چائے کا گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتارتے ہوئے میں ٹی ایس ایلیٹ کی شہرہ آفاق نظم ۔دی ویسٹ لینڈ The weste land سن رہی تھی۔جی ہاں سن رہی تھی اور وہ بھی ٹی ایس ایلیٹ کی اپنی آواز میں۔ ٹیکنالوجی کمال ہے کہ وقت مجھے بیسیویں صدی کی دوسری دہائی میں لے گیا ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد کا زمانہ۔ انسانی جانوں کا بے تحاشا ضیاع۔ موت کی دہشت۔ ناقابل تلافی نقصان۔ ڈس ایلوژن منٹ کا گہرا احساس‘ قدروں کا کھو جانا۔ مادیت پرستی کا سیلاب‘ اور روحانی خلاء سے پیدا ہونے والے احساس کو ٹی ایس ایلیٹ نے ایک طویل نظم۔ دی ویسٹ لینڈ، میں ڈھالا۔434لائنوں کی طویل ایک نظم اس شکل میں آنے سے پہلے کم و بیش اس سے دوگنی طوالت پر مشتمل تھی۔ ٹی ایس ایلیٹ نے یہ نظم اپنے دوست ہمعصر شاعر ایذرا پائونڈ کو نظر ثانی کے لئے دی۔نظر ثانی کرتے ہوئے ایذرا پائونڈ نے اس طویل نظم کی کم و بیش آدھی لائنیں ایڈٹ کر دیں، ایلیٹ نے یہ نظم اپنے اسی دوست اور نامور شاعر ایذرا پائونڈ کے نام منسوب کر دی، یہ وہی ایذرا پائونڈ ہیں، جن کی موت پر ہمارے نظم کے طرح دار شاعر اختر حسین جعفری نے یہ لازوال نظم کہیں۔ تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں‘تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے۔ اب مگر درختوں کے ہاتھ سبزے کی تھالیوں سے بھرے ہیں‘موسم بہار ہے اور شاخیں پھولوں سے لدھی ہیں، مگر اس موسم بہار میں وبا کی زردی گھلی ہوئی ہے۔ آئے روز جانے والوں کی خبریں دل کو ایک رنج سے دوچار کرتی ہیں۔اپریل کی بہار بہت پربہار سہی مگر فضا میں وبا کے تاریک سائے لرزتے ہیں۔ خبروں کے بلیٹن ‘کوویڈ کے پھیلائو کی تشویش ناک اطلاع دیتے ہیں، دوست احباب میں بھی کورونا کی لپیٹ میں آنے والوں کی خبریں بڑھتی جاتی ہیں۔ صحت یاب ہونے کا تناسب اگرچہ حوصلہ افزا ہے مگر مکمل صحت یابی سے پہلے کے مراحل بہت توجہ طلب ہیں۔ پرسوں یہ افسوسناک خبر ملی کہ ڈپٹی سیکرٹری لاء حکومت پنجاب‘ رئیس مختار جو ہمارے لئے مختار بھائی تھے کورونا کی نذر ہو گئے۔ بیماری ایسے حملہ آور ہوئی کہ صرف چار دن بمشکل ہسپتال میں گزارے اور زندگی موت سے ہار گئی۔ خان پور کے مضافاتی قصبے خان بیلہ کے غریب گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ محنت کشوں مزدوروں کا گھرانہ تھا اور سوچا نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی بچہ سکول کی چار پانچ جماعتوں سے آگے پڑھ جائے۔ مختار بھائی غیر معمولی محنتی اور ذہین تھے، ایم اے انگریزی میں گولڈ میڈل لیا۔میرے بڑے بھائی جان اور مختار بھائی میں دوستانہ بھی تھا اور اپنے خوابوں کو پانے کے لئے دونوں نے کئی حوالوں سے اکٹھے جدوجہد کی۔ ایم اے انگریزی کے بعد کالج میں بھی پڑھایا، اسی لئے وہ اب تک پروفیسر مختار کے نام سے زیادہ بلائے جاتے تھے۔ مسلسل محنت سے ایک مثال قائم کی۔ آہ!کیسی کیسی قیمتی زندگیاں وبا کے منحوس ہاتھوں میں ارزاں ہو گئیں۔ کل ممتاز عوامی گائیک شوکت علی بھی آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ اپنے رنگ ڈھنگ اور اپنے طور اطوار میں وہ یکتا گائیک تھے۔ جذبے کی پوری طاقت‘ آواز کی تان آسمانوں تک لے جاتی۔ وطن کے گیت گاتے ہوئے‘ وہ پورے کے پورے اپنی توانا آواز میں ڈھل جاتے۔ دھرتی سے جڑا ہوا سچا فنکار تھا ،رخصت ہوا تو پاکستانیوں نے بھی دل کھول کر اپنے گلو کار کو خراج تحسین پیش کیا۔ممتاز دانشور صحافی۔محمود شام نے اپنی مختصر نظم میں پنجاب کے اس عظیم گائیک کو کیسا عمدہ خراج تحسین پیش کیا۔ تان ٹوٹی ہے صدا ڈوب گئی۔! نغمگی دفن ہوئی۔سوز دروں سرد ہوا دشت و صحرا میں خموشی ہے۔ چمن سوکھ گیا کھیت کلیان کی پلکیں بھیگیں ۔ محفلیں خواب ہوئیں! جام و سبو خالی ہیں۔ گلی کوچوں میں غموں کے ڈیرے اب وہ آواز کہاں میلہ سجانے والی جل مجھے عشق کو پھر شعلہ بنانے والی۔!! گزشتہ برس بھی انہی دنوں میں کورونا کے پھیلنے کی اطلاعات تھیں ۔ لاک ڈائون تھا۔ خانہ محصوری کے دن تھے۔ احتیاطیں اور دعائیں تھیں۔موسم گرما 2020ء کے بعد کچھ عرصہ بہتر بھی گزرا۔ اللہ کے خاص کرم سے وبا ہمارے ملک میں نسبتاً کنٹرول میں رہی۔ توقع تھی کہ 2021ء کا موسم بہار بہتر ہو گا۔ ویکسین کے آنے پر بھی اچھی توقعات تھیں کہ بیماری کنٹرول ہونا شروع ہو جائے گی مگر اس وقت کے حالات ہماری امید اور توقع کے برعکس ہیں۔ اگرچہ ویکسین بھی لگنا شروع ہو گئی ہے مگر وبا پھر بھی اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اپنے ذھن کو پرامید رکھنا اور مثبت سوچ سے ہوا دار رکھنا بے حد ضروری ہے۔ کل ایک دوست کا فون آیا کہنے لگی کہ ڈیپریشن زیادہ ہو رہا ہے، کبھی کبھی اینگزائٹی کے عالم میں محسوس ہوتا ہے، کہ سانس رکنے لگا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ کورونا کا حملہ ہو گیا۔ ایک آدھ بار اسے پینک اٹیک میں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا پڑا کہ سانس لینے میں دشواری تھی،جہاں معالج نے تشخیص کی کہ ایسا کچھ نہیں ہے، بس یہ شدید ذہنی دبائو کا ایک حملہ ہے، جسے اینگزائٹی یا پینک اٹیک کہتے ہیں۔ جسمانی مدافعتی نظام کے ساتھ ساتھ روحانی مدافعتی نظام کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ دی ویسٹ لینڈ کی شہرہ آفاق نظم کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ انسان کی نجات Spirlual healingسے جڑی ہے۔ اس نظم کے آخری الفاظ Shantih shantihہیں۔ سنسکرت لفظ شانتی یعنی سکون۔ امن سلجھائو جو روحانیت سے جڑے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ وبا کے اس کڑے موسم میں‘ اپنی سپر چوئیل ہیلنگ پر خاص توجہ دیں کیسے؟اس پر پھر بات ہو گی۔ سردست 1922ء میں چلتے ہیں اور ٹی ایس ایلیٹ کی آواز میں اس کی بے مثال نظم سنتے ہیں۔ April is the cruellest month breeding Lilacs out of the dead land' mixng Memory and desire' stirring dull roots with spring rain.