بجلی بحران نے2007ء میں سر اٹھانا شروع کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو پانچ سالوں کے دوران سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی بدترین لوڈشیدنگ رہی ۔ پیپلزپارٹی بجلی بحران تو حل نہ کرسکی مگر رینٹل پاور اسکینڈل کے باعث وزراء اور افسران کے خلاف نیب کی عدالتوں میں آج ریفرنس ضرور بھگت رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نے بجلی کی قلت کو ملکی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اقتدار کے دوسرے مہینے میں پاورپالیسی منظور کی۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاسٹ ٹریک پر ڈیڑھ سال میں نئے پاور پلانٹس لگنا شروع ہوئے اور یوں 2017میںملکی طلب کے مطابق پاور پلانٹس نے بجلی پیدا کرنا شروع کردی۔پاکستان تحریک انصاف نے اقتدارسنبھالا تو بجلی کی قلت کا مسئلہ تو ختم ہوچکا تھا مگر جی ڈی پی گروتھ میںمطلوبہ اضافے کی بجائے کمی ‘ نئے پلانٹس آپریشنل ہونے سے مہنگی بجلی اور گردشی قرضے کا سنگین چیلنج پیدا ہوگیا۔بجلی کی قیمت میںمسلسل اضافے نے عوام اور صنعتی مالکان کی کمر توڑ کر رکھ مگر اسکے باوجود گردشی قرضہ نے 2ہزار 500ارب روپے کے قریب پہنچ وزیراعظم کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں۔وزیراعظم او رمقتدرحلقوں کی انتھک کوششوں سے آئی پی پیز کو ٹیرف کم کرنے پر راضی کیا گیا۔وزیراعظم نے بجلی کے نرخوں میں ساڑھے 4روپے فی یونٹ مزید اضافہ روکتے ہوئے معاون خصوصی برائے توانائی کو مہنگی بجلی اور گردشی قرضے کا حل نکالنے کا ٹاسک دیا مگر اس کے باوجود آئی پی پیز کے مالی مفاد کا تحفظ کرنے عناصر آج بھی متحر ک ہے۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیج کمپنی‘سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور پاور ڈویژن کے افسران نے دوآئی پی پیز اے ای ایس لعل پیر اور پاک جن کے معاہدوں میں خلاف ضابطہ ترمیم سے قومی خزانے کو 15ارب روپے سالانہ نقصان جبکہ آئی پی پیز مالکان کو فائدہ پہنچا یا ہے۔ان دونوں پاور پلانٹس سے بجلی کی یونٹ پیداوار لاگت 18روپے ہے دیگرپلانٹس کی یہ لاگت 2روپے 8روپے فی یونٹ تک ہے۔ 1994کی پالیسی کے تحت حکومت نے ان پلانٹس سے بجلی مہنگی ہو یا سستی ۔۔20فیصد لازم خریدنے کا معاہدہ کیا ہوا تھا۔ پلانٹس مالکان کی کوششوں سے یہ شرح اب 20فیصد سے بڑھاکر50فیصد کردی گئی ہے۔یکم مارچ2021کو اس وقت کے جنرل مینیجر اور موجودہ ایم ڈی این ٹی ڈی سی نے ٹرانسفر کے آخری دن ایم ڈی کی منظوری کے بغیر کم سے کم لوڈنگ 20فیصد سے50فیصد کرنے کی منظوری دی۔20اپریل2021کو پاور پلانٹس کی انتظامیہ نے سی پی پی اے -جی کے ساتھ پاور پرچیر ایگرمینٹ میں ترمیم نمبر2کے ذریعے کم سے کم لوڈنگ20سے50فیصد اضافہ کرا لیا۔29اپریل2021کونئے جنرل منیجرنے معاملے کا پتہ چلنے پر ایم ڈی کو بے قاعدگیوں سے متعلق آگاہ کیا۔ایم ڈی کی جانب سے نیپرا،وزارت توانائی،این ٹی ڈی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز او ر سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے نوٹس میں معاملہ لایا گیا۔ایم ڈی کی جانب سے اس وقت کے جنرل منیجر سے وضاحت طلب کی گئی اور چیئرمین بورڈ آف ڈائریکڑز کو آگاہ کیا گیا۔تاہم چیئرمین بورڈ آف ڈائرکٹرز کی جانب سے محمد ایوب کے خلاف قومی خزانے کوسالانہ15ارب روپے کا نقصان پہنچانے کی صورت میں کارروائی کرنے کی بجائے 20مئی2021کو ڈی ایم ڈی این ٹی ڈی سی تعینات کر دیا۔ وزارت توانائی کو گمراہ کرکے ایم ڈی خواجہ رفعت حسین کو عہدے سے ہٹا کر محمد ایوب کو ایم ڈی این ٹی ڈی سی کا اضافی چارج دیدیا گیا۔بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرنے والے نئے جنرل منیجر کوواپڈا ہاؤس ٹرانسفر کرکے ان کی جگہ اپنے خاص افسر چیف انجینئر کو تعینات کردیا گیا۔خواجہ رفعت حسین کو انتقام کو مزید نشانہ بنانے کیلئے لاہور سے حید ر آباد ٹرانسفر کردیا گیا۔چئیرمین این ٹی ڈی سی ماضی میں ا ے ای ایس لعل پیر اور پاک جن آئی پی پیز گروپ کیساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔ یہ عناصر وزیراعظم سمیت پوری حکومت کو ناکام کرنے کے درپے ہیں۔قومی مفاد کا تحفظ کرنے والے افسران کو نئے پاکستان میں بھی نشان عبرت بنادیا گیا ہے۔تمام دستاویزی ثبوتوں کیساتھ درخواست وزیراعظم آفس کو بھی بھجوائی جاچکی ہے مگر ایک ہفتے گذرنے کے باوجود یہ درخواست وزیراعظم کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔مافیا کی سرکوبی کیلئے سرگرم وزیراعظم ایسے افسران کے خلاف نتیجہ خیز انکوائری کے ذریعے ناقابل فراموش مثال قائم کرسکتے ہیں۔خواجہ آصف نے2015میں سینٹ اجلاس کے دوران بعض آئی پی پیز مالکان کیلئے Robber Baronsکی اصطلاح استعمال کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔ خواجہ آصف کی اصطلاح کو پانچ سال بعد انکوائری کمیشن نے درست ثابت کردیا۔مگر سوال یہ ہے کہ 19ویں صدی میں امریکی عوام کا استحصال کرکے دولت کے انبار لگانے والے Robber Baronsکا تو خاتمہ ہوچکا مگر اندرونی وبیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسے وطن عزیز میں آج بھی Robber Barons کا راج ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد کے دو نئے سیکٹرز میں اراضی کی ادائیگی کے اسکینڈل سے متعلق 92نیوز کی خبرپر بالاخر ڈی جی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی نے فیکٹ فائنڈنگ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے نائب تحصیلدار کو اوایس ڈی بنادیا ہے۔ایف 12 اور جی 12 سیکٹر کی اراضی کی ادائیگیوں کیلئے پاور آف اٹارنی اور ایف جی ای ایچ اے کے افسران اور ملازمین کے ملوث ہونے کی بھی انکوائری کی ہدایت کی گئی ہے۔مقامی افراد پر دباؤ ڈال کر پاور آف اٹارنی حاصل کرنے کے معاملے کی بھی انکوائری ہوگی۔رشتہ داروں اور دوستوں کے نام پر پاورآف اٹارنی کے ذریعے 15ارب روپے اینٹھنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ہاوسنگ اتھارٹی نے 72لاکھ روپے فی کینال ریٹ منظور کیا، افسران نے 20لاکھ روپے پرپاور آف اٹارنی حاصل کئے۔ وفاقی وزیر ہاوسنگ طارق بشیر چیمہ نے حقیقی مالکان کی بجائے پاور آف اٹارنی پر76کروڑ روپے کی ادائیگیاں رکوادیں ہیں۔ڈی جی ایف جی ای ایچ اے نے تحقیقات ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔