’’پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دے گا‘‘ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا فیصلہ کن اور دو ٹوک پیرائے میں یہ مضبوط موقف‘ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔اس برجستہ جواب کا سراہا جانا ایک لازمی امر تھا‘انہوں نے مزید کہا:ایسا ممکن ہی نہیں کہ سی آئی اے یا امریکی فورسز کو افغانستان میں کارروائی کیلئے اپنی زمین استعمال کرنے دیں ،پاکستانی وزیر اعظم کے اس دو ٹوک موقف پر‘امریکی ٹی وی ایچ بی او کے پروگرام’’ایگزیوس‘‘کے اینکر جوناتھن سوان کی حیرت زدگی قابل دید تھی۔اس نے وزیر اعظم کے اس ردعمل کی مزید تصدیق کیلئے سوال کیا‘کیا واقعی۔۔۔حکومت پاکستان کے دیگر اداروں‘کابینہ اجلاس سمیت مختلف اہم فورمز پربھی پاکستان میں امریکی ایئر بیس کے امکان کو یکسر انداز میں مسترد کیا گیا ہے۔مزید برآں افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد قیام امن کی ذمہ داری تمام شراکت داروں کو نبھانے کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے۔ اس خطے کاافغانستان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ایک طویل عرصے تک افغانی النسل خلجی‘تغلق‘لودھی اور سوری حکومت کرتے رہے‘بالخصوص شیر شاہ سوری۔برصغیر کا عہد ساز حکمران‘جو مغلوں کی معرکہ آرائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔خود مغل بھی افغانستان کے راستے‘برصغیر میں داخل ہوئے بلکہ احمد شاہ ابدالی اور درانی تک تمام فاتحین کی برصغیر آمد اسی افغانستان کے راستے ہی سے ہوئی‘بلکہ احمد شاہ ابدالی اور درانی نے برصغیر میں ابتری اور خلفشار کے دور میں‘جبکہ مرہٹے معاشرتی امن و امان تباہ کرنے کے درپے تھے،برصغیر پر حملہ آور ہو کر‘انکی قوت کو پاش پاش کیا۔برصغیر میں صوفیا و اولیاء کے امام حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ تو بالخصوص غزنی عہد اور غزنہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی جلیل القدر ہستی ہیں‘جن کو اقبال نے،اس سرزمین میں شجرِ اسلام کا بیج بونے والی شخصیت سے تعبیر فرمایا کہ: درزمین ہند تخم سجدہ ریخت یہ الگ بات کہ آپ نے اس عہد کے سب نمائندہ ٹائیٹل غزنی یا غزنوی کو نظر انداز فرماتے ہوئے‘اپنے آبائی محلے ہجویر اور جلاب کو پذیرائی بخشی،پھر یہی علاقائی نسبت‘ آپؒکے نام کا مستقل حصہ قرار پا گئیں‘آپ کے حجرۂ مرقد میں آپ کے دائیں‘بائیں دو قبریں‘جن کے مختصر نشان موجود ہیں‘ان میں ایک ابو سعید ہجویری اور دوسرے حماد۔آپکے رفیق سفر اور ساتھی تھے‘ابوسعید،جن کے تصوف اور مبادیاتِ تصوف کے حوالے سے سوالات کے جواب دیتے ہوئے آپؒ نے کشف المحجوب جیسی معرکتہ الارا تصنیف دنیا کو عطا فرما دی‘ جسکا شمار محض امہات کتب تصوف ہی میں نہیں ہوتا بلکہ یہ کتاب اصول دین اور مضامین شریعت کے حوالے سے بھی معتبر اور مستند مقام کی حامل ہے۔حضرت داتا گنج بخشؒ کو جب ہم صوفیا کا قافلہ سالار کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مابعد بھی انہی راستوں سے اولوالعزم ہستیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا‘جیسے حضرت میراں حسین زنجانیؒ‘حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ‘بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ۔۔۔جن کے دادا قاضی شعیب کا تعلق نہ صرف کابل سے تھا‘بلکہ آپ کا خاندان وہاں کی فرمانروائی کا اعزاز بھی رکھتا تھا۔ قاضی شعیب اپنے تینوں بیٹوں،عقیدت مندوں‘فوج اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ پہلے لاہور اور پھر قصور تشریف فرما ہوئے‘قصور کے قاضی نے ملتان کے حاکم کی توجہ ان کی جانب مبذول کروائی،بادشاہ نے عزت و تکریم کا اہتمام کیا‘چنانچہ قاضی شعیب ملتان کے قریب واقع،موضع کھتوال میں رہائش پذیر اور قاضی کے منصب پر فائز ہوئے۔یہی پر قاضی شعیب کے منجھلے بیٹے جمال الدین سلیمان کے ہاں 1173-74ء میں حضرت بابا فرید الدینؒ کی ولادت ہوئی۔ چشتی سلسلے کا تو اہم ترین مرکز بلکہ اس کی وجہ تسمیہ ہی افغانستان کے شہر’’چشت‘‘کے سبب ہے،اس عہد میں افغانستان میں ہری رود کے قریب تین شہر آباد تھے‘فیروز کوہ‘چشت اور جام۔یہ تینوں شہر ایک ہی وقت میں معروف ہوئے۔فیروزکوہ۔شہاب الدین غوری کا درالسلطنت’’جام‘‘ ایک تمدنی مرکز اور ’’چشت‘‘جہاں شیخ ابواسحاق شامی کے ورود مسعود کے سبب چشتی سلسلے کی داغ بیل ڈلی۔ محمود غزنوی اور محمد غوری نے برصغیر میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی،جو قیام پاکستان کی بنیاد ثابت ہوئی۔ گویا افغان یا پٹھان۔برصغیر میں اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے علمبردار ثابت ہوئے۔انہی کے سبب یہاں پر فارسی کی ترویج ہوئی اور ہماری روایتی دینی درسیات اور مدرسہ سسٹم بھی افغانستان کے راستے ہی سے اس خطے میں پہنچا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال ہمیشہ اس خطے کو غیر معمولی اہمیت دیتے رہے۔1933ء میں سفر افغانستان کے دوران علامہ سید سلمان ندوی کی موجودگی میں وسطی ایشیا کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اقبال نے پشین گوئی کی تھی کہ مستقبل میں بحری راستوں کی بجائے برّی راستے اہمیت اختیار کر جائیں گے اور آئندہ سنٹرل ایشیا کا راستہ مشرق کو مغرب سے ملائے گا اور یوں یہ راستہ اسلامی ملکوں سے ہو کر گزرے گا۔اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی ترقی کے امکان پیدا ہونگے اور یوں پہلے کی طرح افغانستان کو دنیا کی شاہراہ بننے کا موقع ملے گا۔ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیتے ہوئے‘افغانستان کی سلامتی اور امن کو پورے ایشیا کا امن اور استحکام قرار دیا تھا اور افغانستان کے اندر افراتفری،بدامنی،فساد اور عدم استحکام کو پورے ایشیا کے عدم استحکام اور فساد سے تعبیر کیا۔اقبال نے جاوید نامہ میں بھی افغان خطے کے امن و امان کی اہمیت کو واضح انداز میں بیان کیا: آسیا یک پیکر آب و گل است ملّت افغاں درآں پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در کشادِ او کشادِ آسیا صرف افغان خطے پر ہی موقوف نہیں‘مسلم ممالک میں جہاں جہاں عروج‘ارتقا‘بلندی‘پیشوائی اور آزادی و بیداری کے امکانات اور مختلف تحریکیں روبہ عمل تھیں۔اقبال نے ان کو سراہا،حوصلہ دیا اورخراج تحسین پیش کیا اور پورے عالم اسلام نے ان کے اس پیغام کو گہری توجہ کا مستحق جانا اور ان کے خیالات و افکار کا اثر قبول کیا۔جسکے نتیجہ میں ممالک اسلامیہ میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ان کے حوصلے بلند اور ان میں باہم اشتراک و اتحاد اور ملت اسلامیہ کے احیا کا نیا شعور پیدا ہوا۔علامہ اقبال افغان لیڈر امیر امان اللہ خان کے بھی حامی تھے۔’’پیام مشرق‘‘کی تصنیف کا سلسلہ 1918ء سے شروع ہو کر 1922ء پہ ختم ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا امیر امان اللہ خاں ہندی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے،امیر موصوف اپنے باپ امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد 1919ء میں تخت نشین ہوئے۔انہوں نے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کیا کہ وہ افغانستان کی سیاست خارجہ پر اثر انداز ہوتے ہیں،امیر موصوف اسے غلامی تصور کرتے تھے۔ انگریزوں نے پہلے معرکے میں شکست کھائی اور افغانستان سے صلح کے لئے تیار ہو گئے،راولپنڈی میں صلح نامہ مرتب ہوا‘جس کی رو سے برطانیہ نے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کر لیا۔آزادی کے بعد امیر موصوف نے قومی اور ملکی اصلاحات پر توجہ دی۔شروع میں انہیں کامیابی میسر آئی،جس کے سبب ان سے بہت توقعات وابستہ کر لیں اور اپنی مایہ تصنیف ’’پیام مشرق‘‘ کو ان سے منسوب کر دیا اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں: اس وقت دنیا میں بالخصوص مشرقی ممالک میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قومی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو‘ قابل احترام ہے۔اسی بناء پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرمانروا نے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طور پر مدّنظر ہے۔اس عظیم الشان کام میں خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔علامہ اقبال نے اس موقع پر‘ نہایت خلوص کے ساتھ ملّی،مذہبی اور سیاسی ترقی کا پروگرام مرتب کر کے،امیر موصوف کی خدمت میں پیش کیا تھا۔اگر وہ اس کو مدنظر رکھتے تو وہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو جاتے۔یہ پیشکش سات بند پر مشتمل ہے۔ پہلے بند میں شاعر نے اپنا مدعا بیان کیا ہے‘دوسرے بند میں گوئٹے سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے اپنی قوم کی کوتاہ نظری کا شکوہ کیا ہے۔تیسرے بند میں مسلمانان عالم کی حالت زار‘ چوتھے میں اپنے ممدوح سے خطاب۔جس کے آخری شعر میں وہ نصب العین مقرر کیا ہے۔جسے پھر مسلمانوں کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ وہ ملت کے لئے سرمایہ قوت بن سکے پانچویں بند میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ ترقی کے لئے حکمت اور دولت ضروری ہے،چھٹے بند میں ممدوح کو مشورہ دیا گیا ہے کہ ارکان دوست کے انتخاب میں بہت دانائی سے کام لینا چاہیے۔ساتویں بند میں اپنے ممدوح کو اصلاح باطن کا مشورہ دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر شان فقر پیدا نہیں ہوتی‘ یعنی ’’فقر‘‘ کے بغیر مسلمان حکمران اور چنگیز یا ہلاکو میں کوئی فرق نہیں۔دراصل یہ کوئی قصیدہ نہیں بلکہ اس کے توسط سے ہر حکمران کے لئے نصیحت اور غیرت و خود داری کا وہ سبق،جس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صحافی کے سوال کے جواب میں کیا ہے،آخر میں تیسرے بند کا آخری شعر،جو اختتام کے لئے رکھا تھا: در مسلماں شان محبوبی نماند خالد و فاروق و ایوبی نماند یعنی مسلمان میں شان محبوبی نہ رہی۔ خالد بن ولیدؓ‘عمر فاروقِ اعظمؓاور صلاح الدین ایوبیؒ کے اوصاف اور جذبہ شجاعت و بساعت اور سرفروشی نہ رہی۔