ٰ اِدھر کوشش کے باوجود ممکن نہیں ہوپا رہا کہ جس موضوع کو چھیڑا جائے اُسے ایک ہی کالم میں سمیٹ لیا جائے۔اب ، ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی ٹیم یعنی وزرائے کرام،مشیران کرام اور معاونین کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرتے ہوئے۔ ۔ ۔ جس طرح ماضی کے ہر سویلین، فوجی حکومت کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے روایتی امیر زادوں کو اپنی ٹیم یعنی وزرائے کرام،مشیرانِ کرام لگا کر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو نکالا یا تبدیل کیا ہے۔ ۔ ۔ اُس پر تو پھر تفصیل سے ان کے کوائف دینا ضروری تھا ہی۔۔بدقسمتی سے اس وقت میڈیا کا ایک بڑا موثر حلقہ پروفیشنلزم اور اپنی غیر جانبدارانہ رائے کو چھوڑ کر ’’پارٹی‘‘ بنا ہواہے۔اُس سے اور بھی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔اسی لئے خان صاحب کی نئی ٹیم کا ذکر کرتے ہوئے یہ یا د دلانا ضروری تھا کہ نئے پاکستان کا خواب دکھانے والی ہماری نئی نویلی حکومت میں بھی اکثریت میں غلبہ اُن کا ہوگیا جو دہائیوں سے کرپشن میں ہاتھ پاؤں سیاہ کرنے، لاکھوں سے اربوں روپے بنانے اور مستقبل میں بھی اپنی آل اولاد کو اس بدقسمت ملک کی ’’عنان‘‘ تھمانے کیلئے ایک بار پھرنئے پاکستان کے بھی ’’مامے،چاچے‘‘ بن کر آگئے ہیں۔اس دوران اتوار کو بلاول ہاؤس میں ہونے والا افطار ڈنر بھی آگیا۔جس میں ماضی میں ایک دوسرے سے دست و گریباں اور انتقا م کی حد تک دشمنی رکھنے والے ،مسکین صورت بنائے ،’’پیر و جواں‘‘ قوم کے دکھ میں پر تعیش پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے قوم کو جمہوریت کے سنہرے خواب دکھانے کی ایک بار پھر نوید دے رہے تھے ۔مگر ہاں ، ذرا خان صاحب کی ٹیم کے فرسٹ آرڈر کی طرف ہی تھا۔محترم مخدوم خسرو بختیار ،محترم محمد میاں سومرو ،ہماری دوست ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ،محترمہ زبیدہ جلال ،فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان تک پہنچا تھا کہ کالم آخری دموں پر آگیا۔پہلے غلطی ہوتی تھی تو کاتبوں کو دوش دیا جاتا تھا،اب یہ ذمہ داری خود قبول کرنی چاہئے کہ ان محترم و معزز خان صاحب کی ٹیم کے نئے ارکان کا ذکر کرتے ہوئے لفظ مدعا نہیں ،مداح استعما ل کیا تھا یعنی بقول مرزا غالبؔ: صفحہ تمام ہوا اور مداح باقی ہے خان صاحب کی پرانی ٹیم کی جگہ لینے والوں کا بستہ کھولنے کا سبب یہ بھی تھا کہ ہمارے غریب ،معصوم عوام کی یادداشت بھی بڑی کمزور ہے۔عوام ہی کیا ،خود ہم قلم کے طُرم خاں بھی تو ماضی پہ’’ مٹی پاؤ ‘‘کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔اسی لئے خان صاحب نے ملکی معیشت کو سدھارنے اور قوم کی قسمت بدلنے کیلئے جو ٹیم آرڈر میں تبدیلی کی ہے۔ ۔ ۔ میں نے سوچا مستقبل کے مورخین کیلئے اسے محفوظ کردیا جائے کہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ 2022ء کے الیکشن میں اگر ۔ ۔ ۔ جی ہاں، اگر کوئی تبدیلی آئی تو وہ اس کا حصہ ہوں گے۔چلیں،ابتداء کرتے ہیں محترم غلام سرورخان صاحب سے ۔ ۔ ۔ 1985ء میں آزاد امیدوار تھے۔1988-1990ء اور1993ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔مشرف دور میں پی پی پر مار پڑی تو 2002ء میں پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے چھلانگ لگا کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2004ء اور2008ء میں ق لیگ کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر بھی ۔محترم غلام سرور خان کو یہ کریڈٹ جائے گا کہ انہوں نے اپنے حلقے سے 2013ء اور2018ء میں چوہدری نثار جیسے دبنگ سیاستدان کو ایک نہیں دو بار شکست دے کر اُن کا سیاسی مستقبل تاریک کردیا ۔سو،ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے محبوب وزیر تو ہونے ہی تھے ۔مگر ’’پیٹرولیم‘‘جیسی سونے کی کان وزارت نہ سنبھال پائے ۔اور اب ’’سرکار‘‘ کی زبان میں کھڈہ وزارت کے وفاقی وزیر ہیں۔محمد بشیر قریشی ذرا نیانیانام لگ رہا ہے۔مگر آپ کا تعلق جیالوں کے گھرانے سے ہے۔2002ء میں والدہ خالدہ محسن قریشی رکن قومی اسمبلی تھیں تو 2008ء میں والد محترم محمد علی قریشی رکن قومی اسمبلی ۔سو،اس وراثتی نشست پر اب اگر منتخب ہونے کے بعد منسٹر آف اسٹیٹ کی وزارت دی گئی ہے تو بجا طور پر جائز ٹھہرتی ہے کہ یہ نشست خان صاحب کا نوجوان کھلاڑی تو نہیں نکال سکتا تھا۔یہ لیجئے ،اس وقت ہماری تحریک انصاف کی ٹیم کی اوپنر اور اپنے بیانوں کی گولہ باری سے چھکے چھڑانے والی انفارمیشن منسٹری کی عنان سنبھالنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو تو بھول ہی گیا تھا۔ڈاکٹرصاحبہ کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ کم از کم پانچ بار منتخب ہونے والے ایم این اے اور اُس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین کو 2002ء میں شکست دے کر ہمارے چوہدری صاحب کی سیاست لپیٹ کر رکھ دی ۔2008ء میں ڈاکٹر صاحبہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی رہیں ۔چند برسوں سیاست سے کنارہ کش رہیں۔ اور پھر 2017ء میں پی ٹی آئی جوائن کر کے جولائی 2018ء کے الیکشن میں حصہ تو لیا مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔حالیہ برسوں میں اسکرینوں پر جس طرح انہوں نے زرداریوں ،شریفوں کے بڑے بڑوں کو اپنی شعلہ بیانی سے زیر کیا،اُس سے بجا طور پر وہ اس وزارت کی مستحق تھیں۔مگر ہمارے دوست جہلم کے چوہدری فوادحسن کے ساتھ ،ہاتھ ہوگیا۔کہ ہمارے چوہدری صاحب کو ایک ہی تو شوق تھا۔بن سنور کر آئینہ دیکھنا یاخود کو اسکرین پر دیکھنا ۔ادھر لیب ٹاپ میں ان کا ٹوئیٹ دیکھ کر دل خوش ہوا۔کہ وزارت اطلاعات سے نکالے جاسکتے ہیںاسکرین سے نہیں۔اب چوہدری فواد حسن کا ذکر آہی گیا ہے تو ہم نے دہائی پہلے انہیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ترجمانی کرتے دیکھا تھا۔داد دینی پڑے گی کہ پوری ایک دہائی تک اُن کی ترجمانی کی،خاص طور پر جنرل صاحب کے جلا وطنی کے بدترین دنوں میں بھی ساتھ نبھایا۔کچھ عرصہ پی پی پی میں گزارا ۔مگر ذہین آدمی ہیں۔اس لئے مستقبل میں اپنے مقام سے آگاہ تھے۔سو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے اور وزارت کے منصب پر بھی بیٹھے۔ ۔ ۔ اطلاعات و نشریات نہیں تو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی کم حیثیت کی وزارت نہیں۔بڑے بڑے پی ایچ ڈی اور سائنسدان ہاتھ باندھے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔یہاں تک پہنچاہوں تو برسہا برس کے بنی گالہ کے دوست یاد آرہے ہیں۔اس بات پر تو خان صاحب کو کریڈٹ دینا پڑے گا کہ سب کو ہی اچھی بھلی نوکریوں سے لگایا۔ہمارے شہر کراچی کے نعیم الحق مشیر سیاسی امور،محترم عمران اسمٰعیل گورنر سندھ ،علی زیدی ۔ ۔ ۔ پورٹ اینڈ شپنگ کے پورے وزیر ۔زلفی بخاری ،ٹورازم جیسے کماؤ پوت ادارے کے سربراہ۔اور ہاں،یہ لیجئے،صدر محترم کو تو بھول ہی گیا۔ڈاکٹر صاحب دانتوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ماضی کے صدور جس طرح اپنے وزرائے اعظم کیلئے بروٹس بنے۔اس اعتبار سے ڈاکٹر عارف علوی کا سو فیصد چناؤ درست ہے ۔ (جاری ہے)