آئرلینڈ کے 74 سالہ ہگنز کا دعویٰ ہے کہ اس کی عمر جب 17 سال تھی تو ایک خلائی عورت نے اس کے ساتھ می ٹو کیا تھا۔ ہگنز کئی عشروں سے لوگوں کو اپنی کہانی سچی ہونے کا یقین دلا رہا ہے۔ خلائی مخلوق کی موجودگی کی گواہی دینے والے پاکستانی سائنس دان میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق ان کی بہادری‘ قادرالکلامی اور عوامی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ کوئی اور اس بات کو تسلیم کرے نہ کرے مگر میں میاں نوازشریف کی بات ماننے کو تیار ہوں کیونکہ کل میرے سامنے خلائی مخلوق کے آٹھ رکنی وفد نے رات کو وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی۔ خلائی مخلوق کی تواضع کا وہ اہتمام تو نہیں تھا جو میاں نوازشریف کے دسترخوان پر ہوتا ہے مگر تمام نعمتیں موجود تھیں۔ خلائی مخلوق نے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے عرض کی! میاں صاحب ساتھوں کیہ غلطی ہو گئی۔ عطارد سے لے کر مریخ تک کی مخلوقات سہمی ہوئی ہیں۔ اچھا بھلا عمران خان‘ آصف زرداری اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پروگرام چل رہا تھا۔ بڑے میاں صاحب ہماری عزت دائو پر لگانے پر تل گئے ہیں۔ ہم دماغ سے لڑنے اور مقابلہ کرنے والے بھلا مقوی غذا کھانے والے میاں نوازشریف کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ وفد میں خلائی فوج اور عدلیہ کے لوگ بھی تھے۔ ان کے قد ہم لوگوں سے خاصے بلند تھے۔ خلائی وفد سراسیمہ تھا کہ میاں نواز اور سٹیفن ہاکنگز نے مل کر خلائی بادشاہوں کی ذاتی زندگی‘ سٹیل اور شوگر ملوں‘ اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار بھرتی کرنے‘ قرضے معاف کرانے‘ مرسڈیزوں کی چابیاں تقسیم کرنے‘ صحافیوں کو لفافے دینے اور دھاندلی میں مدد گاروں کو اعلیٰ عہدے دینے کے جو راز جانے ہیں میاں صاحب کہیں سب کے سامنے کہہ نہ دیں۔ دو دن بعد جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی خلائی مخلوق کے متعلق بیان جاری کیا تو خلائی مخلوق کی تو شلوار گیلی ہو گئی۔ فوراً شہباز شریف سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشکل یہ پڑی کہ خلائی مخلوق کی گاڑی خراب ہو گئی۔ ہر مشکل کا حل شہبازشریف کے پاس ہوتا ہے۔ وہ اکثر لندن علاج کے لیے جاتے ہیں تو وہاں سے لاہور کے ہسپتالوں کی آن لائن مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ خلائی مخلوق نے پیغام بھیجا تو شہبازشریف نے سکائپ پر مذاکرات شروع کردیئے۔ خلائی مخلوق کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مسلم لیگ کے قائدین ان کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ خیر کافی دیر مذاکرات ہوتے رہے۔ شہبازشریف نے خلائی مخلوق سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ ان کی تسلی کے لیے بڑے بھائی کی کچھ میڈیکل رپورٹس بھی خلائی مخلوق کو دکھائی گئیں۔ یہ منورنجن ابھی جاری تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اخبارات آ چکے تھے۔ سب نے خلائی مخلوق کے متعلق بیان پر الیکشن کمیشن کاردعمل نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بیان کو آئین کی روح اور الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ کے خلاف قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ 2018ء کے عام انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے۔ الیکشن کمیشن نے ملک کے انتہائی اہم آئینی منصب پر فائز شخصیات کو الیکشن کمیشن کے متعلق ایسے بیانات جاری کرنے سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جہاں عمران خان کی پیشی پر حکومت ہر بار نئے پروپیگنڈہ حربے استعمال کیا کرتی تھی۔ حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے پانچ سال تک جس ملک پر حکمرانی کی‘ اداروں میں من پسند افراد کو تعینات کیا اور اگلے انتخابات میں کامیابی کی منصوبہ بندی کی‘ اب ایک ایک کر کے وہ ان اداروں کے خلاف بیانات جاری کر رہی ہے۔ اگر کسی کو یاد نہیں تو بتائے دیتے ہیں کہ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کے ادوار میں چودھری نثار اور شہبازشریف رات کو ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ یہ ملاقاتیں چند ہفتوں کے وقفے سے ہوتی رہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے نو ماہ کی وزارت عظمیٰ میں کتنی بار آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔ میاں نوازشریف جنرل راحیل شریف کو اندرون و بیرون ملک ساتھ لیے پھرتے تھے۔ کیا اس وقت سول ملٹری تعلقات خوشگوار تھے یا کاسمیٹک کوششوں سے خوشگوار بنا کر پیش کئے جا رہے تھے۔ میاں نوازشریف خلائی مخلوق کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ آج کل غیر سیاسی بحث کے مشہور موضوع ٹائم اینڈ سپیس کے متعلق ایک گھنٹے کی گفتگو سن کر اس پر ایک منٹ بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے‘ ان کی قابلیت تو ایک ناکارہ یو پی ایس سے بھی کمتر ہے۔ میاں صاحب آپ خلائی مخلوق کی بیالوجی اور کیمسٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ آپ کی جماعت میں پہلے ہی منطق اور دلیل کی تعلیم کم ہے‘ آپ نے صرف جگت باز اور رنگ باز جمع کئے۔ کوئی پڑھا لکھا آدمی آپ کی قربت میں ہوتا تو آپ کو سمجھاتا کہ یہ کائنات جاتی عمرہ کے 17 سو ایکڑ فارم ہائوس سے کہیں بڑی ہے۔ اتنی بڑی کہ ایک ارب جاتی عمرہ کی حیثیت مچھر کی آنکھ کے ہزار کھرب حصے سے بھی جانے کتنی کم ہے۔ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں وہاں امکانات کی کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کی شکل و صورت کا کوئی درویش دنیا کے کسی ملک میں لوگوں کو رب سے تعلق جوڑنے کی نصیحت کر رہا ہو‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی ہمشکل یورپی خاتون آپ سے ملنا بھی نہ چاہتی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خلائی مخلوق کھانے کی تلاش میں زمین پر اترے اور آپ سمیت ہم سب کو کھا جائے۔ آپ کو پتہ ہے ہم زوالوجی پارک کیوں بناتے ہیں؟ اس لیے کہ ہمیں ان مخلوقات کی ضرورت ہے۔ ہماری زندگی میں کچھ آسانیاں‘ کچھ آوازیں اور کچھ رنگ چڑیا گھر میں رکھی مخلوقات کی وجہ سے ہیں۔ ہم ان مخلوقات کو نابود ہونے سے بچانے کے لیے چڑیا گھر بناتے ہیں۔ جنگلات کو محفوظ علاقہ قرار دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ خلائی مخلوق نے ایک زوالوجی پارک بنا رکھا ہو جہاں وہ خفیہ طور پر ہمیں دیکھتی ہو۔ ہماری سوچ کو کنٹرول کرتی ہو‘ ہماری سیاست اور میڈیا کو قابو کرتی ہو‘ خلائی مخلوق ہمیں غلط معلومات فراہم کراتی ہو۔ میاں صاحب کائنات کی طرح سیاست بھی امکانات کا نام ہے۔ اگر آپ اتنے گیانی بن چکے ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔