ہفتہ اوپر ’’خبروں‘‘میں رہنے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو اُن کے عہدے سے تو ہٹا دیا گیا ہے۔آگے لکھنے سے پہلے یا س ؔیگانہ چنگیزی کا یہ شعر سامنے آگیا: یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی کہیے کیا بات دھیان میں آئی اب ذرا اس سارے قضیے اور تنازعے کے ایک ایک فرد کے چہرے سامنے لائیں۔اور پھر اس پر غور فرمائیںکہ ’’عدالت و انصاف‘‘ سے کھلواڑ کرنے والے سارے ہی کرداروں کے بارے میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ’’گھنٹی‘‘ کس کے گلے میں باندھی جائے۔یعنی کس پر فر د ِ جرم عائد کر کے اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔چلیں،بات بی بی مریم نواز سے شروع کرتے ہیں۔کہ اس سارے کیس میں ’’ہیرو‘‘(محاورے کی زبان میں ہماری سیاست میں چاہے خاتون ہی کیوں نہ ہوں،ہیروئن کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی)مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے گزشتہ ہفتے جب تحریک انصاف کی حکومت پر معمولی گولہ باری کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک اور لند ن سے تعلق رکھنے والے ناصر بٹ کی ’’آڈیو،ویڈیو‘‘ سنانی شروع کی۔ اس کا اعتراف محترم جج ارشد ملک نے بھی کیا کہ دونوں موصوف ایک دوسرے سے مانوس ہی نہیں پرانے بے تکلف دوست ہیں۔اپنے قائد میاں نواز شریف کے جانثار ناصر بٹ ایک کھو جی کی طرح العزیز یہ کیس میں ،میاں صاحب کو دی جانے والی سزا پر ،پُر تجسس سوال کر رہے ہیں۔اور جج صاحب اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں ،کہ ان پر اوپر سے اس کیس میں میاں نواز شریف کو سزا دینے کے لئے پریشر ڈالا گیا۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ محترم جج اس بات کی وضاحت نہیں کر رہے کہ ان پر دباؤ اور پریشر ڈالنے والوں کا تعلق حکمراں جماعت کے کسی اعلیٰ عہدیدار سے تھا ۔۔۔خود اُن کی اپنی برادری کے کسی معزز جج نے اپنے پاس بلا کریا فون پر،انہیں ضمیر اورانصاف کے تقاضوں کے خلاف فیصلہ دینے کو کہا۔یا پھر جیسا کہ ان دنوں ہماری سیاست کی روایت بن چکی ہے کہ ’’پتّہ بھی کھڑکے‘‘تو خلائی مخلوق اور فرشتوں کوذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔مگر اس سے اہم نکتہ اورسوال یہ ہے کہ ۔۔۔ناصر بٹ کو ریکارڈنگ کے آلات سے لیس کر کے بھیجنے والا یا والی کون تھی/تھا؟ ذرا اپنی اور آپ کی یادداشت تازہ کرنے کے لیے ذرا اس متعلقہ کیس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ جس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سزا ہوئی ۔العزیزیہ مِل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے لئے بڑے شریف یعنی مرحوم میاں محمد شریف نے قرضہ لیا تھا؟نیب نے جب یہ کیس کھولا تو سوال اٹھا کہ العزیزیہ کے لئے اتنی بھاری رقم کہاں سے آئی ؟ ڈیڑھ سال میں اس کیس کی کوئی 60سماعتیں ہوئیں۔مگر شریف خاندا ن کے وکلاء صفائی میں کوئی ایک رسید ،کوئی ایک بنک ٹرانزیکشن حتیٰ کہ کاغذ کا پُرزہ بھی نہیں پیش کرسکے۔اس کیس میں سزا کے بعد جب اپیل کی درخواست سپریم کورٹ میں آئی تو اُس وقت جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ان ریمارکس نے بڑا لطف دیا کہ ایسی باتیں تو ’’جنوں،پریوں‘‘کی کہانیوں میں سننے کو نہیں ملتیں۔ یہ سطریں لکھتے وقت بھی اس کیس کی اپیل کی سماعت اعلیٰ عدالت میں جاری ہے۔۔۔ ؟ اس بارے میں قطعی دورائے نہیں کہ جولائی 2018ء کے الیکشن بلکہ اپنی والدہ کی رحلت اور والد کی نا اہلی اور سزا کے بعد بی بی مریم نواز دن رات کی محنت ِ شاقہ اور پُر جوش خطاب کے سبب پنجاب ہی نہیں قومی سطح پر ایک بڑی سیاسی رہنما کی حیثیت سے ابھری ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے تو انہیں تشبیہ نہیں جاسکتی مگر ہاں،بلاول بھٹو زرداری سے ضرور آگے بڑھ گئی ہیں۔’’ویڈیو،آڈیو ‘‘لیکس کی پریس کانفرنس کے بعد تواور زیادہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اب پارٹی کی پالیسی سازی اور کمان مکمل طور پر اُن کے ہاتھ میں ہے۔اتنے تہلکہ خیز بیانیہ کو دائیں بائیں بیٹھے میاں شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی موجودگی میں محترمہ مریم نواز نے جو اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے ،اُس میں ان کی مختصر ہی سہی ،مگر ساری سیاست داؤ پر لگ گئی ہے۔ماضی کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ محض ایک آڈیو ،ویڈیو پر رائی کا پہاڑ کھڑا کردینا bounce backہی ثابت ہواہے۔ کہ ان ویڈیوز کی بنیاد پر بہر حال لیگی حامیوں اور مخالفین کو بھی چھوڑ کر اعلیٰ عدالتیں اور عوامی رائے عامہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںکہ شریف خاندان کے کروڑوں ،اربوں روپے کی ملکی وغیر ملکی کرپشن محض ’’طوطا مینا‘‘ کی کہانی ہے۔ میاں نواز شریف کو جب العزیزیہ سمیت مختلف کیسوں میں سزائیں ہوئیں تو اُس وقت مکمل اقتدار ،سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ہاتھ میں تھا۔صدر ِمملکت بھی اُن کا۔آرمی چیف اورمیرٹ کی بنیاد پر چیف جسٹس بھی۔آج جو مسلم لیگ ن کا یہ بیانیہ ہے کہ میاں صاحب کے خلاف سارے کیسز اور نیب کی جانب سے دی جانے والی ساری سزاؤں کے پیچھے ’’وزیر اعظم عمران خان‘‘ کا ہاتھ ہے تو معذرت کے ساتھ یہ ’’سودا‘‘ بکنے والا نہیں۔اور ہاں،’’آڈیو ،ویڈیو‘‘ لنک کے حوالے سے ماہرین کی رائے آچکی ہے۔۔۔کہ پاکستان میں بلکہ پنجاب میں ایک ہی فرانزک لیب ہے۔ مگر اس کے پاس بھی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ریکارڈ کئے جانے والے افراد کی گفتگو اور سوفیصدی ان کی نشاندہی کرسکے۔’’آڈیو،ویڈیو‘‘لنک میں ماہرین کا کہنا ہے کہ باآسانی ٹیمپرنگ کی جاسکتی ہے۔اور اب،ایک آخری بات۔۔۔اس اعتراف کے ساتھ کہ اس کا کوئی مستند ثبوت میرے پاس نہیں کہ کہیں یہ کوئی Trapتو نہیں تھا۔Trapکی وضاحت بھی نہیں کروں گا کہ اس میں کیا اپنوں کا ہاتھ ہے یا غیروں کا۔کیوں کہ سیاسی زبان میں معذرت کے ساتھ ’’ذہین ،پر جوش ‘‘بی بی مریم نواز نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے۔یعنی ، گر جیت گئے تو کیا کہنا۔۔۔ مگر سیاست میں ایسی جیت سے بھی حکومتیں گرتیں اور بنتیں نہیں۔۔۔ ؟