بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی! یہ کشمیری عوام کی آزادی کے لئے تڑپ‘ دلیرانہ جدوجہد اور سروفروشانہ پامردی کا ثمر ہے اور موجودہ حکومت کی طرف سے کچھ کر گزرنے کی خواہش کا نتیجہ ۔ پچاس سال کی طویل مدت کے بعد دنیا بھر میں امن و سلامتی کے فروغ کا ذمہ دار ادارہ ایک تصفیہ طلب تنازعے کے پُرامن حل کی تلاش پر آمادہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نتائج سے بے پروا ہو کر اقوام متحدہ سے رجوع نہ کرتی تو معلوم نہیں کب تک یہ معاملہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج رہتا۔1989ء سے آج تک کشمیری عوام نے ’’پاکستان سے رشتہ کیا۔ لاالٰہ الااللہ‘‘کا نعرہ لگایا‘ ایک لاکھ جانوں کی قربانی دے کر تنازعہ کشمیر کو زندہ رکھا جو پاکستانی قیادت کی غفلت‘ بین الاقوامی برادری کی بے حسّی اور بھارت کی نسل پرست اور متکبر حکومتوں کی عیاری و چالاکی کے باعث سلامتی کونسل کے سردخانے میں پڑا انسانی ضمیر کو کچوکے لگا رہا تھا۔ سلامتی کونسل سے رجوع کا مگر ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگلے چند دنوں میں اقوام متحدہ دارفر یا مشرقی تیمور کی طرح استصواب کا حکم دے گا اور کشمیری عوام آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ یہ عالمی ضمیر کو جگانے اور جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کو روکنے کی ٹھوس کاوش ہے ‘جو اگر ناکام رہی تو خطے میں دو ایٹمی قوتوں کا تصادم ناگزیر ہے۔ عمران خان کے ناقدین کی زبان بند کی جا سکتی ہے نہ سیاسی مخالفین کے شکوک و شبہات کو رد کرنا ممکن کہ ضد اور ہٹ دھرمی کا علاج حکیم لقمان کے پاس نہ تھا ہما شما کون؟لیکن مسئلہ کشمیر پانچ دہائیوں بعد سلامتی کونسل کے اجلاس میں موجودہ حکومت کی کوششوں سے پیش ہو رہا ہے اور کامیابی اس صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان کی حکومت ‘وزارت خارجہ اور عسکری قیادت کی زنبیل میں پلان بی موجود ہو‘ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس ‘ آزاد کشمیر اسمبلی میں خطاب کے دوران جس اعتماد اور یقین کے ساتھ مودی کو للکارا‘ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے پاکستانی فوج کو تیاری کا حکم دیا اور قومی سلامتی کمیٹی کے علاوہ کور کمانڈر کانفرنس میں کشمیریوں کی آزادی کے لئے آخری حد تک جانے کی بات ہوئی وہ محض زبانی جمع خرچ نہیں‘ سنجیدہ معاملہ ہے‘ دورہ چین کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی روسی ہم منصب سے مل چکے اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے وزیر اعظم عمران نے خود بات کی جس کا مطلب ہے کہ حالات اتنے مایوس کن نہیں جتنے حکومت کے مخالفین بیان کر رہے ہیں لیکن انحصار ہمارے دلیرانہ طرز عمل‘ ٹھوس سعی و تدبیر اور عزم و ارادے پر ہے۔ نریندر مودی اس وقت بھارت میں تنہا ہے‘ دنیا میں ہدف تنقید اور جموں و کشمیر میں قابل نفرت‘ عمران خان نے مودی کو فاشسٹ ہٹلر اور بی جے پی کو جرمنی کی نسل پرست نازی پارٹی سے تشبیہ دے کر امریکہ و یورپ کو ایک نئی عالمی جنگ کی چتائونی دی ہے۔کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ سے بھارت کی فرسٹریشن ظاہر ہوتی ہے اور جنگیں بالعموم ایسی فرسٹریشن سے جنم لیتی ہیںلیتی رہی ہیں۔ پاکستان مودی کے نسل پرستانہ اقدامات‘ جموں و کشمیر میں نسل کشی کے امکانات اور کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی کو دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورتحال سے جوڑ کر عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کے روبرو اپنا اور کشمیری عوام کا مقدمہ پیش کرے تو کامیابی کے امکانات روشن ہیں‘ کامیابی ہو نہ ہو‘ اتمام حجت ضرور ہو گا اور مستقبل میں یہی اتمام حجت 27فروری جیسے کسی واقعہ کی صورت میں ہمارا زاد راہ ہے۔ سلامتی کونسل میں ہم کنٹرول لائن کو ایک بار پھر سیز فائر لائن کا درجہ دلانے اور شملہ معاہدے سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئے تویہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہو گی ‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خدانخواستہ اگر ہماری قرار داد ویٹو ہو تب بھی یہ مسئلہ ایجنڈے پر موجود رہے گا اور بھارت بین الاقوامی تنازع کو دو طرفہ معاملہ قرار نہیں دے پائے گا ‘ویٹو پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی ایک ہی کر سکتا ہے اگر حکومت پاکستان نے چین کے تعاون سے موزوں ہوم ورک کیا ہے تو ہمارے دفتر خارجہ کو اندازہ ہو گا کہ روس‘ فرانس اور امریکہ میں سے کون قرار داد پر انگلی اٹھا سکتا‘ ویٹو کے ذریعے منظوری کو روک سکتا ہے؟ ہمارے حکمران اور سفارت کار مسلسل یہ تاثر دیتے چلے آ رہے ہیں کہ روس اب بھارت سے زیادہ پاک چین اتحاد کا حصہ ہے اور پوٹن عمران خان سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں یوں ملے جیسے برسوں کے بچھڑے دوست ملتے ہیں۔ یک جان دو قالب۔ اگر یہ سچ ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ عمران خان فون اٹھائیں اور اپنے دوست پوٹن سے بات کریں‘ یقین دہانی چاہیں کہ ان کا ملک بھارت سے اپنے کاروباری مفادات کو بالائے طاق رکھ کر حق اور سچ کا ساتھ دے گا ‘قرار داد کو ویٹو نہیں کرے گا‘ یہی بات امریکی صدر اور فرانسیسی سربراہ سے کرنے کی ہے۔ جموں و کشمیر سے بھارتی فوج کی واپسی ‘ کرفیو اور پابندیوں کا خاتمہ اور حق خود ارادیت کے لئے استصواب کا مطالبہ کوئی ناروا عمل ہے نہ کھیلن کو مانگے چاند‘خطے بلکہ دنیا کو جنگ کی آگ سے بچانے کی مثبت سعی ہے جس کا ساتھ امریکہ اور روس کو ضرور دینا چاہیے کہ یہ دونوں افغان جنگ کی ہولناکی سے براہ راست متاثر ہیں اور اس حقیقت سے واقف کہ جنگ کسی تنازعہ کا حل ہے نہ نسل پرستی اتنہا پسندی اور فوجی مداخلت و جارحیت سے کسی قوم کو طویل عرصہ تک دبانا ممکن۔ سوویت یونین کو آٹھ نو سال میں اس بدیہی حقیقت کا ادراک ہوا‘ امریکہ سترہ سال بعد پتھر چاٹ کر پلٹنے کی تگ و دو کر رہاہے مگر بھارت‘ ستر سال بعد بھی تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں کہ صدیوں کی ذلت آمیز غلامی کے بعد ستر بہتر سالہ آزادی برہمن قیادت کو ہضم نہیں ہو رہی اور مودی سمیت بھارتی قیادت کا خیال ہے کہ جس طرح ان کی قوم کئی سو سال تک مسلمانوں اور انگریزوں کی غلامی پر قانع رہی‘ کشمیری مسلمان اور ان کے ہمدرد و ہمنوا پاکستانی عوام بھی برداشت کریں گے ۔وہ روس اور امریکہ سے سبق سیکھنے کے بجائے اسرائیل کے ٹونے ٹوٹکے آزما رہا ہے ۔ جس روز پاکستان نے پورے قد سے کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ قائد اعظمؒ کی طرح ہماری موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کو نسل پرست ‘ فاشسٹ مودی کے عزائم کا ادراک ہو گیا اور ہم نے سقوط ڈھاکہ کا بدلہ لینے کی ٹھان لی ‘کشمیر کی آزادی خواب رہے گی نہ پاکستان خوف کا شکار ریاست۔ نو لاکھ بھارتی فوج اسی نوے سالہ سید علی گیلانی کو جھکا نہیں پائی‘ نہتے کشمیری عوام کو روندنے میں ناکام ہے‘ نیو کلیر پاکستان سے زور آزمائی میں کامرانی کا مُنہ کیونکر دیکھ سکتی ہے؟ہڈیوں کے ڈھانچے اور دینوی وسائل سے یکسر تہی دست قائد اعظم کو یہ علم تھا اور انہوں نے محدود اقلیت کو غالب اکثریت پر کامران کر دکھایا بیس کروڑ آبادی کا ملک ناممکن کو ممکن کیوں نہیں کرسکتا؟۔ ہم افغانستان اور کشمیر کے نہتے عوام سے نہ سیکھ پائیں تو اس کم ہمتی اور ناعاقبت اندیشی کا کیا علاج؟ تاریخی موقع ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ یہ ہم پر ہے کہ دروازہ کھول کر اُسے خوش آمدید کہتے‘ فائدہ اٹھاتے ہیں یا کم کوش‘ بے ذوق اور بدقسمت ہجوم کی طرح خواب غفلت کے مزے لیتے‘ اپنی اور کشمیری عوام کی منزل کھوٹی کرتے ہیں ع جڈاں عاشقاں بدھیاں کمراں‘ دلی اڈھائی کو ہے (خواجہ فریدؒ) عمران خان ہمیشہ جنون سے کام لینے کی بات کرتا ہے’ جنون آج بروئے کار نہ آیا تو کب؟Now or Never