اقبالؒ۔ اپنی معروف اور طویل فارسی نظم ’’معنیء حریتِ اسلامیہ و سِرِّ حادثۂ کربلا‘‘ میںفرماتے ہیں کہ ہم نے ’’رمزِ قرآن‘‘ حسین ؑ سے سیکھی ہے ،وہ کہتے ہیں: ’’رمزِقرآن‘‘ از حسین آموختیم ز آتشِ اُو شعلہ ہا اندوختیم علامہ اقبال سے کسی نے پوچھا تھاکہ ’’رمزِ قرآن‘‘ کیا ہے …؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ’’رمزِ قرآن ‘‘یعنی تعلیماتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے ہروقت سربکف رہو اور اگر ضرورت پڑے تو جان دینے سے بھی دریغ نہ کرو۔ اقبال کی اس ولولہ انگیز نظم کے یہ الفاظ آج اس وقت بطورِخاص تازہ ہورہے ہیں،جب پوری قوم بلکہ اُمّتِ مُسلمہ نواسۂ رسول ﷺکی بار گاہ میں کربلا کے ریگزار پر ان کی لازوال قربانیوں کوخراجِ عقیدت پیش کررہی ہے اور دوسری طرف غزالی آنکھوں والے کشمیری …مرد وزن ،بچے ،بوڑھے اورجوا ن …سروں پر کفن باندھے ،امام عالی مقام کی پیروی اور اِتّباع میں …پوری قوّت اور توانائی کے ساتھ …باطل سے ٹکرانے کے لیے میدانِ کار راز میں ہیں ،کشمیر کے کربلا میں مائیں، اپنے جگر گوشوں کو اس راہِ عمل پر گامزن کیئے ہوئے ہیں ،جس کی مثال چودہ سو سال پہلے کربلا میں قائم ہوئی ۔ کہ ڈَٹ جائو تم حسین کے انکار کی طرح بلاشبہ زندگی بہت خوبصورت ہے ، مگر یقینا کوئی چیز اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ،جس کے لیے اہل بیت اطہار کا پورا خانوادہ خلعتِ شہادت سے آراستہ ہوگیا ،اور اسی کے تتبع اور پیروی میںہمارے جوان جذبہ شہادت سے لبریز ہیں ، اقبال نے کہا تھا: بر تر از اندیشہ سودوزیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانہء امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی اقبالؒ اپنی اسی نظم میں امت مسلمہ کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ جن کا غلبہ ہمیشہ ’’ قوت شبیری‘‘سے ہوتا ہے ، اسی لیے اہل حق وصداقت کو اپنے اندر یہ جذبہ ،قوت اور حوصلہ پیدا کرنا چاہیے ،اگر چہ ظاہری اور خارجی اسباب ومواصل کیوجہ سے ،بعض اوقات اہل حق مغلوب دکھائی دیتے ہیں اورباطل غالب…لیکن آخری فتح بالآخر حق کی ہوتی ہے جسکا سرنامہ ’’ قوت شبیری ‘‘ہے ،یقینا وہ اسی ’’ قوت شبیری‘‘ سے روشنی،قوت ،توانائی اورنور پاتے ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بڑی جرأت ،جواں مردی ، بسالت اوربہادری کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس میںکہا ہے کہ کشمیر پر ڈیل کے لیے ہماری لاشوں سے گذر نا ہوگا،’’ کشمیر ہماری شہ رگ ہے ،اس کے لیے آخری سانس ،آخری گولی اورآخری سپاہی تک لڑینگے ،اور کشمیر پرکوئی بھی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں ،اقبال کہتے ہیں کہ :۔ زندہ حق از ’’قوّتِ شبیری‘‘ است باطل آخر داغِ حسرت میری است یعنی دنیا میں حق’’قوتِ شبیری‘‘سے ہی زندہ رہتا ہے ،اور باطل آخرِ کار حسرت ناک موت کا داغ اٹھاتا اوردنیا میں ذلیل ورسوا ہوتا ہے، وہ مزید فرماتے ہیں :۔ مُوسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آمد پدید یعنی موسیٰ اور فرعون …شبیرؑ اور یزید یہ صرف افراد یا اشخاص کے نام نہیں ۔بلکہ حق وباطل …خیر وشر کی قوتوں کے مظاہر ہیں ۔ حق موسیٰ اور حسین کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اور باطل فرعون اور یزید کا روپ دھار کردنیا کے سامنے آتا ہے۔ کوفہ جاتے ہوئے "بَیضہَ"کے مقام پر آپ رضی اللہ عنہ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ اسی حق و صداقت کا امین اور قیامت تک… انسانیت کے لیے استقامت ، حوصلہ ، جرأت اور روشنی کا علمبردار رہیگا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "لوگو! رسول اللہ نے فرمایا جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے ، جوظلم کرتا ہے ۔ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو پامال کرتا ہے، عہدالہٰی توڑتا ہے، سنت کی مخالفت کرتا اور بندگان خدا پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے،تو انکا محاکمہ اور محاسبہ لازم ہے،آپ نے مزید فرمایا :۔لوگو! یہ حکمران شیطان کے پیروکاربن گئے ہیں ۔ رحمان کے سرکش ہوگئے ہیں ،ہر طرف فساد ہے، حدودِ الہٰی معطل ہیں، مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے ۔ اللہ کے حرام کو حلا ل اور حلال کو حرام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ان حالات میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا بھی سب سے زیادہ میںحق دار ہوں ۔"ذی حُسُمْ"میںآپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا"افسوس ! تم دیکھتے نہیں کہ حق پسِ پشت ڈال دیا گیا ، باطل پر علانیہ حملہ کیا جارہاہے ۔ وقت آگیا ہے کہ مومن راہ حق پر چلتے ہو "لقائے الٰہی"کی خواہش کرے ۔ آپ نے فرمایا میرے نزدیک موت…شہادت کی موت ہے، اور ظالموں کیساتھ جینا بجائے خود ایک جرم ہے۔ اُمت پر دو وقت یقینا بہت کڑے اور نازک تھے، پہلا وقت رسول اللہ جب دنیا سے تشریف لے گئے ۔۔۔ایک طرف اُمت اس عظیم صدمے سے نڈھال تھی اور دوسری طرف فتنو ں کا دروازہ کھل گیا ، کہیں ارتداد اور کہیں مانعین زکوٰ ۃ …یعنی کلمہ گو تو ہیں ، مگر زکوٰ ۃ نہیں دیں گے …اس کٹھن اور مشکل حالات میں سیدنا صدیق اکبرؓ نے عزم وہمت ، فہم و فراست اور ثابت قدمی کیساتھ اُمّت کی قیادت کا حق ادا کیا ، اس موقع پر آپ کا ایک تاریخی جملہ… آپ کے عزمِ راسخ کی یاد دلاتارہیگا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:۔ "وحی بند ہوچکی ۔ دین مکمل ہوچکا ۔اب دین میں کمی کی جائے… اورمیں زندہ رہوں۔؟یہ نہیں ہوسکتا،خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق ؓنے"شہادت حق "کا فریضہ سرانجام دیا ، مختلف مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن اللہ کے دین پر آنچ نہ آنے دی ۔اس حق کی گواہی کا فریضہ امام عالی مقام نے 61ھ میںسرانجا م دیا ،جب انہوں نے محسوس کیا کہ انکے نانا جان ﷺ نے دین کی امانت اور اسکی حفاظت کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی، ان میں دراڑیں ڈالی جارہی ہیں، دین کے اصول پائمال ہورہے ہیں ، اور اسکی عمارت منہدم ہونے کو ہے ، تو اسکی حفاظت کیلئے کیسی ہی مصیبت کاسامنا کرنا پڑے ، مجھے اسکی پرواہ نہیں۔اس وقت آپ سے بڑھ کر اور کوئی ہستی ایسے نہ تھی جو اُمّت کے نظام کی تبدیلی کا ادراک کرسکتی ، آپ نے ریاست مدینہ کی عملی تشکیل اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی، امت کا سیاسی مزاج سمجھتے تھے، شورائی اور جمہوری رویّے کوجانتے تھے، خلافت راشدہ کے سنہری دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا ، رسول اللہؐ کی محبت ، صحبت ، شفقت اور تربیت سے آراستہ تھے، چنانچہ آپ نے بدلتے ہوئے حالات کے مفاسداور مضمرات کافوری ادراک کیا ، اور اس کے تدارک کیلئے اپنی اور اپنے گھرانے کی قربانی دیکر۔۔۔ خلافت وملوکیت اور حق وباطل کے درمیان فرق دنیا کو سمجھادیا ۔