20 فروری کو ، سندھ اسمبلی کے سپیکر اور جنابِ آصف زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے ایک لیڈر آغا سراج دُرّانی کی آمدن سے زیادہ اثاثوں کے الزام پر گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ چوری اور کرپشن میں گرفتار ہونے والے "Nelson Mandelas" بن بیٹھتے ہیں ‘‘۔ یہ وزیراعظم صاحب کا اپنا مؤقف ہے لیکن، بیک وقت اسلام آباد میں جنابِ آصف زرداری اور لندن میں جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادگار ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ ( پی ۔ پی۔ پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آغا سراج دُرّانی کی گرفتاری پر سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہُوئے ، اِسے جمہوریت پر بہت بڑا حملہ قرار دِیا ہے ۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنے بارے میں کہا کہ ’’ جیل میرا دوسرا گھرہے اور مَیںدوسرے گھر سے ڈرنے والا نہیں ہُوں ۔ ہم نے ( وزیراعظم عمران خان کی ) حکومت کو آٹھ / نو ماہ دے دئیے ہیں لیکن، اب مزید وقت نہیں دے سکتے‘‘۔ بلاول بھٹو زرداری نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنی صفائی میں کہا کہ ’’ مَیں نے زندگی میں کبھی کوئی "Corruption" نہیں کی‘‘۔ معزز قارئین!۔ جناب عمران خان نے تقریباً 6 ماہ پہلے ، 18 اگست 2018ء کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ پھر زرداری صاحب سے یہ چُوک کیسے ہوگئی؟۔ اور ہاں! لندن میں بلاول بھٹو زرداری کو اپنی پریس کانفرنس میں کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ ’’ مَیں نے تو،زندگی میں کبھی کرپشن کی ہی نہیں‘‘۔ اُستاد شاعر ، ’’پہلوانِ سُخن ‘‘امام بخش ناسخ سیفیؔ نے نہ جانے اپنی صفائی میںقسم کھاتے ہُوئے کہا تھا کہ … تلوار کچھ نہیں ، تیرے ابرو کے سامنے! باور نہ ہو تو، کھائوں قسم ذوالفقار ؔکی ؟ …O… مجھے نہیں معلوم کہ ’’ کس شاعر نے اور کسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … خُدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں! مجھے یقین ہُوا، مجھ کو اعتبار آیا! …O… جنابِ آصف زرداری کو گِلہ یہ ہے کہ ’’ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام ( یا ثبوت ) میں آغا سراج دُرّانی صاحب کو کراچی کے بجائے اسلام آباد میں گرفتار کر کے کراچی کیوں لایا گیا؟۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ شہیدؔ ذوالفقار علی بھٹواور شہید ؔمحترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں پھانسی کیوں دِی گئی اور قتل کیوں کِیا گیا ؟‘‘۔ حالانکہ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کو تو، قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے حکم سے پھانسی کی سزا دِی گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا ، اُس کے بعد جناب آصف زرداری کی پانچ سال تک حکومت رہی لیکن، وہ اور بلاول بھٹو زرداری محترمہ کے قتل میں مدّعی نہیں بنے۔ اقوامِ متحدہ کی ٹیم سے بھی تفتیش کرائی گئی لیکن، بات نہیں بنی؟۔ منی لانڈرنگ کے الزامات ( مقدمات )میں جنابِ آصف زرداری محترمہ فریال تالپور ، بلاول بھٹو زرداری اور زرداری صاحب کے کئی دوست احباب ملوث ہیں اور ضمانت پر رہا ئی حاصل کر چکے ہیں ۔ نہ جانے ضمانتیں کب منسوخ ہوجائیں ؟ اور آغا سراج درانی کے مقدمہ یا مقدمات کا کیا فیصلہ ہو فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنی پارٹی اور اپوزیشن کے دوستوں خاص طورپرفضل اُلرحمن صاحب کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے تحریک چلانے کا اعلان کردِیا ہے ۔ اُن کی مرضی لیکن، آغا سراج دُرّانی اور اُن کی اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کی پارٹیوں میں سے کسی بھی شخص کا "Nelson Mandela" کے طور پر عوام میں مقبول ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ معزز قارئین!۔ قابلِ احترام سیاسی لیڈر نیلسن مینڈیلا کا انتقال 5 دسمبر 2013ء کو ہُوا۔ جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل "Ban-Ki-Moon" سمیت دُنیا بھر کے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ، اِنسانیت کی بھلائی کے لئے جناب نیلسن مینڈیلا کی خدمات کا کُھلے دِل سے اعتراف کِیا تھا ( گورے رنگ کے حکمرانوں / سیاستدانوں نے بھی ) ۔ اُنہیں کئی ملکوں نے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا وہ جنوبی افریقہ کے’’ بابائے قوم‘‘ کہلائے ۔ نیلسن مینڈیلا نے اقتدار میں آکر مال و دولت کی طرف طائرانہ نظر بھی نہ ڈالی؟۔ جنابِ مینڈیلا کا کسی بیرونی ملک میں اکائونٹ نہیں تھا اور اُن پر اور اُن کے کسی رشتہ دار پر منی لانڈرنگ ، قومی دولت لوٹ کر بیرونی ملکوں میں جمع کرانے یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدایں بنانے کا کوئی الزام تھا اور نہ ہی اُن پر اپنے وطن کی احتساب عدالت یا سپریم کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ نیلسن منڈیلا 1994ء سے 1999ء تک جنوبی افریقہ کے منتخب صدر رہے ، جب اُنہیں اُن کی پارٹی "National African Congress" نے دوبارہ انتخاب لڑنے کو کہا تو اُنہوں نے معذرت کر لی اور اپنے نائب "Thapelo Maleke"۔ کو صدر منتخب کرادِیا۔ نیلسن مینڈیلا کو اُن کی زندگی ہی میں "Living Legend"کہا جاتا رہا ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ، جمہوریہ تُرکیہ کے بانی غازی مصطفی کمال پاشا ، امریکی صدر ابراہم لنکن عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ اور ایران کے امام خمینی کی طرح ۔ وزیراعظم عمران خان نے کرپشن اور اِسی طرح کے دوسرے مقدمات میں نامور (بدنام ) لوگوں کے لئے کہا ہے کہ ’’ اُن میں سے سب "Nelson Mandela" بن جاتے ہیں ‘‘ ۔علاّمہ اقبالؒ نے ۔’’ بن جاتے ہیں ‘‘ یا ’’ بن بیٹھتے‘‘ ہیں قسم کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ … خُدا کی شان ہے ، نا چیز ، چیز ، بن بیٹھیں! جو ، بے شعور ہُوں ، یوں با تمیز بن بیٹھیں! …O… جناب ذدوالفقار علی بھٹو نے اپنے صدر فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو ’’ ایشیا کا ڈیگال‘‘ اور صلاح اُلدّین ایوبی کا خطاب دِیا تھا لیکن، بات نہیں بنی اور خُود موصوف ’’ قائدِ عوام ‘‘ اور ’’ فخر ایشاء ‘‘ کہلائے ، پھر بھی بات نہیں بنی؟۔ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کو اُن کے ممدوحین نے ’’قائداعظم ثانی ‘‘ کا خطاب دِیا تھا، جنابِ آصف زرداری کے دورِ صدارت میں اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ’’ مادرِ ملت ثانی ‘‘ مشہور کِیا گیا۔ بات نہیں بنی؟۔ اب کوئی (جعلی / نقلی)"Nelson Mandela" بننے کی کوشش کرے گا تو، اُسے کون پوچھے گا؟۔ معزز قارئین!۔ 20 فروری ہی کو "P.E.M.R.A" کے چیئرمین پروفیسر محمد سلیم بیگ نے صدرِ مملکت جناب عارف علوی سے ملاقات کی اور اُنہیں پیمرا کی سالانہ کارکرگی رپورٹ برائے مالی سال 2015ء سے 2018ء تک پیش کی تو، صدر مملکت نے پیمرا کی کارکردگی کی تعریف کی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ جون 2018ء کے اوائل ہی میں مرزا محمد سلیم بیگ نے پیمرا کے چیئرمین کی حیثیت سے چارج سنبھالا تھا ۔ صدرِ مملکت نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی کہ’’ پیمرا دوسرے ذرائع ابلاغ کے تعاون سے جھوٹی خبروں کی حوصلہ شکنی کے لئے اہم کردار ادا کرے اور مقامی ثقافت ، سپورٹس اور تعلیم کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کرے‘‘۔ پیمرا اور دوسرے ذرائع ابلاغ ایک حد تک "Fake News and Views"کی حوصلہ شکنی کرسکتے ہیں کیونکہ اِن کی خاؔلق تو، اہم سیاسی اور سماجی شخصیات ہیں، جن کی وجہ سے بدترین جمہوریت نے فروغ پایا ۔ ہمارے اکثر سیاستدان (مذہبی قائدین بھی ) کسی مغربی مفکر کے اِس قول کی جگالی کِیا کرتے ہیں کہ ’’ بدترین جمہوریت بھی ، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ‘‘ لیکن، کسی نے نہیں بتایا کہ ’’ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال لوگ بدترین جمہوریت کو کتنی مدت تک برداشت کریں گے ؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ دراصل ۔ جھوٹؔ ہمارے اکثر سیاستدانوں کا منشور رہا ہے ( اب بھی ہے) جب بھی کوئی سیاستدان اقتدار میں آ جاتا ہے تو، مفلوک اُلحال لوگ ایوانِ صدر یا وزیراعظم ہائوس کی طرف مُنہ کر کے اکثر ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے ہُوئے اِس فلمی گیت کا مُکھڑا گُنگناتے پائے جاتے ہیں کہ … کوئی نواں ،لارا لاکے ،سانوں رول جا! جھوٹیا وے!اِک جھوٹ ہو بول جا ! …O… دیکھنا یہ ہے کہ ’’ صدر جنرل پرویز مشرف ، صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے بعد وزیراعظم عمران خان عوام سے کئے ہوئے اپنے وعدوں کا کتنا پاس کرتے ہیں ؟۔ وگرنہ "Fake Nelson Mandelas" اور "Fake News" کی اشاعت ، نشریات کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟۔