(قائدِاعظم محمد علی جناح) ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی نے قرار داد پاس کی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947ء والی تقریر کو جو انھوں نے کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں کی تھی، نصاب میں شامل کر لیا جائے۔ بظاہر یہ ایک بڑا خوش آئند اقدام ہے۔ لیکن میں اِس کے چند مضمرات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جن کودھیان میں رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ اِس احسن اقدام کے وُہ نتائج نہ نکل سکیں گے، جو قرار داد پاس کرتے وقت معزز ممبرز کے ذہن میں تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ صرف گیارہ اگست والی ہی نہیں، بلکہ چودہ اگست (1947) والی تقریر کو بھی نصاب کا حصّہ بنایا جائے، تاکہ قائداعظم کا نظریہ پاکستان پوری طرح واضح ہوسکے اور آئندہ آنے والی نسلیں اُس کنفیوژن سے نجات حاصل کر سکیں۔ جس کا ہم شکار ہیں اور جس کا تعلق قائد اعظم کی ان دونوں تقاریر سے بھی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں تقریروں کو من و عن نصاب کا حصّہ بنایا جائے اور کسی قسم کی ایڈیٹنگ اور فن کاری کو بروئے کار نہ لایا جائے۔ آدھا سچ، پورے جھوٹ سے بھی زیادہ خظرناک ہوتاہے۔ ہمیں قائد اعظم اور ان کے خیالات کے بارے میں پورے سچ سے کام لینا ہوگا ۔ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کے مکسچر نے ہمیں قومی سطح پر بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر آنے والی نسلیں بانی پاکستان کے اصل افکار کو سمجھ کر آگے چلیں کیونکہ قوم اور ملک کے مستقبل کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ قائداعظم کی یہ تقریر اِس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اِس نے تحریک ِ آزادی کے دو لیڈروں ، قائداعظم اور لیاقت علی خان کے درمیان پائے جانے والی سوچ کے اختلافات کو واضح اور شدید کر دیا۔ یہ پاکستان کی پہلی بد قسمتی تھی اور اُس بدقسمتی کے اثرات سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ ہُوا یوں کہ قائداعظم کی یہ تقریر لیاقت علی پر بجلی بن کر گری اور انھوں نے ردّ عمل میں وُہ کچھ کر ڈالا جس کی اُمید نہیں کی جاسکتی تھی۔ انھوں نے اِس تقریر کے چند نہایت اہم حصّوں کو حذف کر دیا تاکہ یہ جُملے پریس میں اور ریڈیو پر نہ آسکیں۔صرف اخبار سول اینڈ ملٹر ی گزٹ میں یہ تقریر پوری چھپی ۔ 12 اگست 1947 کا سول اینڈ ملٹری گزٹ کا شمارہ میں نے خود پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں دیکھا تھا جس میں پوری ؛تقریرچھپی تھی۔ قائد اعظم کو جب پتہ چلا کہ وزیرِ اعظم نے اُن کی تقریر کا یہ حشر کیا ہے تو وُہ بے حد اَفسردہ ہوئے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان دونوں رہنمائوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوگئی اور پاکستان اُس وژن سے دور ہونے لگا جو قائدِاعظم کا تھا۔ وُہ پہلے ہی صحت کے مسائل سے دوچار تھے، اِس نئی صورتِ حال نے ان کی صحت پر مزید بُرا اثر ڈالا اور پھر اِن دونوں کے درمیان رابطہ کم سے کم ہوتا گیا۔ ان کی بیماری سے فائدہ اُٹھا کر لیاقت علی خان ہر معاملے میں من مانی کرنے لگے اور اکثر اہم فائلیں گورنر جنرل کے پاس نہ بھیجتے تھے۔ یہ صورت ِ حال قائدِاعظم کے لئے نہایت کربناک تھی۔ جب ان کی صحت زیادہ خراب ہوگئی تو اُنھیں زیارت جانے پر آمادہ کر لیا گیا۔ جب وُہ زیارت پہنچے تو بیماری اور مایوسی کا شکار تھے۔ قا ئدِ اعظم کے تین ڈاکٹروں میں ایک ڈاکٹر سید ریاض علی شاہ (بخاری) بھی تھے ۔ اُن کے نام پر لبرٹی مارکیٹ لاہور کے پاس ریاض علی شاہ روڈ بھی ہے۔ ڈاکٹر ریاض اپنے دور کے سب سے معروف چیسٹ سپیشلسٹ تھے۔ ان کا کلینک اور کوٹھی ، میکلوڈ روڈ پر تھی جہاں ٹی۔بی۔ کے مریضوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سابق چیف جسٹس پاکستان مرحوم عبد العزیز کے پھپھی زاد بھائی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی قبر ماڈل ٹائون کے S بلاک میں ہے۔ اِس بلاک کو دلکشا گارڈن بھی کہا جاتا ہے۔ اب آپ اِسے حُسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ 1964ء میں میری والدہ کی ٹی۔ بی۔ خطرناک صورتِ حال اختیار کر گئی تو میں ڈاکٹر صاحب کے کلینک جا پہنچا میں ان دِنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھا۔ ڈاکٹر صاحب شاید مریض دیکھ دیکھ کر تنگ آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے والدہ کا نسخہ لکھنے کے بعد مجھ سے بات چیت شروع کردی۔ پاکستان افئیرز میں میری دلچسپی دیکھ کر وُہ بہت خوش ہوئے ۔ دو چار visits کے بعد ایک رُوز فرمانے لگے کہ مظفر تم کل دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھانا۔ گپ شپ کریں گے۔ اتنے بڑے آدمی کے مُنہ سے یہ الفاظ سُن کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور فخر بھی محسوس ہُوا۔ اِس کے بعد دو چار بار پھر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہُوا۔ انھوں نے مجھے قائدِاعظم کے بارے میں ایسے حقائق بھی بتائے جنھیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میں اگلے کالموں میں چند ایسی باتیں تحریر کروں گا جو اکثر لوگوں کے لئے انکشافات ہوں گے۔ بہر حال اب آپ وُہ واقعہ سنیں جو ہماری تاریخ میں درج ہے۔ قائدِاعظم کی وفات سے دو ڈھائی ماہ پیشتر ، لیاقت علی خان، چوہدری محمد علی مرحوم (سابق وزیرِاعظم پاکستان) کے ہمراہ قائدِاعظم سے ملاقات کے لئے زیارت تشریف لائے۔ قائدِاعظم کو پتہ چلا تو انھوں نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح سے کہا کہ اِس شخص کی اچھی طرح خاطر مدارات کرو، کھانا کھلائو اور میری طرف سے معذرت کر دو۔ یہ سُن کر محترمہ نے بھائی کو سمجھا بجھا کر لیاقت علی خان سے ملاقات پر آمادہ کر لیا، چنانچہ لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی کو شرفِ ملاقات بخشا گیا۔ ایک کمرے میں قائد، دوسرے میں محترمہ اور تیسرے کمرے میں تینوں ڈاکٹر صاحبان ۔ یہ تھا سینا ریو۔ تھوڑی دیر کے بعد قائد کے کمرے سے بلند آوازیں آنے لگیں۔ قائد کی آواز نمایاں تھی۔ محترمہ گھبرا کر بھائی کے کمرے کی طرف بڑھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ لیاقت علی خان نے زور سے دروازہ کھولا اور طیش کے عالم میں یہ کہتے ہوئے چلے گئے، " دماغ خراب ہوگیا ہے بُڈھے کا!" محترمہ بھاگی بھاگی بھائی کے کمرے میں گئیں۔ وُہ غصّے میں کانپ رہے تھے۔ چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ بہن پریشانی کے عالم میں آگے بڑھی تو کہنے لگے، " فاطی! یہ شخص میرا حال پوچھنے نہیں آیا تھا۔ یہ صرف دیکھنے آیا تھا کہ میں کب مروں گا" ۔ اِس کے بعد کے واقعات بھی ڈاکٹر صاحب نے مجھے تفصیل سے سُنائے، بقول ڈاکٹر صاحب ! لیاقت علی کے آنے سے پہلے قائد کی صحت کچھ بہتر ہونے لگی تھی۔ انھوں نے تھوڑی خوراک بھی کھانا شروع کر دی تھی۔ لیکن خانصاحب سے ملاقات کے بعد اُن کی طبیعت بگڑ گئی۔ اور انھوں نے دوا اور غذا دونوں کو کھانے سے انکار کر دیا۔ جب بہن نے اور ڈاکٹروں نے ضد چھوڑنے پر اصرار کیا تو فرمانے لگے: "I don't want to live" تاہم شدید اصرار کے بعد اُنہوں نے تھوڑا بہت کھایا۔ دوا بھی لی لیکن صحت تیزی سے گرنے لگی۔ ڈاکٹروں کی کوئی تدبیر کا رگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ اور پھر ایک روز انھوں نے کراچی جانے کا فیصلہ کرلیا۔ (جاری ہے)