وہ ابھی شیر خوار ہے۔ ماں کی گود سے باہر اس نے ابھی دنیا کو دیکھا ہی کہاں ہے۔ ہاں مگر اس کم سنی شیر خوارگی میں اس نے اس دنیا کا جبر اور ظلم ضرور سہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے شوپیاں کے ایک گائوں کی حباّ نثار۔ جس کی عمر ابھی صرف 20ماہ ہے وہ اس وقت کشمیر پر بھارتی ظلم و جبر کا نیا استعارہ ہے۔ کل جب اس کی تصویر میں سٹریم میڈیا اخبارات ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا کی لہروں پر چلتی ہوئی گھر گھر پہنچی تو ہر اہل درد نے اپنے دل میں ایک تکلیف محسوس کی۔ سرخ و سفید گول مٹول سی حبا کا آدھا چہرہ سفید رنگ کی پٹیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ کیونکہ اس کی دائیں آنکھ پر پیلٹ گن کے چھرے اس بے دردی سے لگے کہ ننھی بچی کی آنکھ کا ریٹینا لہو لہو ہو گیا۔ وہ اب سری نگر بڑے ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ آئی سرجن خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پیلٹ گن کے چھرے لگنے سے حبا کی بینائی متاثر ہو جائے گی۔ یوں یہ ننھی بچی جسے اس ناانصافی‘ ظلم اور عدم مساوات سے بھری دنیا میں آئے ہوئے پورے دو سال بھی نہیں ہوئے اس نے اس دنیا کا ظلم اور جبر سہہ لیا ہے۔ مقبوضہ وادی کشمیر کب ظلم اور قہر کی زدمیں نہیں ہوتی۔ لیکن کبھی کبھی بھارتی مظالم اور درندگی حد سے بڑھنے لگتی ہے۔ مظلوم کشمیریوں کی جھڑپیں‘ ہڑتالیں‘ احتجاج بھارتی فوج کا ظلم اب ایک معمول ہے۔ مگر ظلم کے اس ماحول میں کشمیری آزادی کا خواب دیکھنا نہیں بھولتے۔ اس لئے کہ آزادی کی خواہش عین فطری ہے۔ ہر انسان آزاد پیدا ہوا حضرت عمر فاروقؓ کا لازوال جملہ۔ جو انہوں نے مصر کے گورنر عمروبن العاصؓ سے کہا تھا’’عمرو۔ یہ تم نے انسانوں کو غلام کس دن سے بنا لیا وہ تو اپنی مائوں کے بطن سے آزاد پیدا ہوئے تھے‘‘ اس جملے کا پورا ایک پس منظر ہے واقعہ طویل ہے کالم میں گنجائش نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے اس تاریخی جملے کے بارے میں روسو نے جو انقلاب فرانس کے داعیوں میں سے ایک تھا اپنے معاہدہ عمرانی کے آغاز میں لکھا کہ انسانی آزادی کے بارے میں اس سے بہتر بات نہیں کہی گئی۔ آزادی کی خواہش اگر عین فطری نہ ہوتی کشمیریوں پر گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مسلسل جبر اور ظلم انہیں اس خواہش دست بردار کر دیتا لیکن نہیں۔ اس جبر کے ماحول میں برہان وانی اٹھتا ہے اور عین عالم شباب میں تحریک آزادی کشمیر کو اپنے لہو سے سیراب کر دیتا ہے آزادی کی خواہش کا یہ مشغلہ پھر کشمیر کے بچے بچے اور ہر نوجوان کے دل میں جل اٹھتا ہے۔ 8جولائی 2016ء کو جب برہان وانی کو بھارتی درندے بے دردی سے شہید کر دیتے ہیں تو تحریک آزادی کو ایک نئی ترنگ اور نئی جلا ملتی ہے۔ اس وقت بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گن کے چھروں سے خوب صورت کشمیری نوجوانوں کی آنکھیں پھوڑنے کا ظلم شروع کیا اور اب تک ہزاروں کشمیری نوجوانوں جن میں مرد اور عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ بھارتی درندے ان پیلٹ گن چھروں سے ان کی آنکھوں کو لہولہان کر چکے۔ آنکھیں جو خواب دیکھتی ہیں۔ آنکھیں جن کے ساحلوں پر خواب آ کر لنگر انداز ہوتے ہیں تو کیا ان آنکھوں کو لہولہان کر کے وہ سمجھتے ہیں انہوں نے خوابوں کی قفل اجاڑ دی؟ خواب دیکھنے والی آنکھوں کو بنجر اور ویران کر کے کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ آنکھیں کبھی خواب نہ دیکھیں گی۔ یہ تو وہ دریا ہے جس کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں اور بند اس میں ایسی بھر پور طغیانی لاتے ہیں سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں چاند کو گل کریں تو ہم جانیں۔ ایسی ہی صورت حال کے لئے کہا گیا کشمیر کے بدن کو جتنے زخم لگتے ہیں آزادی کی خواہش اتنا ہی زور پکڑتی ہے۔ کشمیریوں تو جو کچھ ہو سکتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ایک ظالم اور جابر فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مگر یہ عالمی ضمیر جو ہمیں اکثر ایسے موقعوں پر یاد آتا ہے وہ کدھر ہے۔ انسانیت کی دلیری کہاں بے ہوش پڑی ہے۔20ماہ کی گول مٹول زخمی حبا کی تصویر دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ یہ دنیا کتنی ظالم اور جابر ہے۔ جہاں ننھے بچوں کو جنگ کا ایندھن سمجھا جاتا ہے۔ جنگوں میں بچے مرتے ہیں‘ زخمی ہوتے ہیں‘ معذور ہوتے ہیں اور ان کی ستاروں جیسی چمکتی آنکھوں میں پیلٹ گن کے چھرے مارے جاتے ہیں۔ یہ بچے تو اب اپنی مائوں کی گودیوں اور گھروں کے آنگنوں میں بھی محفوظ نہیں رہے۔ حبا بھی تو اپنی ماں کی گود میں تھی جب اس کی آنکھ میں چھرے لگے اور وہ لہولہان ہو گئی۔ پھر حبا کی وہ تصویر دنیا بھر میں وائرل ہو گئی جس میں وہ اپنی ماں کی گود میں ہے اور اس کا گول مٹول خوب صورت معصوم چہرہ آدھا سفید پٹیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے دل پسیجے۔ ہم نے اپنے دل میں ایک درد محسوس کیا۔ لکھاری نے اس ظلم پر احتجاج بلند کیا۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر ڈٹی ہوئی قوم نے حبا کی تصویر کو فارورڈ کر کے وائرل کر دیا۔ ٹویٹس پر ٹویٹس ساری دنیا کو پتہ لگ گیا کہ مقبوضہ وادی کشمیر کے ایک گائوں میں 20ماہ کی ننھی حبا اپنی ماں کی گود میں کھیلتی کھیلتی بھارتی جبر کا نشانہ بن گئی۔ لیکن پھر کیا ہوا۔ جو صاحب اختیار قوتیں ہیں جن کے ہاتھوں میں دنیا کے امن کی باگیںہیں، ان کے پتھر جیسے دل پتھر ہی رہے۔ آج ہم حبا پر بات کر رہے ہیں ۔کل ہم اسے بھول کر کسی اور ایشو پر خامہ فرسائی کر رہے ہوں گے ۔یہ عہد بے مراد بچوں پر بہت بھاری ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب ہم ایلان کر دی کہ ناگہانی موت کا ماتم کر رہے تھے۔ وہی شامی بچہ جو سرخ ٹی شرٹ اور نیلی نیکر پہنے ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ گرا پڑا تھا۔ ایسے جیسے کسی بچے کے ہاتھ سے کوئی بے جان گڈا کھیلتے کھیلتے گر گیا ہو۔ اس کے گھر آنگن میں بھی جنگ کے شعلوں نے زندگی تنگ کر دی تھی وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کسی محفوظ مقام کی تلاش میں تھا کہ ہاتھ سے ایک بے جان گڈے کی طرح گر کر ٹوٹ گیا۔ یمن میں جنگ مسلط کرنے والے مسلمان بھائیوں نے یمنی بچوں پر قحط اور بھوک مسلط کر رکھی ہے۔ وہاں بچے اچانک سے گولی کھا کر یا بم کی زد میں آ کر نہیں مرتے۔ بلکہ بھوک سے لمحہ لمحہ روز مرتے ہیں اور آخری سانس کے جسم سے جدا ہونے تک باقاعدہ خوفناک ڈھانچوں میں بدل جاتے ہیں۔ میرے قلم میں سکت نہیں کہ آگے کچھ اور لکھوں۔ میں اور آپ ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں جنگوں میں بچوں کو مارنا‘ زخمانا بھوک کی اذیت سے گزار گزار کر موت کے گھاٹ اتارنا جائز ہے۔ جِسے یہ خون آشام طاقتیں اے نیو وے آف وار کہتی ہیں۔ جس میں بچے خاص طور پر ٹارگٹ کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کا ماٹو ہے۔ To Kill the big rats, you have to Kill the little rats