بھارتی وزیر اعظم مودی 12 فروری کو ایک صحافتی ادارے Times Now India کی ٹوئنٹی ٹوئنٹی سمٹ میں مہمان خصوصی تھے جس کا عنوان ایکشن پلان 2020 تھا، نئی دہائی میں بھارت کیا کرے گا بنیادی طور پر اس سمٹ میں اس بارے میں سوچ بچار کرنے کا پروگرام تھا۔اپنی تقریر میں نریندر مودی نے حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اپنی رفتار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جس تیزی سے فیصلے کئے ہیں اسکو ٹوئنٹی ٹوئنٹی ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ہم نے سیریز کھیلنی ہے۔’’ہمارا نئے ریکارڈ بنانے اور تیزی سے کھیلنے کا موڈ ہے، آٹھ مہینوں کی سرکار نے فیصلوں کی جو سنچری بنائی ہے وہ آپ سب کے لئے فخر کی بات ہیـ‘‘۔ اسکے بعد انہوں نے ایک ایک کر کے سنچری گنوانی شروع کی۔اور ہر قدم کے ذکر کے بعد بتاتے کہ یہ بھی Done۔ اس فہرست کے آخری چار اقدام وزیر اعظم مودی نے کچھ یوں بیان کئے، ’’رام مندر کے نرمان کے لئے ٹرسٹ بنانے کا کام Done،آرٹیکل 370 کوہٹانے کا فیصلہ Done ،جموں و کشمیر کو وفاقی علاقہ بنانے کا فیصلہDone اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ بھی Done‘‘۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف سیمپل ہے، ’’ اس سیمپل سے ہی آپ کو لگ گیا ہو گا کہ Actual action begins here." ان خیالات کے اظہار کے بعد اگر کسی کو کوئی شک ہے بھی توختم ہو جانا چاہئے کہ ہندوستان کے نریندر مودی اور انکے ہندوتوا پرچارک آر ایس ایس کے انتہا پسند بھارت کو سیکولرنہیں دیکھنا چاہتے ہیں ، اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اگر اپنا اصل مدعا بھی بیان کر دیتے تو اسکا اختتام یقینا ان الفاظ پر ہوتا کہ ’’ India Done‘‘۔ جب ایک ملک کا وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر میں اسی لاکھ آ بادی کو قیدی بنا کر انکے سارے انسانی حقوق سلب کر لے اور اس کو فخر سے بیان کرے کہ آرٹیکل 370 Done، سٹیزن شپ ترمیمی قانون کی آڑ میں اپنی ساری اقلیتوں کو غیر ہندوستانی قرار دینے پر تلا ہو اور اس پر احتجاج کرنے والوں پر لاٹھیاں اور گولیاں چلائی جا رہی ہوں انکے گھروں اور دکانوں کو جلایا جا رہا ہو اور کہے کہ سٹیزن شپ ترمیمی قانون Done، تو اسکے بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ آر ایس ایس کے بانی کا 1920 میں اسکی تشکیل کے وقت اکھنڈ بھارت کا دیکھا گیاخواب پورا کرنے کے درپے ہے۔ مودی نے یہ بھی اعلان کیا کہ اب وہ تیزی سے کھیلنے کے موڈ میں ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ جس کام کی بنیاد رکھتے ہوئے انہیں کچھ ماہ لگے وہ اب دنوں میں اس کام کی تکمیل کے درپے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بار بار اسی لئے بین الاقوامی برادری کو انتباہ کر رہے ہیں کہ جس سوچ اور انداز میں بھارت کی موجودہ قیادت اپنے شہریوں کے خلاف آگے بڑھ رہی ہے کوئی دن جاتا ہے کہ وہ بہت بڑا قضیہ اس خطے میںبرپا کر دے گی جس میں پاکستان کے لئے بھی خاموش رہنا اور آرام سے تماشا دیکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ بھارت کے اندر سے بھی کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں جبکہ امریکہ اور یورپ میں رہنے والے کچھ بھارتی بھی پریشان ہیں اور وہ اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بل بوتے پر انکا خیال ہے کہ وہ ہندوتوا آئیڈیالوجی کا مقابلہ کر سکیں گے۔ اس میں دو مسائل درپیش ہیں۔ پہلا یہ کہ چند دانشور ، صحافی اور طلباء سٹیزن شپ ایکٹ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن جن لوگوں کی آواز میں طاقت ہے اور جو حکومت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں وہ آوازیں خاموش ہیں۔ جیسا کہ صحافتی اداروں کی اکثریت اس ایشو کے حوالے سے اور جو کچھ گزشتہ کچھ دنوں میں دہلی میں ہوا ہے کافی حد تک لیت و لعل کرتی نظر آتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اسکو ہندو مسلم فساد یا سٹیزن شپ ترمیمی قانون کے حق اور مخالفت کرنے والوں کے درمیان جھگڑا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے اسکا جواب ایک نامی گرامی بھارتی صحافی فایا ڈی سوزا نے اس طرح دیا ہے، ’’ وہ سب لوگ جنکو اپنے کاروبار پیسہ اور نوکری جانے کا خطرہ ہے، کارپوریٹ انڈیا جنکو حکومت کے اداروں میں اپنی فائلیں رکنے کا ڈر ہے اور وہ لوگ جو بے تحاشا پیسہ کمارہے ہیں انکو اپنی آمدن کم ہونے کا خطرہ ہے وہ خاموش ہیں۔جیسے کہ بڑے کاروباری لوگ اور بالی ووڈ کے باڈی بلڈر مرد جو بڑے پروجیکٹ کرنے والے پروڈیوسرز اور اداکار ہیں۔‘‘ انکا کہنا تھا کہ اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم پیسے، نوکری اور مفادات سے بڑھکر بہت بڑی چیز کھونے جا رہے ہیں اور وہ ہے بھارت کی ایک سیکولر ملک کے طور پر شناخت۔ اب پوری دنیا سے بھارت کے اندر ہونے والے ایک منظم طریقہ واردات کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں جس کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دہلی میں ہونے والے مسلمانوں کے خلاف بلووں کے بارے میں بھارت کی اپنی ایک تنظیم نے آزادانہ تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ اس مقصد کے لئے پندرہ سو سے دو ہزار لوگوں کو شہر میں لایا گیا اور انہیں پولیس کی مدد سے مسلمانوں کو مارنے اور انکے کاروبار کو جلانے دیا گیا۔ ابتدا میں پولیس کی تعداد بہت کم رکھی گئی کہ کسی مجبوری کے تحت اگر بلوائیوں کو روکنا بھی پڑے تو پولیس کم تعداد کے باعث موئثر نہ رہے۔ مسلمان ممالک میںایران جس کے بھارت کے ساتھ ہمیشہ بہت اچھے مراسم رہے ہیں کے لئے بھی خاموش رہنا محال ہو گیا ہے۔ دہلی کے واقعات کے بعد ایران کو بھی احساس ہوا ہے کہ بھارت کے اندر صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے اسکو نہ تو بھارت کی ریاست کنٹرول کر سکتی ہے اور نہ ہی حکومت کو اس دہشت گرد تنظیم سے دور ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔یہ مسلمانوں کی نسل کشی کا راستہ ہے جسکے بعد معاملہ رکے گا نہیں بلکہ دوسری اقلیتوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ کاش ایران، ملائیشیا اور ترکی کی طرح دیگر اسلامی ممالک بھی اس خطرناک صورتحال کا ادراک کریں اور بھارتی کاروباری حضرات اور بالی ووڈ اداکاروں کی طرح اپنے مالی اور تجارتی مفادات کے لئے فکرمند ہونے کی بجائے اپنے مسلمان بھائی نہیں تو انسانیت کے ناطے ہی چپ کا روزہ توڑ دیں۔