کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن متاثرین کی امداد کیلئے 92 نیوز کی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیلی تھون کا انعقاد ہوا ۔ اسد اللہ خان ، شازیہ ذیشان ، سعدیہ افضال میزبان تھے جبکہ عارف نظامی ،ہاروں الرشید ، ارشاد عارف اور ڈاکٹر معید پیرزادہ بطور تجزیہ کار شریک تھے۔ لائیو ٹیلی تھون کے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان مہمانِ خصوصی ۔ وزیراعظم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 30 سال سے پاکستان میں فنڈ ریزنگ کرتا آ رہا ہوں ، مجھے سب سے زیادہ تجربہ ہے ۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں کہ شوکت خانم جیسا عظیم الشان پراجیکٹ انہی کی کوششوں کا ثمر ہے ۔ عالمی شہرت یافتہ سرائیکی فوک سنگر عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے ایک مرتبہ سرائیکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ عمران خان انتھک آدمی ہیں اور شوکت خانم کی تعمیر کیلئے انہوں نے دن رات کام کیا اور شوکت خانم ہسپتال کی صورت میں ناممکن کو ممکن کر دیا۔ ‘‘ عیسیٰ خیلوی نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ’’ فنڈ ریزنگ پرو گرامز کی کامیابی کیلئے امریکہ پہنچے میرے ساتھ مرحوم دلدار پرویز بھٹی بھی تھے، اچانک دلدار پرویز بھٹی صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ عمران خان سمیت ہم سب میت لے کر واپس پاکستان آ گئے اور تجہیز و تکفین کے بعد عمران خان نے پھر سے شوکت خانم کیلئے سفر شروع کر دیا۔ 92نیوز کی لائیو ٹیلی تھون اپنی مثال آپ ہے اور جیسا کہ بڑے بڑے رفاہی کاموں کا اعزاز مدینہ فاؤنڈیشن کو حاصل ہوا ہے ، اسی طرح یہ عظیم الشان تجربہ بھی 92نیوز کے حصے میں آیا ہے ۔ کورونا وائرس دنیا کا منفرد واقعہ ہے ، وبائی امراض آتی رہی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جب سے کائنات بنی ہے اور جب تک باقی رہے گی ، دکھ سکھ ساتھ ساتھ رہے، کورونا کی بیماری اس لئے منفرد ہے کہ پہلے وبائی بیماریاں مختلف علاقوں یا مختلف ملکوں تک محدود رہتی تھیں ، کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، اس موقع پر علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کے واقعات عالمی تاریخ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔ 92 نیوز کی لائیو ٹیلی تھون بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کے موقع پر کروڑوں کی امداد کے اعلانات ہوئے ، جن میں سیالکوٹ کے ذاکر 3 کروڑ روپے ، دبئی سے شوکت بٹ 1 لاکھ درہم ، چوہدری نصر اللہ 50 لاکھ روپے نقد اور ڈیڑھ کروڑ کا راشن ، ہالینڈ سے شہزاد رانا کا 10 ہزار ڈالر ، مدینہ فاؤنڈیشن کی طرف سے25 لاکھ روپے ، 92 نیوز گروپ کے ملازمین کا ایک دن کی تنخواہ ، برطانیہ سے حاجی منیر کا 25 ہزار پاؤند ، عمران صاحب10 ہزار پاؤنڈ، امریکا سے ساجد تارڑ 5لاکھ ، کینیڈا سے تابش توفیق 15 ہزار ڈالر ، جعفر صاحب 25 ہزار ڈالر ، رانا رؤف 35ہزار ڈالر ، ہارون الرشید صاحب 2 لاکھ روپے ، ارشاد عارف صاحب ، معید پیرزادہ صاحب اور جاوید میانداد صاحب 1، 1 لاکھ روپے اور اس طرح کے بہت سے دیگر مخیر حضرات شامل ہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نقصان کھربوں ڈالر کا ہے ، پاکستان ایک مقروض اور غریب ملک ہے ، وزیراعظم کے کہنے کے مطابق محض 8 ارب ڈالر کا پیکیج دے چکے ہیں ، جبکہ امریکا نے 22 سو ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے اور جرمنی جسکی آبادی پاکستان سے نصف ہے نے ایک ہزار ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے اور اتنا ہی پیکیج جاپان نے اپنے شہریوں کو دیا ہے ۔ جبکہ پاکستان نے جہاں نصف سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی گزار رہی ہے ، کیلئے بہت بڑے پیکیج کی ضرورت ہے اور یہ کام مخیر حضرات کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 92 نیوز میڈیا گروپ نے ہر مشکل وقت میں قوم کا ساتھ دیا، آج جو قیامت خیز وبا پوری دنیا میں آئی ہے تو ہر طرف افواہ ساز فیکٹریوں نے اپنا دھندہ چلایا ہواہے ، جس کے باعث قوم میں مایوسی اور خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے ، اس موقع پر 92 نیوز گروپ کی طرف سے کورونا آگاہی مہم ، احتیاطی تدابیر کی تلقین ، قابل اعتماد رپورٹنگ، سنسنی خیزی سے گریز جیسے عمل نے اسے قابل اعتماد ادارہ بنا دیا ہے ، یہ ٹھیک ہے کہ کورونا کے سامنے عالمی قوتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں ، امریکا جیسی سپر پاور میں روزانہ ایک ہزار سے دو ہزار کے درمیان اموات ہو رہی ہیں ، اس موقع پر وزیراعظم کی پر اعتماد طریقے سے 92 نیوز ٹیلی تھون میں گفتگو صرف پاکستان ہی نہیں عالمی برادری کے لئے بھی قابل تقلید مثال ہے ۔ گزشتہ روز میں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا دورہ اور خطے کے مسائل کے حوالے سے لکھا ، وزیراعلیٰ دوسرے دن بھی وسیب کے دورے پر موجود رہے ، تونسہ کے دور دراز نواحی علاقے وہوا کا دورہ کیا ، وہاں کیفیت یہ تھی کہ لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور وہ ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی وزیراعلیٰ ہمارے علاقے میں آئے گا ، یہ وسیب کے غریبوں کے جذبات تھے ، مگر محض دورہ کافی نہیں بلکہ وہاں کی پسماندگی اور غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ تعلیم، صحت ، روزگار وسیب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، تونسہ کو ضلع کا درجہ دینے کا مطالبہ عثمان بزدار صاحب اور ان کے والد فتح محمد خان بزدار خود کرتے رہے ، وزیراعلیٰ کا اپنا تعلق جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سے ہے ، انہوں نے خود ووٹ صوبے کے نام پر لیے ہیں ، وہ وسیب کی محرومی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں ، اب وہ خود بر سر اقتدار ہیں ، صوبے کے سربراہ ہیں ، اب ان کو بلا تاخیر تونسہ کو ضلع کے درجہ دینا چاہئے ، شاہ سلیمان تونسوی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا چاہئے اور صوبے کے قیام کیلئے بلا تاخیر اقدامات کرنے چاہئیں ۔ وسیب کے لوگوں کو اس بات کا بھی شکوہ ہے کہ گزشتہ روز ملتان میں گورنمنٹ کی طرف سے امداد کی تقسیم کے موقع پر بھگدڑ مچی ، خاتون کو امداد تو نہ ملی مگر موت مل گئی ، 20 خواتین زخمی ہوئیں ، وزیراعلیٰ وسیب میں ہونے کے باوجود موقع پر نہیں پہنچے ، سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح کا واقعہ لاہور میں وقوع پذیر ہوتا تو کیا صوبائی کابینہ کے ارکان وہاں موجود نہ ہوتے ؟ لاہور اور ملتان کے اس فرق کو اگر عثمان بزدار ہی ختم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟