تاریخ بزدلوں کو نہیں،بہادروںکو یاد رکھتی ہے۔میسور کے ٹیپو نے کہا تھا :شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری،میاں شہباز شریف سمیت پی ڈی ایم اے کے درجن سے زائد لیڈران کے پاس بہترین موقع۔عمران خاں کے بیانیے کو شکست دیکر آئندہ کئی برس حکومت کر سکتے ہیں ۔مگر اس کے لیے ہمت چاہیے۔ بہادری ،جرات،پختہ عزم اور بے داغ ماضی ۔ عمران خاں اپنے بیانیے پر ڈٹا ہوا ۔اسی بنا پر سینہ ٹھونک کر میدان میں اترا ۔کیادرجن بھر لیڈران کو بھی اپنے بیانیے پر ناز ہے ؟ اس وقت صرف اور صرف بیانیے کی لڑائی جاری ہے ۔عمران خاں اپنے بیانیے کو سچا،پی ڈی ایم جھوٹا قرار دیتا ہے ۔سچ اور جھوٹ کا فیصلہ میدان سیاست میں ہی ہونا چاہیے ۔ ماہر نفسیات نپولین ہل نے ڈیل کارینگی سے سوال کیا۔ایک اچھے اورکامیاب لیڈر کی ذات میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔تو کارینگی نے جواب میںکامیاب لیڈر کی خوبیاں گنوا دیں۔ (1)’’تعین مقصد ‘‘ اور اس کو حاصل کرنے کے لیے خاکہ تیار کرنا (2)ایسے مقصد کا انتخاب جو جدوجہدمسلسل پر اکسا سکے (3) اشتراک عمل کے اصول پر عمل کرنا(4) صبرو تحمل(5) تربیت نفس(6)اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے خود اعتمادی (7) واقعات پر احسن رائے قائم کرنا (8) بروقت فیصلہ کرنے کی قوت (9)سوچنے کی طاقت (10) لوگوں میں جوش پیدا کرنے اور انھیں قابو میں رکھنے کی صلاحیت (11) ہر حال میں راست باز اور دیانتدار ہونا (12) رواداری (13) بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالنا(14) وقت اور موقع محل کی نزاکت کو سامنے رکھ کر کام کرنا (15) معاوضہ سے بے نیاز ہوکر زیادہ کام کر نے کی عادت (16) استقلال (17)جزئیات کا مطالعہ کرنا (18) بلا جوش میں آئے تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت (19) کھانے پینے سمیت تمام چیزوں میں اعتدال (20) لوگوں کی بنیادی کمزوریوں سے واقفیت(21) جو لوگ مستحق ہیں ان سے سچائی اور صاف بیانی سے کام لے ، بات کو ٹالنے یا پہلو بچانے کے لیے حیلہ و بہانہ کرنا اچھا نہیں (22) جن لوگوں کی وفاداری ضروری ہے ان کے ساتھ وفادار رہنا (23) جذبہ جنسی (24) جذبہ محبت (25) مالی منفعت کی عدم خواہش (26) آزادی تحریر و تقریر کا جذبہ(27) آزادی کی خواہش (28) حفظ نفس (29) حیات بعد ممات کی خواہش (30) جذبہ غیض وغضب، جذبہ خوف۔ جو شخص انسان کے ان جذبات کو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ کامیاب لیڈر نہیں بن سکتا۔ موجودہ سیاستدانو ن میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں بلکہ وہ قریب سے بھی نہیں گزرے ۔ لیڈر کا کام قوم کے ہر فرد میں ہمت طاقت، چستی،جوش، ولولہ اور حوصلہ بھر نا،اس سے زوال پذیر قوم بھی زندہ ہو سکتی ہے۔بدقسمتی سے قائد اعظم ؒ کے بعد کسی نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جیسے برف کے دو گالے ایک جیسے نہیں ہوتے، اسی طرح دو لیڈروں کا طرزِ قیادت بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔قوتِ فیصلہ ، تمام حقائق کی جانچ پڑتال کر کے بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اپنی کتاب ’’امید اور تاریخ کے درمیان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک پرانے گیت کے بول ہیں۔ ’ہر آدمی اور ہر قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن گھڑی آتی ہے…‘ انجیل ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جہاں بصیرت نہیں ہوتی، وہاں لوگ مبتلائے مصیبت ہوتے ہیں۔ میری سوچ حکومت کو بڑھاوا دینے کی نہیں بلکہ اسے کامل و اکمل اور عوام کا ایک بہتر خادم بنانے کی ہے۔‘‘مگر ہمارا طرز عمل دوسرا۔ یہاں اقتدار کو طول دینے بلکہ چمٹے رہنے کی روایت۔ لیڈر کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ مشکل ترین وقت میں میدان میں اترتا ہے ۔کرکٹ میں جب سبھی کھلاڑی آوٹ ہو رہے ہوں توکپتان ڈٹ کر وکٹ پر کھڑا ہوتا ہے ،یہی اس کی قیادت کا امتحان ہے ۔اس وقت پی ٹی آئی سیاسی طور پر مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے ۔ان حالات میں کپتان کا میدان میں آنا ،اپنی کارکنوں کے حوصلے بڑھانے کے مترادف ہے ۔ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں : ہم ان کے لیے زمین اتنی گرم کر دیں گے کہ وہ پائوں بھی نہیں رکھ سکیں گے ۔اب مولانا کے لیے موقع ہے کہ وہ 9سیٹوں پر الیکشن کے لیے میدان میں اتریں۔مستقبل کی سیاست کا یہی ریفرنڈم ہو گا ۔ اسی طرح زمین گرم ہو گی ۔مولانا کے سیاسی نامہ اعمال میں بقول ان کے حسبہ بل سے لیکر مدارس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔بیان بازی کی بجائے انھیں خود میدان میں آنا چاہیے تاکہ روز روز کی توں تکرار کا ایک بار ہی فیصلہ ہو جائے ۔ آصف علی زرداری کے پاس سندھ کی حکومت ہے۔13برس سے ان کی جماعت سندھیوں کی خدمت کر رہی ہے ۔چلیں وہ پورے پاکستا ن میں مقابلہ نہیں کر سکتے تو کم از کم سندھ میں کر لیں ۔تاکہ عمران کا بیانیہ دفن ہو جائے ۔ میاںشہباز شریف کے سیاسی نامہ اعمال میں پنجاب کی دس سالہ کارکردگی،لیپ ٹاپ،کئی پل، سڑکیں، میٹروٹرین ،اورنج ٹرین سمیت کئی کام ہیں۔ اس وقت وہ وزیرا عظم بھی ہیں ،انھیں خو دمقابلے کے لیے میدان میں اترنا چاہیے کہ عمران خاں کو شکست دی جا سکے ۔لیکن وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ ان تین لیڈران کے علاوہ باقیوں کی مثال ڈھول باجے والی ہے ۔کئی لیڈران کے پاس تو اپنا حلقہ انتخاب بھی نہیں ۔سیاستدانوں کے مقابلے الیکشن میں ہی ہوتے ہیں ۔یہ وقت خود کو لیڈر ثابت کرنے کا ہے ۔لہٰذا بسم اللہ کریں۔ یاد رکھیں !بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے۔ اس کی تقدیر میں طوفان ہوتے ہیں نہ کوئی ساحل۔ دنیا میں بزدلوں کے لیے کو ئی جگہ ہوتی ہے نہ تاریخ ایسے افراد کو محفوظ رکھتی ہے ۔