کل عوام کے پسندیدہ نیوز چینل نائنٹی ٹو کی چوتھی سالگرہ تھی،مجھے بھی مدعو کیا گیا اور اگر مدعو نہ بھی کیا جاتا تو میں پھر بھی اس شاندار تقریب میں چلا جاتا کیونکہ اس چینل میں میں نے بھی ڈیڑھ سال تک بیورو چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہے اور یہ رشتہ آج بھی کالم نگار کے طور پر اس ادارے سے قائم ہے، محترم میاں حنیف صاحب اور میاں رشید صاحب میرے لئے قابل احترام رہے ہیں، لیکن کل اس ادارے کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر وہاں کام کرنے والے صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز نے مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ 92نیوز پاکستان کا واحد میڈیا گروپ ہے جس نے اپنے ایک بھی کارکن کو نہ بے روزگار کیا، نہ اس کی تنخواہ میں کمی کی اور نہ ہی دوسری مراعات کم کیں۔۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع ہے کہ میں کسی میڈیا مالک کے لئے تعریفی کلمات لکھ رہا ہوں، اگر میں یہ چند سطور نہ لکھتا تو میرا خیال ہے کہ میں خیانت کا مرتکب ہوتا، بڑے بڑے تیس مار خان میڈیا ہاوسز نے نوجوان اور کہنہ مشق صحافیوں کو سینکڑوں کی تعداد میں بے روزگار کیا ہے۔اشتہارات کے نرخوں میں کمی ان بے روزگاریوں کا موجب نہیں بنی، بات در حقیقت یہ ہے کہ میڈیا مالکان کو وہ بہانہ مل گیا جس کی تلاش میں وہ پچھلی تین دہائیوں سے تھے، اب چاہے سرکاری اشتہارات کی قیمت پچھلی سے چار گنا زیادہ بھی کر دی جائے ‘بے روزگار صحافیوں کو دوبارہ ملازمتوں پر نہیں لیا جائے گا، اب ان مالکان کو صحافیوں کی نہیں مستریوں کی ضرورت ہے جو ان کے گھر کا نلکا بھی ٹھیک کر سکیں اور صاحب کی ٹیبل بھی صاف رکھیں۔ 92نیوز کی چوتھی سالگرہ کی تقریب میں یوں تو وزیر اعلی ، گورنر پنجاب اور دیگر اہم لوگ مہمان خصوصی تھے لیکن جتنی تیاری اس ادارے کے کارکن کرکے آئے تھے وہ مجھے میزبان بھی اور مہمان بھی لگ رہے تھے، ماشا اللہ ان کے چہرے پر یقین تھے ولولہ انگیز تھے، یہ نائنٹی نیوز کی سالگرہ سے زیادہ اجتماعی شادی کی تقریب دکھائی دے رہی تھی جس میں دولہے زیادہ اور مہمان کم ہوتے ہیں، اللہ کرے کہ یہ ادارہ آزادی صحافت کی آواز بھی بنے، ایک گونجدار آواز،،،، دوسرے بہت سارے ادارے تو بس پیسے بنانے والی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔سب نے اپنی اپنی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں، سب ادارے سب ویب پیجز کا وزٹ کرتے ہیں، اب انہیں پتہ چل گیا ہے کہ اخبار چار آدمی بھی تیار کر سکتے ہیں چاہے وہ صحافی نہ بھی ہوں، مالکان کی تنظیمیں اے پی این ایس اور سی پی این ای میں یہ آسان نسخہ زیر بحث بھی آ چکاہوگا، اب بے روزگار صحافیوں کو جلد کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ انہوںنے صحافت کرنی ہے یا پکوڑے بیچنے ہیں، یہ بات بھی درست ہے کہ آجکل سبزیاں اور پھل بیچنے والے، ڈرائی فروٹ اور گنڈیریاں فروخت کرنے والے عام صحافیوں کی تنخواہوں سے زیادہ کمائی کر رہے ہیں، ہم بہت سارے دوستوں نے ایک گرم انڈے بیچنے والے صحافی کو بھی دیکھا تھا جو چار سال سے نوکری ڈھونڈنے کی بجائے انڈے ہی بیچ رہا ہے، میں پھر نائنٹی نیوز کے مالکان سے گزارش کروں گا کہ وہ صحافت کا اصل دور واپس لانے کیلئے صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوں،وہ دو ادارے بنا کر انہیں بلندیوں تک پہنچا چکے ہیں، انہیں اللہ توفیق دے کہ وہ مزید صحافتی ادارے قائم کریں، ورنہ جب کسی ملک کے صحافیوں کو بے روزگار کرکے مار دیا جاتا ہے تو ان ملکوں کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ان ملکوں سے جمہوریت جدا ہو جاتی ہے، صحافت اور صحافی کی بوائی کیلئے میں ایک کارکن اور ایک سپاہی کی طرح انشااللہ آپ کو اگلی صفوں میں نظر آؤں گا، میری تمنا ہے کہ میری باقی زندگی بھی جمہوریت اور آزادی صحافت کے ہی کام آئے۔ ٭٭٭٭٭ سترکی دہائی میں مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں سب سے زیادہ شائع ہونے والا روزنامہ تھا،، مشرق،، اس کا آفس نسبت روڈ پر لیبر ہال کے قریب ہوا کرتا تھا، میں کبھی کبھی اپنے والد کے دوست اشرف طاہر صاحب کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ، جو وہاں نیوز ایڈیٹر تھے، اشرف طاہر صاحب ٹی وی اداکارہ روبینہ اشرف کے والد تھے،غلام محی الدین نظر مشرق میں بچوں کے صفحہ کے انچارج تھے، ان سے بھی سلام دعا ہوتی ، ان کی دبلی پتلی شخصیت بچوں کے کارٹون جیسی تھی، حسن رضا خان وہاں فلم پیج کے کرتا دھرتا تھے، فلموں میں ڈاکٹر یا وکیل جیسے کرداروں میں بھی دکھائی دیتے ، بہت کم گو اور نفیس آدمی تھے، حبیب جالب کی طرح ہمیشہ اپنا بستہ بغل میں رکھتے ، سارا دن چائے اور پان کھاتے رہتے اور شام ہوتے ہی پریس کلب یا کسی فلم اسٹوڈیو میں پہنچ جاتے، ریاض بٹالوی مشرق کے فیچر رائٹر تھے، بہت نام تھا ان کا، ریاض بٹالوی صاحب نے فیچر نگاری کو ایک نرالا انداز دیا، وہ روزانہ گم ہو جاتے،اخبار میں اشتہار نما خبر چھپتی کہ جو قاری ریاض بٹالوی کا سراغ لگائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا، کوئی بھی ریاض بٹالوی کو پکڑ نہ پاتا اور اگلے دن ان کی تصاویر چھپتیں، کبھی وہ ریلوے اسٹیشن پر قلی بنے ہوتے ، کسی دن ریڑھی پر قلفیاں بیچ رہے ہوتے، کبھی وہ ہاکر بنے اخبار بیچتے نظر آتے، اس لکن میٹی نے اخبار کو اور زیادہ مقبول بنا دیا تھا، روزنامہ مشرق سے چند قدم آگے ہفت روزہ ،، مصور،، کا دفتر تھا، یہ فلمی رسالہ بڑی تعداد میں چھپتا تھا، نذیر ناجی صاحب اور حسن نثار بھی اس میں لکھا کرتے تھے، ہفت روزہ نصرت کے مالک تھے شہزادہ عالمگیر، ایک خوبصورت خاندانی آدمی،عمر تیس پنتیس سال سے زیادہ نہ تھی، شہزادہ عالمگیر کا چھوٹا بھائی تھا، شاہ زیب ،دلیپ کمار اسٹائل کٹنگ، وحید مراد جیسا لباس، درپن جیسی وجاہت،جب یہ ٹھان لی گئی کہ شاہ زیب کو فلمی ہیرو بنانا ہے تو رسالے کے سر ورق پر ہر ہفتے اسی کی تصویر چھپنے لگی، اس زمانے کی ہر ہیروئن کے ساتھ اس کی ماڈلنگ کرائی گئی، کئی مہینوں کی کاوشوں کے باوجود شاہ زیب کو کسی پروڈیوسر ، ڈائریکٹر نے سائن نہ کیا تو ایک دوسرا راستہ نکالا گیا،، ریاض بٹالوی اسٹائل راستہ،، شاہ زیب کے بارے میں ہفت روزہ مصور میں اشتہار چھپنے شروع ہوگئے کہ وہ سارا دن کسی نہ کسی بہروپ میں لاہور شہر کی سڑکوں پر رہے گا۔ جو اسے پہچان لے، ڈھونڈھ نکالے اسے قیمتی انعامات ملیں گے، میں یہ اشتہار ہر ہفتے دیکھتا اور سوچتا کہ کتنا گھٹیا طریقہ ہے، شاہ زیب کو زبردستی فلمی ہیرو بنانے کا، ایک دن کیا ہوا ؟ میں لکشمی چوک میں کھڑا بک اسٹال پر مصور میں شاہ زیب کی گمشدگی کا نیا اشتہار پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک ایکٹر نظر آیا، فلمی نام تھا اس کا گوتم ، وہ فلموں میں چھوٹے چھوٹے رول کیا کرتا تھا ، مگر اس کا اٹھنا بیٹھنا سیف الدین سیف اور حسن طارق جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ تھا، وہ اکثر کنگ سرکل کے اندر یا حیدر پان شاپ پر دکھائی دیتا تھا، گوتم کو دیکھ کر ایک زبردست آئیڈیا میرے دماغ میں گونجا، میں فوراً روزنامہ مساوات کے دفتر پہنچا اور ایک کالم لکھ ڈالا،۔۔۔۔کالم کی سرخی تھی، شاہ زیب اداکار گوتم کی بیٹھک سے برآمد،میں نے مصور کے مالکان، شاہ زیب کے وارثان اور فلمی جریدے کے قارئین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ شاہ زیب کو ادھیڑ عمر ایکٹر کی بیٹھک سے بازیاب کرا لیا گیا ہے، اس لئے امید کی جاتی ہے کہ پولیس نہ صرف شاہ زیب کا طبی معائنہ کرائے گی بلکہ ایک خوبصورت، نو عمر نوجوان کو اغواء کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں گوتم کے خلاف مناسب کارروائی بھی کرے گی۔۔کالم چھپ گیارات کو گھر پہنچا تو ابا جی انتہائی غصے کے عالم میں میرے منتظر تھے، مجھے دیکھتے ہی ان کا پہلا جملہ تھا، الو کے پٹھے یہ تم نے کیا لکھ دیا؟ اور ، اور بہت سی گالیاں۔۔۔