں نے ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ایک دو سال پہلے جب ان کی سرگزشت حیات’’ایک عہد کی سرگزشت ‘‘ شائع ہوئی تو میں نے18-02-2018 کو اسی اخبار میں ’’ نعمت جیسا ایک شخص ‘‘ کے نام سے کالم لکھا تھا۔دل کی بات تھی اس لیے شاعر ہونے کے باوجود شاعرانہ مبالغے کی گنجائش نہیں تھی ۔ جو بات میں نے کالم میں نہیں لکھی تھی لیکن کتاب کی مبارک دیتے ہوئے جناب جمیل اطہر سے فون پر عرض کی تھی، یہ تھی کہ آپ نے بہت سے معاملات میں بہت بچ بچا کر اور معاملات کو ایک پردے میں رکھ کر گفتگو کی ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ آپ مرحومین کے متعلقین کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتے اور یا پھر یہ کہ ایک عمر کے ساتھیوں کو کھونا نہیں چاہتے ۔لیکن بہرحال ہم جیسے بھی ہیںجو اس کوچے سے نابلد ہونے کے باوجود کچھ معاملات میں متجسس رہتے ہیں اور درست حقائق تلاش کرتے ہیں، خواہ ان کی زد کسی پر پڑتی ہو۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یاد داشتوں میں خوفِ فسادِ خلق کا مسئلہ بڑا سخت ہے۔کتنی ہی ٹھیک باتیں ریکارڈ پر آنے سے رہ جاتی ہیں۔کتنی ہی مغالطے راہ پاجاتے ہیں۔بہت سے چہرے صرف یک رخے رہ جاتے ہیں۔تذکرے دیکھو تو ایسا لگتا ہے کہ دوسرا رخ تھا ہی نہیں۔دل کی بات نہ کرو تو انسان اندر سے سنگسار ہوتا رہتا ہے۔دل کی بات کرو تو باہر سے پتھر پڑتے ہیں۔اسی لیے یادداشتیں تحریر کرناجہاں ایک طرف بہت للچانے والا کام ہے ،وہیں دوسری طرف بہت کٹھن کوہ پیمائی۔ اللہ جمیل صاحب کو لمبی عمر دے ،انہوں نے ابھی بہت سی کتابیں تصنیف کرنی ہیں۔اور اللہ خورشید رضوی صاحب کو بھی عمر طویل عطا فرمائے انہوںنے بھی ابھی بہت سے شعر کہنے ہیں۔ان کا شعر ہے شایدکچھ اس طرح اب عمر کی ڈھلوان ہے ، اب کاہے کا غم ہے،جو کچھ کہ ہوا، اس سے زیادہ نہیں ہوگا،آدمی صاحب ِ ضمیر ہو تو زندگی میں ایک جگہ آکراس کا دل چاہتا ہے کہ ہر منفعت اور نقصان سے بے پروا ہوکر،ہر داد بے داد سے اوپر نکل کر اور ہر مصلحت مفاد کو بالائے طاق رکھ کر سچ بات لکھ دے۔ ابن الوقت آدمی پر کبھی یہ وقت نہیں آتا۔یہ توفیق تو محض وقت سے اوپر اٹھنے والوں کو ملتی ہے۔ اور آج میرے ہاتھوں میں وہ کتاب ہے جس میں جمیل اطہر صاحب نے وہ مسائل ، واقعات اور تجربے بھی بیان کردئیے ہیں جن کی زد کئی طرف پڑتی ہے اور جن کی وجہ سے وہ خود بھی زد میں آئیں گے۔’’ دیار مجدد سے داتا نگر تک ‘‘ میںجمیل صاحب کی زندگی،مشاہدے، مناقشے ۔سب کچھ نہیں تو کافی کچھ آگیا ہے۔ابتدائی صحافتی زندگی ،روزنامہ وفاق سے وابستگی،نشیب و فراز، بالآخر وفاق سے علیحدگی ،بڑے اخبارات کی ملازمتیں،بڑے مدیران کے رویّے،معاصر صحافیوں کے معاملات،سی پی این ای اور اے پی این ایس کے سیاسی معاملات اور جوڑ توڑ۔نایاب تصاویر۔مشاہیر کے قصے۔بہت کچھ ایسا ہے جو ماضی قریب اور بعید کی صحافتی آگاہی میں بنیادی مواد کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کتاب سے مجھے کچھ شکایت پیش آئی تو یہ کہ اس میں زیادہ واقعات تاریخی ترتیب کے بجائے آگے پیچھے ہوگئے ہیں۔ یہ واقعات بہرحال ذہن میں ایک ترتیب کے ساتھ ہی محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔جمیل صاحب نے بہت لوگوں کی صحافتی اور ذہنی تربیت بھی کی ہے۔صاحب اسلوب صحافی اور کالم نگار جناب ہارون الرشید انہیں اپنا استاد مانتے ہیں ۔اور یہ اعتراف دونوں کی کشادہ دلی پر دال ہے۔1941 کے سرہند میں آنکھ کھولنے والے اور 1947میں ہجرت کا پر آشوب سفر دیکھنے والے جناب جمیل اطہر کی ابتدائی زندگی ، ابتدائی تعلیم ،خاندانی زندگی ،نامساعد حالات،مسلسل جد و جہد ۔ایسے ابواب ہیں کہ ان میں بہت سے سبق موجود ہیں اور ان سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا۔روزنامہ وفاق میں جناب جمیل اطہر کی زندگی کا بڑا حصہ گزرا تھا۔کتاب کے صفحہ 149میں ان کے خط بنام مصطفی صادق صاحب سے ان معاملات کی کافی تفصیل ملتی ہے جو 22 سالہ رفاقت کے بعد بالآخر علیحدگی پر منتج ہوئے ۔ بڑے سائز کے 425 صفحات کی اس کتاب میں سے بہت سے اقتباس نقل کیے جاسکتے ہیں۔لیکن یہاں چند ہی کی گنجائش ہے۔ ’’ ہم ان کے ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھے جہاں کوثر نیازی صاحب پہلے ہی تشریف فرما تھے۔انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ جمیل صا حب آپ کو مبارک ہو۔وزیر اعظم نے روزنامہ تجارت کے ڈیکلریشن کی منظوری دے دی ہے۔اور ساتھ ہی فرمانے لگے جمیل صاحب آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم نے آپ کو دو مربع زمین دے دی ہے۔میں نے ایک لمحے کے توقف کے بعد کہاکوثر صاحب یہ ڈیکلریشن آپ اپنے پاس رکھ لیں مجھے صرف ایک مربع زمین دے دیں ‘‘ ’’ مولانا ظفر احمد انصاری پہلے ہی سے اس کوشش میں تھے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعدبھٹو صاحب مغربی حصے کی حکومت کریں۔۔خاص طور پر نئے آئین کی تدوین میں بھٹو صاحب کے سوشلسٹ ساتھی جے اے رحیم معراج محمد خان وغیرہ آئین کو جس طرح سیکولر بنانا چاہتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام صرف جمہوریہ پاکستان رکھنا چاہتے ہیں،بھٹو صاحب کو حمایت کا یقین دلا کر انہیں آمادہ کیا جائے کہ وہ مملکت کا نام بدستور اسلامی جمہوریہ پاکستان برقرار رکھیں،آئین میں مجوزہ غیر اسلامی دفعات نکالیںاور اسلامی دفعات شامل کریں۔بھٹو صاحب نے (ملاقات میں )مولانا مودودی سے کہا کہ میں اپنے سوشلسٹ اور کمیونسٹ ساتھیوں شیخ محمد رشید،معراج محمد خان ،جے اے رحیم،مختار رانا اور بعض دوسروں کے ہاتھوں بہت عاجز ہوں۔اگر آپ مجھ سے تعاون کریں اور میری راہ میں روڑے نہ اٹکائیں تو میں ان لوگوں کو غیر مؤثر کرسکتا ہوں ‘‘ ’’ ایک مرتبہ میں نے ایک خبر لکھ کر بزرگ صحافی جناب مقبول احمد کے حوالے کی ۔انہوں نے خبر پڑھ کر نہایت غصے سے کہا کہ تم اردو اخبار میں کام کرتے ہو یا انگریزی میں۔میں نے نہایت ادب سے جواب دیا کہ میں اردو اخبار میں کام کرتا ہوں۔انہوں نے میری خبر کا مسودہ میری طرف اچھال دیا اور کہا کہ دیکھیں آپ نے کیا لکھا ہے۔میں نے کافی جگہوں پر واٹرسپلائی کے الفاظ لکھے تھے جن پر مقبول صاحب نے سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ اردو اخبار کے لیے لکھ رہے ہوں تو یہاں آب رسانی یا فراہمیٔ آب کے الفاظ ہونے چاہئیں۔مقبول صاحب کا دیا ہوا یہ درس مجھے عمر بھر یاد رہا اور جہاں کسی انگریزی لفظ کا اردو متبادل دستیاب ہوا تو میںنے وہی متبادل لفظ لکھا ‘‘ جمیل اطہرصاحب ایک نایاب آدمی ہیں اوردیا رمجدد سے داتا نگر تک ایک نایاب دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بہت سے لوگ اس میں دل چسپی لیں گے۔قاری پہلے سے موجود تھا۔مبارک خبر یہ کہ اب اس کے لیے کتاب بھی موجود ہے۔