برسوں کا نہیں، صدیوں کا احساس کمتری بھارتی حکومت کو چین کا سانس نہیں لینے دیتا۔ تقسیم کے بعد پہلی بار آر ایس ایس کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ بی جے پی کیا ہے؟ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے زعم میں ایک ہزار سال کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان پر بس نہ چلے تو بھارتی مسلمان تو ان کے پنجے میں ہیں۔ وہ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ آر ایس ایس کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے شیوا جی اور افضل خان کے واقعہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ افضل خان نے شیوا جی کے گرد گھیرا تنگ کیا تو چالاک شیوا جی نے مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ شرط یہ تھی کہ فوج دور ٹھہرے گی۔ خصوصی خیمہ تانا گیا۔ بلند قامت افضل خان کے سینے میں پستہ قد شیوا جی نے گلے ملتے وقت خنجر بھونکا اور یوں ’’فتح‘‘ حاصل کرلی۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎ سچ کہتا تھا افضل خان تری پورہ تا راجستان مر گیا ہندو میں انسان مجسم فریب شیوا جی کو اورنگ زیب ’’موش کوہستانی‘‘ کہتا تھا۔ پہاڑی چوہا، آج شیوا جی کی معنوی اولاد افضل خان کے بلند قامت جانشینوں کو للکار رہی ہے۔ اس سے پہلے پستہ قد شاستری کا بلند قامت ایوب خان سے ٹاکرا تاریخ دیکھ چکی ہے۔ ہم یہاں پورے بھارت کی بات نہیں کر رہے۔ آر ایس ایس کی بات کر رہے ہیں، اس لیے کہ انصاف ہر حال میں ہونا چاہیے۔ لاکھوں ہندو آر ایس ایس کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے مگر پورے مجمع کو ہراساں کرنے کے لیے ایک سانپ کافی ہوتا ہے۔ کیا تعصب کی اس سے بدتر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ہندو پنڈت جو یوپی کا حکمران ہے، الٰہ آباد کا نام تبدیل کر رہا ہے۔ پاکستانی فوج صرف اکھنڈ بھارت کے راستے میں رکاوٹ نہیں، بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں دیوار ہے۔ مضبوط اور ٹھوس دیوار۔ میرے منہ میں خاک، پاکستانی عساکر نہ ہوتے تو بھارتی فوج کے لیے بحیرہ قلزم تک راستہ صاف تھا۔ یو اے ای، بحرین اور اومان ترنوالہ ہوتے۔ اسی خطے میں عربوں کے خلاف کچھ اتحادی بھی بھارت کو میسر آ جاتے۔ شرق اوسط کی ریاستوں کی حیثیت بھارت کے سامنے وہی ہوتی جو بنگلہ دیش، بھوٹان، سکم اور نیپال کی ہے۔ ہر ریاست میں بھارتی ’’مشیر‘‘ براجمان ہوتے جو اسی طرح حکمرانی کرتے جیسے برٹش انڈیا میں نام نہاد ریاستوں کے درباروں میں انگریز ریزیڈنٹ کیا کرتے تھے۔ مگر پاکستانی افواج، بھارت کے لیے کباب میں ہڈی ثابت ہوئیں۔ احساس کمتری کی بدتر مثال کیا ہو گی کہ کئی گنا بڑا بھارت، کئی گنا وسیع تر رقبہ، کئی گنا زیادہ مضبوط معیشت، کئی گنا بڑی آرمی، ایئرفورس اور بحریہ مگر بھارت کو ہر وقت پاکستانی افواج کا کھٹکا رہتا ہے۔ چوہے کو شیر کا تاج پہنا دیا جائے تو چوہا ہی رہتا ہے۔ بھارت کی افواج ایک ہزار گنا بھی تعداد میں زیادہ ہو جائیں، پاکستانی افواج کا ڈر پھر بھی ان کے لاشعور سے کبھی نہیں جائے گا۔ مسلمان سلاطین کا عہد شروع ہوا تو بھارتی پہنتا کیا تھا۔ صرف لنگوٹی، یہ پاجامہ، یہ کرتا اور یہ واسکٹ جو آج مودی پہن کر منہ سے آگ اگلتا ہے، یہ لباس بھی تو مسلمانوں ہی کی دین ہے۔ یہ مغل اشرافیہ کا لباس ہے۔ گاندھی اپنے اصل لباس کی طرف پلٹا۔ مودی کو بھی چاہیے کہ مسلمانوں کا لباس اتار پھینکے، لنگوٹی باندھ کر دنیا میں گھومے اور فخر سے بتائے کہ یہ ہے اصل بھارتی ’’ملبوس‘‘ یہی لباس پہن کرآگ اگلتے ارکان پارلیمنٹ لوک سبھا میں تشریف لائیں۔ بھارتی کپڑا سی ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کے پاس قینچی نہیں تھی۔ اسی لیے دھوتی ہے یا لنگوٹ یا ساری، سب ان سلے کپڑے ہیں۔ سکندر اعظم کے ہمراہ کاریگر یونان سے آئے تو ان کے پاس قینچی تھی۔ اس کے بعد ہی ہندوستان میں کپڑے کاٹنے اور سینے کا رواج پڑا۔ پاکستانی افواج سلامت رہیں ؎ وادی قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ سربکف ہوکے جوانان وطن نکلیں گے پس نوشت:۔ ایک عرصہ سے کراچی میں ایک مخصوص لسانی گروہ ’’لٹریری فیسٹیول‘‘ کا ناٹک رچا رہا ہے جس میں زیادہ پھوں پھاں انگریزی لکھنے والوں کی ہوتی ہے یا مخصوص لسانی گروہ کے بزرجمہروں کی۔ ان فیسٹیولز میں یادش بخیر انور مقصود کی خوب پذیرائی ہوتی ہے۔ انور مقصود کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس میں پنجابیوں اور سندھیوں کی تحقیر نہ ہو۔ ان دنوں ایک وڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں انور مقصود شریف برادران، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، ملک ریاض، آصف زرداری، مراد علی شاہ اورقائم علی شاہ کا خوب خوب مذاق اڑاتے ہیں مگر حیرت ہے کہ انہوں نے کبھی الطاف حسین کا ذکر نہیں کیا جو تقریر کرتے ہوئے مضحکہ خیز نقلیں اتارتے ہیں۔ گانے گاتے ہیں اور ہر ممکن اور ہر ناممکن حرکت کرتے ہیں۔ انور مقصود کو الطاف حسین تو دور کی بات ہے، فاروق ستار کا مذاق اڑانا بھی گوارا نہیں حالانکہ وہ مجسم مذاق ہیں۔ دیکھئے، اقبال کے حوالے سے پنجابیوں کی تضحیک کس طرح کر رہے ہیں۔ ’’اقبال نے جو پنجابی بولی اس میں نہ آزادیٔ افکار نہ تجدید کا پیغام نہ علم و دین نہ حیات ابدی نہ آگاہی نہ مغربی تہذیب نہ خودی کی تربیت نہ ٹیپو سلطان کی وصیت صرف ایک پنجابی مسلمان جو مرضی بولے جارہا ہے۔‘‘ آگے چل کر اقبال کو پنجابی دہقان اور محمود غزنوی کو لوٹ مار کرنے والا ثابت کیا گیا۔ تعجب ہے کہ سٹیج پر بیٹھے ہوئے جغادری ادیب سب تالیاں پیٹ رہے تھے۔ یہ اور بات کہ ان میں کوئی سندھی دانش ور تھا نہ پنجابی ادیب۔ ویسے وزن بیت پورا کرنے کے لیے عقل مند احمد شاہ دو اصحاب کو شمال سے بلا لیا کرتے ہیں۔ یہ احمد شاہ کون ہے؟ شاعر اور ادیب ان کے گھٹنے ضرور چھوتے ہیں کہ بھائی لٹریری فیسٹیول میں ہمیں بلالو۔ پھر یہ ادائے خاص سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون شاعر ہے اور کون ادیب۔ امجد اسلام امجد اور مستنصر حسین تارڑ کو بلانا ان کی مجبوری ہے کہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اسلام آباد میں ایک بار ایسے ہی ایک فیسٹیول میں تارڑ صاحب کو صفر ثابت کرنے کی پوری کوشش کی مگر حاضرین تقریب نے ساتھ نہ دیا۔ منہ کی کھائی۔ کراچی میں ہونے والے ان مخصوص لسانی لٹریری فیسٹیول میں کچھ ’’ادیب‘‘ دساور سے بھی منگوا کر سٹیج پر بٹھائے جاتے ہیں۔ انہیں اردو دنیا میں یوں تو کوئی نہیں جانتا مگر یہ ان کی پہچان ضرور بن گئی ہے کہ مندوب مستقل ہیں۔ ماتم کرنا چاہیے اس مائنڈ سیٹ پر جو ادب کے نام پر لسانی تعصب اور صوبائی امتیاز کا زہر بکھیر رہا ہے۔ انور مقصود کے نظریات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان انہیں کبھی نہیں بھائے۔ مگر تضحیک کرنی ہو تو سب کی کیجئے۔ شریف برادران، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، مراد علی شاہ اور قائم علی شاہ کے علاوہ کوئی اور کیوں نہیں نظر آتا؟ عینک کا نمبر بدلوا لیجئے۔ اپنے اردگرد دیکھئے۔ تضحیک کا سامان وافر میسر ہے مگر عینک کے شیشے نہیں بدلیں گے تو سوائے پنجابیوں اور سندھیوں کے کوئی نہیں نظر آئے گا۔ لندن چلے جائیے، وہاں تو ایک صاحب اتنے مضحکہ خیز بیٹھے ہیں کہ ساری دنیا ان پر ہنس رہی ہے۔ تعجب ہے آپ کو پنجاب کے شریف برادران اور سندھ کے سیدوں کے سوا کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔ حضور! انور مقصود صاحب! اب بڑے ہو جائیے! Grow up!