چکوال کے لوگ عام پاکستانیوں کے مقابلے قدو قامت میں خاصے لمبے ہیں، جن ملک صاحب کا ذکر کر رہا ہوں وہ کچھ زیادہ ہی طویل تھے‘ سات فٹ قد‘ دبلے پتلے‘ ایک دن ڈرے گھبرائے اپنے دوست پروفیسر غنی جاوید کے ٹیوشن سنٹر داخل ہوئے‘ چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر پروفیسر نے پوچھا‘کیا ہوا ملک صاحب؟ پروفیسر یار‘ اللہ نے جان بخش دی‘ مجھ پر بجلی گر پڑی تھی‘ ملک صاحب آپ کہاں تھے؟ میں اونٹ پر تھا اور اونٹ کہاں تھا؟ سامنے کی پہاڑی پر‘ ملک صاحب یہ بجلی آپ پر گری ہے یا آپ بجلی کی بغل میں گھس بیٹھے او؟ یہ لطیفہ ہے یا واقعہ مگر سب سے زیادہ توجہ سے سنے جانے والے ترجمان کی پریس کانفرنس کی روداد پڑھ کے یاد آیا‘ فرماتے ہیں‘ ’’ہمیں سیاست سے دور رکھا جائے‘‘حضرت آپ کو سیاست میں بلایا کس نے؟آپ دور تھے کب؟ کیا اب بھی دور ہیں‘بتوں نے درد دیا تو خدا یاد آیا۔ اسٹیبلشمنٹ ہر ملک میں ریڑھ کی ہڈی ہے‘ریاست کا نظام اسی کے دم قدم سے چلتا ہے‘ جمہوری ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے درمیان عموماً غیر جانبدار رہتی ہے لیکن قطعی غیر جانبدار نہیں ہو سکتی‘ جب یہ کھلم کھلا مداخلت پر اتر آئے تو سمجھ لیجیے کہ کچھ بڑا اور خطرناک ہونیوالا ہے۔ ممتاز علوی‘ بہت نفیس اور مہذب پاکستانی ہیں‘ جو امریکہ کے شہر نیو یارک میں وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں ’’مین ہیٹن‘‘ میں ففتھ ایونیو کی سٹریٹ 49کی ایک کثیر المنزلہ عمارت میں ان کا دفتر ہے‘ قریب ہی ایک کلب بھی ہے‘ پرسکون جگہ‘ صرف مہذب اور پڑھے لکھے لوگوں کیلئے‘ علوی صاحب کافی کیلئے اپنے دوستوں کو اسی کلب میں لے جایا کرتے ہیں۔ علوی صاحب کا گھر جنگل کے بیچوں بیچ الگ تھلگ اور پرسکون‘ پرامن بستی میں ہے۔ امریکی صدر بل کلنٹن اپنی مدت صدارت مکمل کر کے اسی بستی میں علوی صاحب کے ہمسایہ میں آن بسے ہیں‘ چنانچہ بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن کے ساتھ ان کی خاصی جان پہچان ہے‘ علوی صاحب امریکی سیاست میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے حامی بھی ہیں‘اس ہمسائیگی کے ناطے سرگرم بھی۔ کلنٹن کے بعد ان کے نائب صدر الگور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار تھے، ان کے مقابلے میں ’’بش جونیئر‘‘ ریپبلیکن پارٹی کے طرف سے مقابلے میں آئے‘ الگور بڑے پڑھے لکھے دانشور قسم کے انسان ہیں۔بش ان کے مقابلے نیم خواندہ اور اجڈ‘دونوں پارٹیوں میں‘پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے کے مقابلے جاری تھے‘حتمی اعلان تو دور تھا لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ میدان صدارت میں نائب صدر الگور اور بش جونیئر کے درمیان مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔علوی صاحب کے ساتھ راقم اسی کلب میں بیٹھے کافی کے ساتھ امریکہ کے آنے والے انتخاب پر بحث جاری تھی‘الگور کو بظاہر بش پر برتری کا امکان تھا‘کلنٹن حال میں صدارت کی مدت مکمل کر کے آئے تھے‘ ملک میں خوشحالی تھی‘ یہ خوش شکل جوڑا امریکہ بھر میں بہت مقبول تھا‘ علوی صاحب کا خیال تھا کہ الگور خود اچھا امیدوار ہے‘ جب کلنٹن ان کے حمایت میں نکلا تو بش کے مقابلے الگور کو غیر معمولی برتری حاصل ہو جائے گی۔راقم نے علوی صاحب سے عرض کیا‘ اپنی ڈائری کھولئے‘ آج کی تاریخ میں لکھ لیجیے‘ مسٹر بش امریکی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً سی آئی اے کے امیدوار ہیں‘ بش کو ہر صورت جتوایا جائے گا‘ نہیں جانتا کیا ہونے والا ہے لیکن کچھ ہے جو ابھی واضح نہیں اور بش سے کوئی کام لیا جائے گا‘یقینا علوی صاحب کے پاس وہ ریکارڈ محفوظ ہو گا‘ ہمارے بھائی میاں مشتاق کو بھی سب یاد ہو گا۔ووٹوں میں الگور کو لاکھوں کی برتری حاصل تھی‘وہ الیکشن جیت چکا تھا‘فلوریڈا کے ووٹ اس کے حق میں گن لئے جاتے تو وہ صدر بن جاتا‘گنتی رکوا دی گئی‘عدالت نے الگور کے حق میں فیصلہ دیا‘ اعلیٰ ترین عدالت کی مدد حاصل کر کے فلوریڈا کے ووٹ گننے سے انکار ہوا‘بش زبردستوں کی زبردستی سے صدر بن گئے۔ 9/11کا ڈرامہ ‘ سی آئی اے کی نئی جنگوں کا آغاز‘ الگور کو سمجھا دیا گیا تھا اور اس نے خاموش رہ کر اپنی شکست فاتحانہ کو تسلیم کیا اور دنیا کئی عشروں تک ظلم و ستم کا شکار رہی‘چنانچہ الگور ‘ بش مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کی دھاندلی کا نتیجہ ہے کہ آج کنگال امریکہ ’’سپر پاور‘‘ کے عہد سے معزول ہو چکا ہے‘ اس کا بس چلتا نہیں مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک بچ رہتی ہے جسے آج تک خبر نہ ہوئی کہ امریکہ کا عہد تمام ہوا‘ وہ ابھی تک امریکہ کے جھوٹے جھوٹے اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔لیکن دوسری طرف الگور تھا نہ مشرف سامنے سے عمران خان نکل آیا۔لینے کے دینے پڑ گئے۔ ’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ پاکستان میں اصل مسئلہ نئے سپہ سالار کی تعیناتی کا نہیں‘ امریکہ کی ایمآ پر کی گئی غلطی کا ہے۔جنہوں نے غلطی کی ہے‘ ان میں ہمت ہے نہ اہلیت کہ غلطی کو سدھار سکیں‘انہیں غلطی کی کم از کم سزا قبول کرنا ہو گی‘رسوا ہونے سے الگ ہونا کہیں بہتر ہے۔ تین استعفے ایک الیکشن ہی سارے بحران کا آخری حل ہے۔ پسند ناپسند بہت پیچھے رہ گئی‘سپہ سالار وہی بنے جو سب سے سینئر ہے‘ تاکہ وہ ہر تنقید سے بالاتر ہو‘ کس کی مدد اور طرف داری کے الزام و دشنام سے بچتے ہوئے۔ یہ بات سیاستدانوں کو پلے باندھ رکھنی چاہیے‘ ہر فوجی افسر جو فوج میں کڑے مقابلے اور کٹھن مراحل سے گزر کر سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوتا ہے‘ وہ قدم بہ قدم میرٹ یعنی خالص اہلیت کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچ جائے وہ کسی کا ممنون احسان نہیں‘انہی میں سے ایک کو ’’چار ستاروں‘‘ کے ساتھ سپہ سالار مقرر ہونا ہے۔فوج کو کمان کرنا ہے‘ وہ اپنی افواج کا رہبر‘رہنما اور ہیرو ہے‘وہ پیچھے بیٹھ کر نہیں آگے چل کر ان کی رہنمائی کرتا ہے۔وہ کسی سیاستدان کا ممنون احسان نہیں بلکہ وہ اپنے ان لاکھوں بچوں کا مہربان باپ ہے وو بچے جو اس کے حکم پر اپنا خون دیتے ہیں‘ موت کو گلے لگانے میں فخر کرتے ہیں۔جنہیں اس کا یقین نہ آئے وہ بھٹو کی طرف سے ضیاء الحق اور نواز شریف کے بنائے سپہ سالار پرویز مشرف کو دیکھے‘ان سے سبق سیکھے‘سیدھی راہ میں فلاح کی راہ ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو بحران ہے‘سیاسی بحران‘ اقتصادی بحران‘ قانون و آئین کا بحران‘ انتخابات سے انکار کر کے حیل و حجت کے بہانے سے ٹالتے رہنے سے ان بحرانوں میں‘ انتظامی بحران کا اضافہ ہو سکتا ہے۔اس وقت پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں میں نوجوانوں کی تعداد 10کروڑ سے زیادہ ہے۔یہ دس کروڑ ملکی سیاست میں متحرک ہو چکے ہیں ان کے متحرک کا سبب غیر ملکی مداخلت پر ڈھیر ہو جانے والوں پر غم و غصہ ہے۔ پاکستان بھر کی سول انتظامیہ میں اتنی جان نہیں ہے کہ وہ متحرک نوجوانوں کے سیلاب بلا کے سامنے بند باندھ سکے پولیس اور سول انتظامیہ ‘ہنستے مسکراتے‘ نعرے لگاتے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں‘ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو جھنڈوں کی چھڑیاں‘لاابالی نوجوانوں کے ہاتھوں ہتھیار بن جائیں گی۔ان کے خلاف آپ سلامتی کے اداروں کو نہیں اتار سکیں گے اتارو گے تو اپریل 1977ء کی تاریخ دہرائی جائے گی‘ تاریخ کو دہرانے سے روکا جائے…کالی گھٹائیں‘ تیز آندھیاں تلی کھڑی ہیں‘ ابھی بھی ان سے بچ نکلنے کا وقت ہے اس سے فائدہ اٹھائیں‘فائدہ اٹھائیں ورنہ سب خسارے میں رہیں گے۔ فیصل آباد کے ’’نیم پاگل‘‘ کے سہاروں پر نہ رہیں جو کہتا ہے چاہوں تو بیس لوگ بھی اسلام آباد نہیں پہنچ پائیں گے۔ذرا اس سے پوچھیے اس نے نماز عید کہاں ادا کی تھی؟وہ پاکستان کے کسی شہر کی مصروف مارکیٹ میں عمران خاں کی طرح ایک چکر لگانے کی ہمت کر سکتا ہے؟پاکستان سے باہر چار ہزار میل دور لندن میں جا کر بھی جو پاکستانی حکمران چھپ چھپ کے ایک دوسرے سے ملیں نامعلوم مقامات پر۔اپنے گھروں تک نہ آ سکیں وہ ایک برس تک انتخاب کو ٹال سکتے ہیں؟ ہوش کے ناخن لیں اگر کچھ ہوش بچ رہتے ہیں تو