وزیراعظم عمران خان کے وژن کی روشنی میں تحریک انصاف کی حکومت’ نیاپاکستان اور تبدیلی‘کیلئے دوسال سے کوشاں ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کرکے عوام کی دلی خواہشات کو مہمیز لگائی۔ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے حکومت کی سب سے بڑی پالیسی کڑا احتساب ٹھہرائی گئی مگر تلاطم خیز لہروںسے نبردآزمایہ کشتی منجدھار میںپھنستی جارہی ہے۔مسائل او ر چیلنجزکے ہمالیہ کے سر ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ کشتی کو منجدھار سے نکالنے میں ناکامی کی تین بنیادی وجوہات ریونیو شارٹ فال‘ گردشی قرضہ اور نیب ہیں۔ کسی بھی حکومت کو سیاسی‘ـسماجی اورمعاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ریونیو درکار ہوتا ہے۔گڈ گورننس‘ـ خزانے‘زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور اخراجات وخسارہ میں کمی سے ہی حکومت عوامی توقعات پر پوری اترکراپنی بقا کا سامان کرتی ہے۔تجارتی سرگرمیوں اور معاشی شعبوں میں بے چینی پیدا کئے بغیرریونیو اضافہ عوام کو مزید بوجھ سے بچانے اور مشکل صورتحال کے دوران ریلیف پہنچانے کا مؤجب بنتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپریل 2018ء میں اعلان کیا تھا کہ انکی حکومت پہلے سال کے دوران ہی ریونیو 4ہزارارب روپے سے بڑھا کر 8ارب روپے کردے گی اور عوام پربوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ ٹیکس چوروں اور ایف بی آر اصلاحات کے ذریعے خزانہ کو بھردیں گے۔ عمران خان اقتدار کی مسند پر فائر ہوئے اورجون 2019ء میں پہلے مالی سال کے دوران ہی نظرثانی شدہ ہدف 4ہزار 150ارب حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ مالی سال 2018-19ء میں حکومت 3ہزار832ار ب روپے وصول کرسکی۔مالی سال 2019-20ء میں اصل ہدف میں 1ہزار500ارب روپے شارٹ فال کیساتھ مجموعی وصولی 3ہزار989ارب روپے رہی۔حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ نئے ٹیکس نہیں لگائے جبکہ آئی ایم ایف نے750ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔وفاقی حکومت پہلے دونوں مالی سال ریونیوہدف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ‘ ایف بی آر اصلاحات تو درکنار چار چیئرمینوں کی تبدیلی سے ایڈہاک ازم اور غیریقینی صورتحال پیداہوگئی۔ ریونیو ٹارگٹ کے حصول میں ناکامی سے قومی خزانے پر مزید بوجھ بڑھ گیا۔ حکومت نے بھاری قرضوں کا سلسلہ شروع کردیا مگر اس دوران بے قابوگردشی قرضے نے سب کی نیندیں اڑا کررکھ دیں ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1ہزار100ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑا جس میں 500ارب روپے پاورہولڈنگ کمپنی کے ذمہ واجب الاد قرض تھا جس کا مطلب ہے کہ 2013ء سے مئی2018ء تک گردشی قرضے میں 600ارب روپے کااضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ سے حکومت گھریلوصارفین اور ایکسپورٹ سیکٹر کو سستے دام پر بجلی کی فراہمی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ میں گردشی قرضے کنٹرول کرنے کا اعلان کیا او ر دوسال کے دوران گردشی قرضہ1ہزار ارب روپے اضافے کیساتھ 2ہزار100ارب روپے سے تجاو زکرتے ہوئے ملکی تاریخ کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے۔حکومت نے بجلی کے نرخوں میں ریکارڈ اضافہ کیا۔ ایسے میں عدالت عظمیٰ نے 20جولائی کو خواجہ برادران کیخلاف نیب کیس سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا۔فیصلے میں درج کیا گیا کہ نیب نے مقدمے میں قانون کی دھجیاں بکھیر دیں۔ احتساب یکطرفہ اورلوگوں کو برسوں‘ مہینوں جیل میں سڑا دیا جاتا ہے دوسری طرف بڑے بڑے مالی الزامات پر بھی کچھ نہیں کیا جاتا۔عوام کی نظر میں نیب کی ساکھ اور غیر جانبداری مجروح ہوچکی۔ آئین میں انسانی احترام کا حق غیر مشروط ہے‘ کسی بھی حالات میں ختم یا کم نہیں کیا جاسکتا‘سزا کے بغیر گرفتاری شخصی توہین‘ـ فرد اور خاندان کیلئے اذیت اور بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںایسی صورتحال کو ‘‘Subversion of Law’’کے تناظر میں ڈیل کیا جارہا ہے اور ایسے اقدامات کے نتیجے میں سخت سزائیں تجویز کی گئیں ہیں تاکہ قانون وانصاف کی بالادستی ہو‘طاقتور کمزور کے خلاف قانون کا غلط استعمال نہ کرسکے۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے ریاست مدینہ کے اہل اقتدار کو ایک بہت بڑا موقع عطا کردیا ہے کہ قانون وانصاف کی بالادستی کیلئے ملک کودرپیش صورتحال کا جائزہ لے کر ناانصافی اورنفرت کا خاتمہ کریں۔ جب میںنے یہ کالم تحریرکرنا شروع کیا توموبائل پرنظر پڑی۔ میرے عظیم روحانی رہنما کی جانب سے ایک خوبصورت امیج کیساتھ پیغام موصول ہوا’توڑنا نہیں جوڑنا سیکھو۔ کیونکہ توڑنے والوں کی حویلیاں ویران جبکہ جوڑنے والوں کی قبریںبھی آباد رہتی ہیں‘‘۔ قومی خزانے میں گنجائش نہ ہونے کے باعث حکومت اب سرکاری ٹی وی کے واجبات اور اخراجات پورے کرنے سے بھی قاصر ہوچکی ہے۔ وزیراعظم کو پیش کی گئی رپورٹ سرکاری ٹی وی کو ناقابل تلافی 75 ارب روپے نقصان کا انکشاف ہوا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی تشخص کو اجاگر کرنے اور دشمنوں کے پروپیگنڈا کا جواب دینے والے سرکاری ٹی وی کے پی ٹی وی نیوز سمیت 7 منصوبوں کو ناقابل عمل قرار دیدیا ہے۔پی ٹی وی نیوز منصوبے میں 15 ارب 68 کروڑ کا سامنا ہے۔پی ٹی وی ہوم کو 17 ارب 24 کروڑ۔پی ٹی وی گلوبل کو ایک ارب 20 کروڑ روپے نقصان کا سامنا ہے۔پی ٹی وی نیشنل کو 2 ارب 21 کروڑ روپے اور پی ٹی وی سپورٹس کو ایک ارب 40 کروڑ روپے نقصان کا سامنا ہے۔پی ٹی وی ورلڈ کو ایک ارب 50 کروڑ روپے نقصان کا سامنا ہے۔پینشن کے لیے رقم موجود نہیں۔حیران کن بور پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کی مخالفت کے باجوود بااثر گروپ نے سمری منظوری کیلئے ارسال کروائی گئی۔وفاقی کابینہ نے پی ٹی وی فیس میں اضافے کا فیصلہ ایک ہفتے کیلئے موخر کردیا ہے مگر کیا حکومت یہ فیصلہ مستقل طور پر واپس لے گی۔