30 مئی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے شری نریندر ،دامودر ،داس مودی نے نئی دہلی کے ’’ راشٹرپتی بھوَن‘‘ (ایوانِ صدر) میں دوسری بار ’’ پردھان منتری‘‘ کی حیثیت سے حلف اُٹھایا لِیا اور اِن کی کابینہ کے ارکان نے بھی ۔ 8 ہزار مہمانوں کی موجودگی میں صدر بھارت شری ’’ رام ناتھ کووند‘‘ نے اُن سے حلف لِیا۔ 5 سال پہلے جب شری مودی نے پہلی بار 26 مئی 2014ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تھا ( تو اُن دِنوں) وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف ، وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں مدعو اور شریک بھی تھے ۔ (S.A.A.R.C) تنظیم کے رُکن دوسرے حکمران بھی لیکن، اِس بار وزیراعظم مودی نے وزیراعظم عمران خان کو مدعو نہیں کِیا؟ ۔ معزز قارئین!۔ وزیراعظم نریندر مودی ، وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ، حکومت پاکستان اور اہلِ پاکستان کے ساتھ کِس طرح کے ذاتی ، سفارتی یا سیاسی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ، یہ اُن کی مرضی لیکن ، مجھے ’’ شری / یا شریمان) اردو میں قابلِ احترام، نریندر، دامودر ،داس مودی کے بارے میں اہلِ پاکستان اور ’’بھارت واسیوں‘‘کی خدمت میں کچھ عرض کرنا ہے ۔ ہندی زبان کے لفظ ’’ نریندر‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’سانپ اور بچھّو کے کاٹے کا علاج کرنے والا‘‘۔ ’’ دامودر‘‘ ۔ وِشنو دیوتا کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کا صفاتی نام ہے ۔ ہندوؔ دیو مالا کے مطابق ، شری کرشن جی مہاراج لڑکپن میں بہت شرارتی تھے ۔ اُن کی رضاعی ماں ’’ یشودھا میّا‘‘ نے ایک دِن اُن کی شرارتوں سے تنگ آ کر اُن کے ’’ اُدَر‘‘ (پیٹ) پر رسّی باندھ دِی تھی ۔ پھر شری کرشن جی ’’ دامودر‘‘ کہلائے‘‘۔ ہندی زبان میں ’’ مودی‘‘ کے معنی ہیں ۔’’ مہاجن، دولت منداور بنیا ‘‘۔ تحریک آزادی میں ہندوئوں کی مُتعصب سیاسی جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپوؔ شری موہن داس کرم چند گاندھی بھی ذات کے بنیا تھے ۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو (اعلیٰ ذات کے ) برہمن تھے، جن کی بیٹی اندرا ؔنہرو سے ایک پارسی (آتش پرست ) فیروز جہانگیر گھاندی ؔنے "Love Marriage" کرلی تھی۔ فیروز جہانگیر گھاندی ؔاخبار نویس تھے اور گاندھی جی کے بھگت ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے اپنی گوت گھاندیؔ کا تلفظ گاندھی ؔکرلِیا تھا۔ فیروز جہانگیر گاندھی لوک سبھاؔ اورراجیہ سبھاؔ کے منتخب رُکن بھی رہے۔ اُن کی پتنی ( اہلیہ) مسز اندرا گاندھی اور بڑا بیٹا راجیو گاندھی بھارت کے وزیراعظم بھی رہے۔ راجیو گاندھی کی پتنی (آنجہانی) مسز اندرا گاندھی اور فیروز جہانگیر گاندھی کی بہو سونیا گاندھی 2004ء سے 2019ء میں بھی رائے بریلی سے لوک سبھا کی رکن ہیں۔ معزز قارئین!۔قدیم ہندوستان میں ’’ سارک تنظیم‘‘ میں شامل ( موجودہ اور خود مختار ممالک کو )’’ بھارت ورش‘‘ (آریائوں کا ملک یعنی ہندوستان) کہا جاتا تھا اور بھارتؔ ورش کا مہاراجا ( معلوم دُنیا کا ) چکرورتی مہاراجا (یعنی ساری دُنیا کا) مہاراجا کہلاتا تھا۔’’ چکرورتی مہاراجا‘‘ کہلانے کے دعویدار کو کسی بھی راجا کو ’’ اَشو میدھ یگیہ ‘‘ کرنا پڑتا تھا۔ اُسی راجہ کے فوجی / سیاسی / مصاحب ایک گھوڑے کو لے کر (موجودہ سارک ممالک میں) گھومتے تھے، جِس علاقے / ریاست کا راجا اُس گھوڑے کو روک لیتا تھا ، اُسے چکرورتی مہاراجا ہونے کے دعویدار سے جنگ کرنا پڑتی تھی اور اگر کوئی نہ روکتا اور گھوڑا اپنے مالک کے پاس زندہ ، سلامت پہنچ جاتا تو، وہاں ایک یگیہ ؔہوتا تھا یعنی۔ ’’گھوڑے کی قربانی کا جشن‘‘۔ اِس گھوڑے کا گوشت چکرورتی مہاراجا کے دربار میں (موجودہ بھارت وَرش کے)سارے راجا اور اُن کے مصاحبین کھاتے تھے ۔ ’’رام جی کا اَشومید ھ یگیہ ‘‘ ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’رامائن ‘‘کے مطابق ’’ وِشنو دیوتا ‘‘ کے اوتار ایودھیا کے مہاراجا دشرتھ کے ولی عہد شری رام 14 سال کی جلا وطنی کے بعد لنکا کے راجا ’’راون‘‘ کو شکست دے کر اور اُس کے قبضے سے اپنی پتنی ( اہلیہ) سِیتا جی کو چھڑا کر ایودھیا واپس لے آئے تھے تو’’ چکرورتی‘‘ مہاراجا کہلانے کے لئے اُنہوں نے بھی ’’اَشو میدھ یگیہ ‘‘ کِیا تھا لیکن، اُنہوں نے اِس یگیہ میں ’’ سِیتا جی ‘‘ کو مدّعو نہیں کِیا تھا ، کیونکہ ایودھیا کے پنڈتوں ، دانشوروں اور امورِ مملکت کے دوسرے ماہرین نے شری رام جی کو باور کرادِیا تھا کہ ’’ چونکہ سِیتا جی کافی عرصہ تک راون کے قبضے میں رہی ہیں اِس لئے وہ پاک دامن نہیں ہیں ‘‘۔ اِس پر شری رام نے سِیتا جی کو ’’ اَشو میدھ یگیہ‘‘ میں شامل نہیں کِیا تھا ۔ پھر سِیتا جی نے ’’ اگنی پرکشا‘‘ یعنی آگ کے دہکتے ہُوئے انگاروں پر چل کر اپنی پاک دامن ہونے کا ثبوت پیش کردِیا لیکن، پھر اُنہوں نے ’’دھرتی ماں ‘‘ سے دُعا کی ۔ زمین پھٹ گئی اور سیتا جی اُس میں سما گئی تھیں۔ مودی جی کی بیاہتا پتنی ؟ "Wikipedia" کے مطابق ’’بھارتی صوبہ گجرات کے گائوں ’’ راجو سانا‘‘ کی ٹیچر "Jashodaben" سے 1968ء میں شری نریندر مودی کی شادی ہُوئی تھی لیکن، تھوڑے ہی عرصہ بعد مودی جی نے اپنی پتنی سے تعلقات ختم کرکے ’’ سنیاسی ‘‘ ( تارک اُلدّنیا) ہوگئے تھے ۔ مودی جی کئی سال تک سنیاسی رہے اور سیاست بھی کرتے رہے ، جب کہ شری موہن داس کرم چند گاندھی نے آخری عمر میں سنیاسی کی حیثیت سے بیان دِیا تھا کہ ’’اب میرے اپنی پتنی کستورا بائی سے میرے تعلقات بھائی ، بہن بھائی کی طرح ہیں ‘‘۔ حیرت ہے کہ ، مودی جی نے نہ تو اپنی پتنی یشودھا بَین پر بدچلنی کا کوئی الزام لگایا اور نہ ہی سنیاسی کی حیثیت سے اُن سے اپنے بھائی ، بہن کے سے تعلقات کی بات کی ہے ؟۔ معزز قارئین!۔ 26 مئی 2014ء کو جب ، شری نریندر مودی نے وزارتِ عظمیٰ کے حلف وفاداری کے جشن میں سارک ممالک کے حکمرانوں کو تو ،مدّعو کرلِیا تھا لیکن"First Lady of India" کو نہیں ؟۔ مَیں نے تو ، 28 مئی 2014ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں مسز یشودھا بَین مودی کے حق میں وزیراعظم مودی جی سے احتجاج بھی کِیا تھا لیکن، میری کون سُنتا ہے ؟ لیکن، پھر نہ جانے کِس نے (اُن دِنوں امریکی صدر براک حسین اوباما کو) بھارت کی خاتونِ اوّل کی حق تلفی سے آگاہ کردِیا تھا ۔ 25 جنوری 2015ء کو صدر اوباما بھارت کے دورے پر ، اپنی اہلیہ "First Lady of U.S.A" مسز مشعل اوباما کو ساتھ لے کر نئی دہلی پہنچے تو، اُنہوں نے ائیر پورٹ پر ہی وزیراعظم مودی سے پوچھا تھا کہ "Mr. Modi Where is the First Lady of India?"۔ تو، مودی جی آئیں ، بائیں، شائیں بھی نہ کر سکے؟۔ مَیں بھی بہت حیران ہوا تھا کہ ’’ اگر اِس طرح کا معاملہ پاکستان میں ہوتا تو ، ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان یا کسی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب ، وزیراعظم کے خلاف "Suo Moto" (از خود نوٹس) ضرور لیتے ؟۔ ڈاکٹر رمیش کمار جی ! معزز قارئین!۔ سندھ سے ’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے قومی اسمبلی کے رُکن اور ’’پاکستان ہندو کونسل ‘‘ کے "Patron In Chief" ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی فروری 2019ء میں بھارت کے دورے پر تشریف لے گئے تھے ، جہاں اُنہوں نے وزیراعظم مودی ، وزیر خارجہ سُشما سَوراج اور سابق آرمی چیف جنرل وی۔ کے سنگھ سے "One On One" ۔ ملاقاتیں کر کے کہا تھا کہ ’’ عنقریب وزیراعظم مودی پاکستان سے اپنے تعلقات میں سُدھار پیدا کرلیں گے‘‘ لیکن، افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے مسز یشودھا بَین مودی کے بنیادی حقوق کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کی تھی؟۔ شاید اِس لئے کہ ڈاکٹر رمیش کمار جی راجپوت ہیں اور "First Lady of India" کا تعلق بنیا ؔقوم سے ہے؟اور ہاں! ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتے تھے / ہیں کہ وہ مودی جی کی پتنی کو ملتانی حلوہ کا کوئی پیکٹ بھجوا دیں؟۔ "Human Rights" سوال یہ ہے کہ ’’ وزیراعظم مود ی جی کی اہلیہ "First Lady of India" مسز یشودھا بَین مودی کو اُن کے بنیادی حقوق دِلوانے کے لئے "United Nations Commission" کا دروازہ کون کھٹکھٹائے ؟ ۔ سُر کشیترا پروگرام کے تحت بھارت کی ’’امن کی آشا دیوی ‘‘ سے رابطہ قائم کرنے کے لئے اب تو ہمارے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری صاحب بھی وقت نہیں ہے تو، کیا مسز یشودھا بَین مودی اپنے 33 کروڑ دیوتائوں اور دیویوںمیں سے کسی ایک دیوتا یا دیوی سے ’’پرارتھنا کا پربندھ ‘‘کریں؟۔