سورج صرف طلوع ہونے کے لئے ہی ڈوبا ہے‘سائوتھ ایشیا میگزین نے سرورق پر عمران خاں کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے‘ سورج طلوع ہونے کے لئے ہی ڈوبا ہے۔عمران خاں کی سربراہی میں بننے والی حکومت کو عدم اعتماد کر کے ہٹا دیا گیا ہے، اس کے بعد شہباز شریف نے حکومت بنائی ہے لیکن صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان کے عوام آج بھی عمران خاں کے ساتھ ہیں‘ عوام کے پرجوش جلسے اور جلوس اس پر گواہی دیتے ہیں، سائوتھ ایشیا میگزین کے علاوہ ایک امریکہ دانشور کے تبصرے نے بڑی شہرت پائی ہے وہ لکھتے ہیں امریکہ نے پاکستان میں حکومت تبدیل کر کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کو اپنا مخالف بنا لیا ہے، ان دنوں مغربی میڈیا کی ایک خوبصورت اور مقبول اینکر کا ٹیلی ویژن پر کیا گیا مختصر تبصرہ بڑی مقبولیت حاصل کر رہا ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ آج مغربی میڈیا کے لئے عمران خاں کی کوریج کیوں ضروری ہے؟مغربی ذرائع ابلاغ کے لئے عمران خاں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اگر آپ غور سے اس بات کا جائزہ لیں تو یہ شخص ایک عرصہ دراز سے رائے عامہ کے دس بڑے رہنمائوں میں شامل ہے، یہ امن پسند مسلمان رہنما ہے، جو پاکستان کو جمہوریت کی طرف لے جا رہا ہے، دنیا بھر کی کل آبادی میں اٹھائیس (28) فیصد مسلمان اور تقریباً تیس(30) فیصد عیسائی رہتے ہیں ،عمران خاں دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں، میں ذاتی طور پر سوشل میڈیا پر انہیں فالو کرنا پسند کرتی ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں امریکہ کی خوشنودی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کم از کم چار مرتبہ حکومتوں کی تبدیلی عمل میں آئی ہے لیکن پہلی دفعہ کسی رہنما نے کھل کے امریکہ کا نام لیا اور اس کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے خم ٹھونک کے میدان میں اترا ہے‘اس نے نہ صرف پاکستانی عوام کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے سازشیوں کے خلاف متحرک کیا بلکہ اس نے امریکی حکومت اور رائے عامہ کو براہ راست مخاطب کیا اس خطاب اور مزاحمت پاکستان سے ہوتی ہوئی، خود امریکی انتظامیہ پر بھی اثر انداز ہوتی نظر آ رہی ہے۔ امریکہ کے صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ آئندہ انتخابات کیلئے ابھی سے فکر مند نظر آتی ہے‘اس لئے کہ نہ صرف دو ملین سے زیادہ پاکستانیوں کے ووٹ یکسر خلاف جانے کا امکان ہے بلکہ سب مسلمان ووٹر بشمول بلیک مسلم‘ اجتماعی طور پر بائیڈن کے خلاف صف آرا ہو سکتے ہیں۔ عمران خاں کی وجہ سے مسلم دنیا میں پیدا ہونیوالی بیداری اور پاکستانی عوام کا پرجوش ردعمل امریکہ اور یورپ کیلئے ڈرائونا خواب بنتا جا رہا ہے‘ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیلئے امریکہ کی مدد سے حکومت کی تبدیلی بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر عران خاں نے ان کا کھیل یوں بگاڑا کہ اب اسٹیبلشمنٹ اتحاد اور انکی گٹھ پتلیاں خود کو گرم تیل کی کڑاہی میں گرا دیکھتے ہیں۔ کوئی طعنہ کوئی پھبتی کوئی دھمکی کوئی کوشش کوئی سازش کوئی اتحاد عمران خان کی صحت پر اثر انداز نہیں ہے صرف چار ہفتے پہلے اکیلی ن لیگ عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلے میں کم از کم پنجاب کی حد تک برابر کا سیاسی دھڑا نظر آتی تھی، صرف 9اپریل سے آج 8مئی کو پورے پاکستان کی ساری سیاسی غیر سیاسی جماعتیں دھڑے ریاستی ادارے خشک پتوں کی طرح ہوائوں کے رحم و کرم پر ہیں ،کل تک جو جلد انتخاب کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے ہیں ،آج انتخابات کے نام پر انکے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ کیسے کیسے ایسے ویگے ہو گئے حکومت تو مل گئی مگر خواب بکھر گئے، سنا تھا عمران خاں کی کامیابیوں کے پیچھے جنرل پاشا اور بعد میں فیض حمید کا ہاتھ تھا، جلسوں کا رنگ و رونق میں عمران کی کشش سے زیادہ جہانگیر ترین کی چمک اور علیم خاں کی صلاحیت کو دخل ہے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا اشارہ بھی اس میں شامل ہو کر ہی رنگ جماتا ہے۔’’خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا‘‘ 9اپریل فیصلے کا دن تھا جس نے کھرے کھوٹے کو الگ کر دیا خالص ناخالص جدا ہو گئے، اصل اور نقل پہچان لئے گئے سہارے اور بیساکھیاں ہٹا دی گئیں۔علیم خاں بھی حاضر جہانگیر ترین بھی موجود اسٹیبلشمنٹ بھی پیچھے۔مسلم لیگ نواز بھی زندہ ساری حکومتیں یعنی انکی انتظامیہ بھی سارے ملک کی سیاسی جماعتیں طبلچی نقارچی ذرائع ابلاغ اندھیرے اجالے کے مالک دانشور سارے مل جل کر مینار پاکستان کے سائے میں عمران خاں کے مقابلے میں ایک جلسہ کر دیں ویسا ہی پرجوش ویسا ہی بے ساختہ ویسا ہی پرامن ایک صرف ایک جلسہ۔تو یقین کیجیے بازی عمران خاں کے خلاف پلٹ جائے گی کیجیے تو سہی۔یہ گھوڑا یہ میدان مصر کے سارے جادوگر جمع ہیں، اپنی رسیاں پھینک دیں جو سانپ بن کر عمران خاں کو ڈس لیں تحریک انصاف کو نگل جائیں مگر عصائے موسیٰ سے ڈر لگتا ہے وہ تو اللہ کی قدرت میں جسے چاہے عطا کرے ۔جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور جادو ہے کہ اترتا ہی نہیں‘جادو اثر ٹرینڈ چلا امپورٹڈ حکومت نامنظور چار ہفتے ہو چکے آج بھی دنیا بھر میں سب سے اونچا سب سے مقبول رجحان یہی ہے سولہ کروڑ سے تجاوز کرتا ہوا نئے ریکارڈ بنا کر چلا نہیں گیا ۔اب بھی ٹھہرا ہوا ہے۔ سب کو للکارتا چیلنج کرتا ہوا کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے مگر کون آئے کوئی ہو تو سہی سامنے کھڑا ہونے کون آئے یہ تو انسانی تاریخ کا لاجواب زمانہ ہے جسکی حکومت گئی وہ خوش اور کمال ہے‘جن کو حکومت ملی وہ اقتدار پا کر افسردہ و ملول۔دنیا نے یہ نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ نئی حکومت کے حکمرانوں نے عید کی نماز تک ادا کرنے کیلئے عید گاہوں اور مسجدوں کا رخ نہیں کیا۔ چھپ چھپ کے نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔عمران خاں کے اقتدار سے الگ ہونے کی خوشی میں پاکستان کے خمینی جنہیں لاہور کے ہوائی اڈے پر چالیس لاکھ پرجوش پیروکاروں نے اپنی گردنوں پر سوار کرنے کیلئے کندھوں پر بٹھانا تھا وہ پاکستان سے دور لندن میں بھی چند منٹ کے فاصلے پر ریجنٹ پارک مسجد تک آنے کی جرات نہ کر سکے ارب پتی بیٹے کے دفتر میں چھوٹے سے کمرے کے اندر چند نوکروں کیساتھ چھپ چھپا کر عید پڑھتے پکڑے گئے۔معانقع کرنے اور عید ملنے کو جو نظر پڑا وہ بے چارے اسحاق ڈار کے سوا کون تھا۔ (غالب): جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر یہ تنگیٔ چشم مسود تھا مرد آہن وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ حاجی اسلم کے دفتر کے سامنے اجڑے ہوئے ڈیرے کے نیم خستہ کمرے میں دو ایک رشتے داروں چار ملازموں اور ایک بچے پر مشتمل مجمع عام میں نماز عید پڑھتے دکھائی دیے وہ بھی چوری چھپے لی گئی کیمرے کی تصویر سے پتہ چلا۔ ہارون الرشید اگر کھوج لگائیں اپنے ریسرچ کو ٹاسک دیں کہ وہ علیم خاں جہانگیر ترین وزراء اعلیٰ نام نہاد باغی جنہیں عرف عام میں اب لوٹا کہتے ہیں ان کی نماز عید کی رودا لکھیں تو کم از کم ایک ہفتے کے پروگرام کے لئے کافی رہتے۔ایسی دلچسپ چٹ پٹی اور مقبول عام کہ عید کے سارے پروگرام اس کے سامنے پھیکے پڑ جائیں۔ عید کے بعد تین دن میں عمران خاں سے دو ملاقاتیں ہوئیں 1996ء سے 6مئی 2022ء عمران خاں سے سینکڑوں ملاقاتیں رہیں، جلسے کئے سفر ہوئے گپیں ہانکیں لیکن عمران خاں کو کبھی اس قدر مطمئن‘بیدار مغز پرجوش کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا اب ہے۔حکومت جانے کے بعد وہ خوشی سے نہال ہے اور جن کو حکومت ملی وہ بے حال ہوئے جاتے ہیں۔بقول خورشید رضوی صاحب کامیابی میں جو ناکام لگتا تھا ناکامی میں ایسا کامیاب ہوا کہ دنیا رشک کرتی ہے۔(میاں محمد بخش): جتن جتن ہر کوئی کھیڈے ہارن کھیڈ فقیرا جتن دا مُل کوڈی پیندا‘ ہارن داخل ہیرا