پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں آنسو، انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں میرے پیارے قارئین! آج سیاست پر ہرگز بات نہیں ہوگی کیونکہ میں ان لوگوں کے حوالے سے کچھ تحریر کرنے جارہا ہوں جو واقعتاً زندہ لوگ ہیں انسان کو انسان سمجھتے ہوئے اس کے دکھ درد کا احساس رکھتے ہیں۔ جن کی آنکھوں کا پانی مرا نہیں ہے۔ اصل میں یہی لوگ اس قوم کا اثاثہ ہیں جی میں سمندری میں ہونے والے سیمینار کا تذکرہ چھیڑوں گا جو عتیق الرحمن رندھاوا نے اپنی الفضیلت ویلفیئر فائونڈیشن کے تعاون سے منعقد کیا تھا۔ بہت عرصہ کے بعد میں سمندری گیا۔ پہلی مرتبہ محترم انور مسعود اور میں ڈگری کالج سمندری کے مشاعرہ میں گئے تھے تو انور مسعود نے دلچسپ بات کی کہ ’’حاضرین ہم نے زندگی میں خشکی کے تو بہت مشاعرے پڑھے ہیں مگر سمندری مشاعرہ ہم پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں۔ سمندری کے لوگ سچ مچ زندہ دل ہیں میں تو وہاں کے وسیع و عریض شادی حال اور اس میں جذبوں اور ولولوں سے بھرے لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس پر مستزاد کہ زندگی سے بھرپور لوگوں نے سیمینار بھی زندگی کے حوالے سے رکھا ہوا تھا "Life without Limits"۔ یعنی زندگی لامحدود ہے۔ مرد و خواتین کی کثیر تعداد اور پھر انتظام و انصرام دیکھ کر اہل سمندری کے قرینے اور سلیقے کا انداز ہوتا تھا۔ بینرز کو دیکھ کر پہلا خیال ہی اقبال کی طرف جاتا تھا: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کاررواں اور بھی ہیں سیمینار پر بات کرنے سے پیشتر مجھے اچھا لگے گا کہ الفضیلت ویلفیئر فائونڈیشن کا مختصر سا تعارف لکھ دوں۔ اس کی بنیاد عتیق الرحمن رندھاوا نے 25 اپریل 2015ء کو اپنی والدہ ماجدہ فضیلت بیگم کی یاد میں رکھی اور اس کاوش کا مقصد ماں کی محبت کو خراج تحسین پیش کرنا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا تھا اور پھریہ ننھا پودا تناور بن گیا۔ پھر کارواں بنتا گیا۔ معاشرے سے بیروزگاری ہی کو ختم کرنا اور خاص طور پر ضرورت مند خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور غریب بچوں کو ہنر مند بنانا ان کا مقصد ٹھہرا۔ میں تو ان کے کام دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ چھوٹے شہروں بڑے بڑے کام ہورہے ہیں۔ فضیلت ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین اور طلباء کے لیے بھی فضیلت میڈیکل سنٹر چک 463گ ب۔ علاوہ ازیں وہ اہم سیمینار بھی کرواتے رہتے ہیں تاکہ لوگوں میں آگاہی پیدا ہو۔ مثلاً یوم دفاع پاکستان اور خواتین کا عالمی دن ’’زندگی لامحدود‘‘ ہے بھی اس سلسلہ کی کڑی تھی۔ مجھے بہت زیادہ خوشگوار حیرت وہاں کے اسسٹنٹ کمشنر فیصل سلطان کو سن کر ہوئی کہ انہوں نے کس روانی کے ساتھ اقبال کی خودی کو بیان کیا اور انتہائی درست اور وزن کے ساتھ کلام اقبال پیش کیا۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ اپنے ادبی ذوق و عمل کے ساتھ افسر تو لگتے ہی نہیں۔ تب پتہ چلا کہ ان کے والد عربی‘ فارسی اور اردو کے عالم تھے اور موذوں طبع بھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسان کو عرفان ذات حاصل ہو جائے تو وہ زندگی کے تمام مقاصد حاصل کر سکتا ہے جس نے خود کو پہچان لیا۔ اس نے رب کو پہچان لیا۔ پھر اس کے سامنے بقول غالب سب کچھ ہیچ ہے اک کھیل ہے اور رنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے انہوں نے اقبال کو کس سرشاری سے پڑھا: یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے خودی کیا راز درون حیات خودی کیا ہے بے داری کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند میں ان کا شکر گزار ہوا۔ انہوں نے مجھے مہمان خصوصی کی عزت بخشی۔ مہمانوں میں محترمہ صوفیہ بیدار تو سب سے نمایاں تھیں۔ وہ آج کل فیصل آباد میں ڈائریکٹر آرٹس کونسل ہیں مگر ان کی اصل پہچان تو دانشور‘ شاعرہ اور کالم نگار کی ہے۔ مقرر بھی تو کمال کی ہیں۔ موتی رولتی ہیں صوفیا کی فکر سے وہ مسلک ہیں۔ ان کی گفتگو زندگی سے بھرپور تھی۔ میں ان کے سٹیج سیکرٹری خرم شہزاد سے بھی بہت متاثر ہوا۔ کیا نظامت تھی۔ نعت کے حوالے سے ان کی گفتگو نے ایمان تازہ کردیا۔ سبحان اللہ۔ دوسرے مہمانوں میں چودھری عبدالحمید گجر سرپرست الفضیلت ویلفیئو فائونڈیشن‘ ناصر محمود اعوان سوشل ویلفیئر آفیسر سمندری‘ محمد ناصر چدھڑ سوشل ویلفیئر آفیسر جڑانوالہ‘ محمد عظیم‘ محمد عباس بھٹی اور کچھ دوسرے مہمان سامعین و حاضرین بہت ہی تھے۔ زندگی لامحدود کے حوالے سے بہت ہی عمدہ باتیں ہوئیں۔ اللہ کی کائنات بہت وسیع ہے۔ اس کی وسعتیں پہنائیاں‘ رعنائیاں‘ شہنائیاں اور دل بھائیاں کیا کچھ ہے فطرت انسان کے لیے۔ آپ زندگی میں کبھی مایوس نہ ہوں۔ کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں وہی جو کہا گیا کہ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ے‘ ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے۔ آپ بس عمل پیرا رہیں‘ چلیں تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ‘ ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔ پیہم جستجو شرط ہے۔ ہر دم رواں ہے زندگی۔ یہ بہتی ہوئی ندی کی طرح ہے۔ جس نے پانی بھرنا ہیے بولے۔ وہی کہ کچھ کر لو نوجوانو !اٹھتی جوانیاں ہیں۔ وقت کی رفتار کو محسوس کرو۔ ہمیں بھی تو تسخیر کائنات کے لیے بنایاکیا گیا ہے۔ انسان فرد بھی ایک کائنات ہے۔ اسلام میں بھی مکمل فعالیت ہے، عمل کا نام زندگی ہے۔ آخر میں دو اشعار اپنے کہ مجھ سے تو انہوں نے کلام سننا ہی تھا اور انہوں نے بے پناہ محبتوں سے نوازا: اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا دھوپ میں چلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا