وہ دن گئے جب سیاست کو عبادت سمجھ کر کیا جاتا تھا اور سیاست کرنے کو عبادت کہا جاتا تھا کیونکہ وہ سیاست انسانوں کی فلاح اور بہبود کے گرد گھومتی تھی۔ سیاست کی ساری سرگرمیوں کا مقصد معاشرے اور انسانوں کے لیے بنائے گئے نظام کی بہتری ہوا کرتا تھا۔ اب سیاست، طاقت کے حصول اور ذاتی مفادات کے گرد گھومنے والی ایک ایسی سرگرمی ہے جس میں عوام اور غریبوں کا تذکرہ صرف تقدیروں کو پُرکشش بنانے اور وقتی بڑھکیں لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سیاست کی اسی قسم کو Real Politik کا نام دیا گیا ہے۔ ڈکشنری میں اس لفظ کی تعریف کچھ یوں ہے: A System of politics of Principles based on practical rather than moral or ideological consideration. سیاست کے مقاصد اور طور طریقے جب پریکٹیکل ہو جائیں تو اس میں اخلاقی قدروں کی موت واقع ہونا لازمی ہوتا ہے اور اسی کا دوسرا نام نظریہ ضرورت کی سیاست ہے۔ نظریہ ضرورت بھی کس شہ دماغ کی ایجاد ہے۔ کبھی ضرورت کا بھی کوئی نظریہ ہوتا ہے۔ ضرورت یعنی "Need" کی شدت اور خواہش ہی تو ہے جس پر ضابطے اور اخلاقی قدریں قربان کی جاتی ہیں۔ میرے وطن میں ستر سالوں سے نظریہ ضرورت کی حکمرانی اور رئیل پولیٹکس کا تماشا جاری ہے۔ عوام محض ایک تماشائی ہیں جو سیاسی منظر نامے پر ہونے والی سرکس کو دیکھتے ہیں۔ کچھ بھولے عوام سمجھتے ہیں کہ ان سیاستدانوں کے سینے میں ان کا درد موجود ہے۔ وہ ان سیاستدانوں کی بڑھکوں اور خالی خولی تقریروں پر ایمان لے آتے ہیں۔ اپنی خواہش، آدرشیں ان کی ذات سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ خوش گمانی کو تو بہرحال ایک روز ختم ہونا ہوتا ہے۔ سو خوش گمانی ختم ہوکے رہتی ہے لیکن ہائے عوام کی قسمت، ایک خوش گمانی ختم ہو جائے تو دوسری پال لیتے ہیں اور امیدوں کے سراب میں عذاب سہتے چلے جاتے ہیں۔ کسی نے نوازشریف کو جمہوریت کا استعارہ سمجھا۔ مزاحمت کی علامت سمجھ کر اس کے گن گائے اور اب جبکہ مزاحمت ایک طبی این آر او میں بدل چکی ہے تو ان سے وابستہ فالورز کے لیے یہ ایک یقینی دھچکا ہے۔ کہیں، بدحال سندھی، بھٹو کی قبر کے مجاور بنے بیٹھے ہیں اور بھٹو کے کاسیٹوم پہنے ہوئے ان کرداروں سے وقت بدلنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو غریب کا نعرہ لگا لگا کر، اربوں کے اثاثے بناتے چلے جا رہے ہیں مگر ان کی اپنی ہوس کم ہونے میں نہیں آتی۔ ان دو سیاسی خدائوں کے درمیان پھر ایک تبدیلی کا دیوتا نمودار ہوا۔ باتیں، وعدے، دعوے تو ایسے تھے کہ لوگوں کو اس پر سچ کا گمان ہوا سو اسے دل سے تبدیلی کی علامت سمجھ لیا۔ وہ کہتا تھا کہ میں نیا پاکستان بنائوں گا اور لوگ ایمان لے آئے کہ یہ اجلا، انصاف پر مبنی نیا پاکستان بنا کر رہے گا کیونکہ یہ اصول اور قانون کی بات کرتا ہے۔ وہ اپوزیشن میں تھا تو حکمرانوں کو انصاف، احساس، اخلاقیات کا درس دیا کرتا تھا،لوگ اس پر فدا ہونے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ جادو گر آئے گا توسارے منظر کوبدل ڈالے گا۔ یہ انصاف، عدل، دیانت، اصول اور اخلاقیات کی بات کرنے والا اپنی حکومت کے نظم و نسق کو انہیں اعلیٰ اصولوں پرقائم کرے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں بھٹو کے بعد کسی سیاستدان سے عوام نے توقعات وابستہ کر کے امیدوں کے ایسے عظیم الشان شیش محل کھڑے نہیں کئے ہوں جیساکہ تبدیلی کے دیوتا سے امیدیں اور آدرش وابستہ کرلی گئیں اور اب حالات یہ ہیںکہ امیدوں کے نخل سوکھے پڑے ہیں اور کوئی پانی دینے والا نہیں۔ خوش گمانیوں کی کرچیاں، پیروں کو چھلنی کر رہی ہیں۔ اصولوں کے شیش محل دھڑام سے نیچے آگرے ہیں۔ وہ جو اخلاقیات کے دبنگ بھاشن ہم سنا کرتے تھے اب نئے موسم میں ان کو صرف آئینہ دکھانے کے کام آتے ہیں۔ سیاست میں اصولوں، اخلاقیات اور ضابطوں کے بھاشن دینے والے آج اپنے ہاتھوں اصولوں کی سیاست کو رئیل پولیٹکس کے قبرستان میں دفن کر چکے ہیں لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں کو اخلاقیات، اصولوں، آئین اور جمہوریت کا بھاشن دینے کے لیے اب مولانا شہر اقتدار میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ بارہ تیرہ روز دھرنے کو آئے ہیں، اسلام آباد کی سردی، بارش اور موسمی شدت کو سہتے ہوئے غریب کارکن ایک بار پھر مولانا کی سربراہی میں تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب تک کا پرامن رہنے والا دھرنا کل کو کسی بدترین سانحے کا شکار ہو سکتا ہے۔ لاشیں گرانے کی اور اٹھانے کی بات کر کے مولانا نے اپنے خطرناک عزائم مقتدر حلقوں پر ظاہر کردیئے ہیں۔ ساری زندگی پاکستان کو ایک طفیلئے کی طرح چوسنے والے آج اسی سرزمین پاک کے خلاف اپنی زبان استعمال کر کے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ مفاد پرستی کی سیاست میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ خدشات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ خطرے کی گھنٹی بچ چکی۔ Enough is Enough۔ رئیل پولیٹکس کے اس کھیل میں حد کراس کرنے کی اجازت مولانا کو ہرگز نہیں دینی چاہیے۔ دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہر غریب کارکن کی جان قیمتی ہے۔ کسی کو مولانا کے رئیل پولیٹکس کے اس کھیل تماشے کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ دھرنے کو پرامن رکھ کر مولانا نے اب تک جو عزت کمائی ہے خدا کے لیے مولانا اس عزت کو سنبھالیے اور پرامن طریقے سے دھرنے کے اس کھیل کو ختم کیجئے۔ حکومتی حلقوں اور طاقت کے اصل مرکز و محور قوتوں کو بھی لچک کا مظاہرہ کر کے حالات کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے۔ مفاد پرستی کی اس سیاسی سرکس میں عوام محض ایک تماشائی ہیں اور تماشائی اس وقت سخت مشکل میں ہیں کیونکہ ٹماٹر 300 روپے کلو ہیں جبکہ مریخ سے آئے مشیر خزانہ فرما رہے ہیں کہ ٹماٹر 17 روپے کلو دستیاب ہیں۔ یقینا وہ مریخ کے ریٹ بتا رہے ہوں گے۔