کالم کے موضوع پر تو بعد میں آئیں گے پہلے کچھ ذکر 92چینل اور اخبار کا ہو جائے۔ دنیا بھر میں کامیابی کی کوئی داستان اٹھا کر دیکھ لیں، اس کامیابی کی تہہ میں آپ کو تین باتیں ضرور نظر آئیں گی۔ وژن، اعتماد اور محنت۔ جن لوگوں کو اپنے وژن پر یقین کامل ہوتا ہے تو وہ کامیابی و ناکامی سے بے نیازی ہو کر ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے کام کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یہی بے دھڑک آغاز ان کی کامیابی کا راز ہے۔ وہ لوگ یا ادارے جو گومگو، کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے کے ادھیڑ بن میں گرفتار ہو جاتے ہیں، وہ بیچارے طوفانوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور ساحلوں پر ہی سفینوں کو ڈبو دیتے ہیں۔ کامیابی او ربڑی کامیابی کی دوسری شرط اعتماد ہے۔ ’’کاروباری اعتماد‘‘ اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے۔ ادارے کے مالکان کا اپنے اوپر اور اپنی ٹیم پر اعتماد۔ کامیابی کی تیسری شرط صدقِ دل کے ساتھ محنت ہے۔ 92چینل کی دو روز قبل چوتھی سالگرہ کے موقع پر ادارے کی صرف چار برس کے مختصر عرصے میں حیران کن کامیابی کا راز بھی اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط میں مضمر ہے۔ چوتھی سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہوئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی یہی باتیں کہیں۔ 92چینل اور اخبار کی مدارالمہام تینوں شخصیات میاں محمد حنیف، میاں عبدالرشید اور محمد حیدر امین میں ایک خوبی بہت نمایاں ہے اور وہ ہے اپنی ٹیم پر مکمل اعتماد۔ انگریزی محاورے کے مطابق آدھا اعتماد بے اعتمادی کے مترادف ہوتا ہے۔ ان دنوں میڈیا کی دنیا میں آجر اور اجیر میں بے اعتمادی کی فضا ہے اور اکثر میڈیا ہائوسز اور اخبارات کے بارے میں یہی شنید ہے کہ وہاں رپورٹروں، صحافیوں اور دیگر کارکنان کی چھانٹی کی جارہی ہے اور ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ یہاں 92چینل اور اخبار سے کسی ایک فرد کو فارغ کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی کے مشاہرے یا معاوضے میں کوئی کٹوتی کی گئی ہے۔ باہمی اعتماد کی یہ مثالی فضا دیگر اداروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب آئیے آج کے موضوع کی طرف استاد قمر جلالوی نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے ؎ محبت کی رُوداد تو ایک ہی ہے مگر داستانیں بنا لی گئی ہیں یہی بات ہماری سیاست پر بھی صادق آتی ہے۔ پاکستانی سیاست کی روداد تو ایک ہی ہے مگر حسب ضرورت داستانیں بنا لی جاتی ہے بلکہ ’’حسب ضرورت‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’نظریہ ضرورت‘‘ بھی دریافت کر لیا جاتا ہے۔ پنجاب کے سینئر وزیر اور عمران خان کے ہمدمِ دیرینہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے بارے میں بعض حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کی گرفتاری مزید کئی بڑے سیاست دانوں کو تہہ دام لانے کے لیے کی گئی ہے۔ ایک اور عمومی تاثر کا وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ علیم خان کی گرفتاری بیلنس کرنے کی کوشش ہے جبکہ خود علیم خان نے احتساب عدالت میں کہا ہے کہ میرے وکلاء نے چیئرمین نیب کو میرے علم کے بغیر ایک خط لکھا تھا جس پر چیئرمین نیب ناراض ہیں، اسی لیے مجھے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ نیب نے علیم خان کے تاثر کی سختی سے تردید کی ہے۔ کس کا یقین کیجئے کس کا نہ کیجئے لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ بعض حلقوں کی رائے یہ بھی ہے کہ جس طرح سے نواز شریف کی نا اہلیت کو بیلنس کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کو بھی نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ اب اسی طرح شہباز شریف کی گرفتاری اور اپوزیشن کے مزید قائدین کی گرفتاریوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے عبدالعلیم خان کو دکھاوے کے طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض سیاست دانوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ وسیع پیمانے پر ہر سیاسی جماعت کے قائدین کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاریوں اور عمران خان کی حکومت کی ممکنہ ناکامی کی بنا پر کہیں بساطِ سیاست ہی سمیٹ نہ دی جائے۔ موجودہ ملکی و عالمی حالات کے پیش نظر ایسا کوئی خدشہ بعید از قیاس متحدہ و متفقہ آئین توڑنا ممکن نہیں اور ہماری معلومات کے مطابق نہ ہی ایسی سوچ کہیں موجود ہے۔ ایسے خدشات سے اجتناب کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو دو کام کرنے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دینی چاہیے۔ حکومت کو تو چاہیے کہ وہ گڈ گورننس کو یقینی بنائے۔ سانحۂ ساہیوال کو جس طرح سے صوبائی و وفاقی حکومت نے ہینڈل کیا ہے اس سے پی ٹی آئی کی گورننس کا بڑا خراب امیج سامنے آیا ہے۔ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہونے کی بجائے اپوزیشن سے مرکز اور پنجاب میں قانون سازی اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے بھرپور تعاون حاصل کرے اور بلا جواز اپوزیشن پر روایتی تیراندازی سے باز رہے۔ اس کے علاوہ حکومت ناروا مہنگائی کے فیلِ بے زنجیر کو روکنے کی کوشش کرے۔ گیس کے ہوش ربا بلوں کا تو خود وزیر اعظم عمران خان نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے وہ دوباتوں پر بھرپور توجہ دے ایک تو یہ کہ حکمران جماعت کے ساتھ مل کر قانون سازی میں ہر ممکن تعاون کرے اور پارلیمنٹ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا زیادہ فائدہ سیاست دانوں کو ہو گا۔ پارلیمنٹ جتنا کمزور ہو گی اس کا نقصان سیاست اور سیاست دانوں دونوں کو ہوگا۔ مگر اس کا کیا کیجئے کہ بات بات پر حکومت اور اپوزیشن کے سیاست دان عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے اپوزیشن کہا کرتی تھی کہ نیب کے اختیارات لامحدود ہیں ان میں تبدیلی ازبس ضروری ہے۔ اب تو حکومت بھی اسی ضرورت کو محسوس کرتی ہے جب کچھ مدت پہلے کے پی کے میں سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بارے میں عمران خان کے خلاف نیب میں درج مقدمے کا تذکرہ آیا تو اس پر فواد چودھری بہت برہم ہوئے اور نیب کے خلاف گرجے برسے تھے۔ نیب کو بلا شبہ بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ گرفتار کرنے، اپنے پاس حوالات میں رکھنے، جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے اور مدت تفتیش کا تعین کرنے کے بارے میں کوئی ’’سائٹیفک‘‘ معین قسم کا پیمانہ نہیں۔ اس کے علاوہ نیب کے چیئرمین نیب کے تفتیشی افسران اور نیب عدالتوں کے بعض ججز صاحبان کے لب و لہجے میں اکثر اوقات غم و غصہ اور طنز و طعنہ کا تاثر نمایاں ہوتا ہے۔وزیر قانون فروغ نسیم اور سنجیدہ فکر آدمی ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتیں کرنے اور نیب کے قواعدو ضوابط میں ردوبدل لانے کے لیے ہوم ورک کرنے کا اعتراف کیا ہے مگر جب یہ معاملہ کابینہ میں گیا تو وہاں سے اس کی منظوری نہ ملی۔ مسلم لیگ(ن) کے راجہ قمر الاسلام آٹھ ماہ تک نیب کی تحویل میں رہے۔ پھر ہائی کورٹ نے انہیں بے قصور قرار دے کر رہا کر دیا۔ ہائی کورٹ نے اس فیصلے میں نیب کو بڑے سخت الفاظ میں تنبیہہ کی گئی ہے۔ راجہ صاحب نے ریاست سے اپنے آٹھ ماہ اور ملیا میٹ ساکھ کا حساب مانگ لیا ہے۔ علیم خان پنجاب میں تحریکِ انصاف کا مرکز و محور تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کا کون پرسانِ حال ہو گا۔ہماری معلومات کے مطابق نہ کچھ ’’حسب ضرورت‘‘ ہونے والا ہے اور نہ ہی کہیں ’’نظریہ ضرورت‘‘ حرکت میں آتا دکھائی دیتا ہے۔ البتہ سیاست دانوں کو بے حد احتیاط سے کام لینے اور پارلیمنٹ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔