امید تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کے یوٹرن والے بیان پر کچھ دن لے دے ہو گی اور پھر یہ طوفان تھم جائے گا لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود تنقید کرنے والے چپ ہورہے ہیںاور نہ ہی عمران خان کے بیان کی وضاحت دینے والے خاموش ہونے کو تیار ہیں۔ ڈکشنریاں کھل چکی ہیں ہر کوئی اپنے مطلب کے مطابق اسکے معنی نکال رہا ہے۔ کسی کو یہ ایک بہت ہی گھنائونا کام لگتا ہے کوئی اسے تزویری سوچ کہہ رہا ہے کہ جب لیڈر کو اپنے غلط ہونے کا گمان گزرے تو اسکے صحیح راستے پر آنے کی تعریف کرنی چاہیئے بھلے وہ یو ٹرن لے کر ہی اس راستے پر پہنچا ہو۔بہرحال یہ غیر ضروری بحث ختم نہیں ہو رہی اور سب سے بڑھ چڑھ کروہ مذاق اڑا رہے ہیں جنہوں نے عمران خان کو یو ٹرن خان کا خطاب عطا کیا تھا۔ اب اگر عمران خان یو ٹرن کا ٹائٹل قبول کرنے کو تیار ہیں تو یہی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے۔ اگر یو ٹرن نہ ہو تو آپ کبھی منزل پر پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سیدھے کہاں تک چلیں گے۔ صراط مستقیم ہی ایک ایسا راستہ ہے جو سیدھا ہے جس میںکوئی یو ٹرن نہیں ہے اور یہ آفاقی راستہ ہے جو صدق دل سے توبہ کرنے کے بعد کا ہے۔ دنیاوی راستوں میں تو یو ٹرن ہی یوٹرن ہیں۔روز معافی مانگو اور پھر نئی غلطی کرو۔مخالفین کا کام ہے کہ تنقید کریں لیکن شاید یہ پہلا وزیر اعظم ہے جس کی باتوں اور وعدوں پر سب نے یقین کیا اور اپنے بیگانے سب ہی اصرار کر رہے ہیں کہ جو کہا ہے کر کے دکھائو۔ کوئی کہتا ہے کہ سو دن میں کچھ بھی نہیں ہوا، کچھ کا خیال ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جس قسم کا سیاسی کلچر موجود رہا ہے اس میں حکومت بننے کے بعد کچھ توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔جو لوگ توقعات رکھتے ہیں ، انہوں نے اس کی کوئی ڈیڈ لائن بھی مقرر کر رکھی ہوتی ہے۔ توقعات تین طرح کی ہوتی ہیں، انفرادی، گروہی اور قومی توقعات ، جن لوگوں کی انفرادی توقعات ہیں ان کا جلد مایوس ہونا بنتا ہے۔ کیونکہ حکومت پورے پاکستان کے عوام کی نمائندہ ہے۔ ا فرادذاتی یاگروہی سطح پر جس قسم کی تبدیلی کی خواہش رکھتے تھے تو وہ سر دست شاید پوری نہ ہو سکی ہو ۔انفرادی سوچ بدلے بغیر قومی ترقی اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں۔عمران خان کی کامیابی کا راز یہی سوچ ہے۔ اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر ایک بڑے مقصد کے لئے اس نے علم اٹھایا اور بائیس سال کی جدوجہد کا صلہ پایا۔ میرا خیال ہے کہ جتنی پریشانی سو دن کی تنقید سے پی ٹی آئی کے حامیوں کو ہو رہی ہے شاید ان کے قائد کو نہیں ہے کیونکہ اسکو اپنے مشن کا پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ جو راہ اس نے چنی ہے اسی پر پوری توجہ اور استقامت کے ساتھ قائم رہنا ہے اسی میں قوم کی کامیابی ہے اور یہ ملک ایک مثالی سلطنت بن سکتا ہے۔ جو لوگ عمران خان کے حوالے سے قومی توقعات رکھتے ہیں وہ اس کے ساتھ کھڑے بھی رہیں گے اور اس کامیابی کے راستے پر چلتے بھی رہیں گے۔ چالیس پچاس سال سے حکومتی ایوانوں پر قابض اشرافیہ نے ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیدیا جو نئے پاکستان کی تکمیل کے خیال کو فروغ دینا تو دور کی بات اس کی مکمل نفی کرتاہے۔ ایسی صورت حال میں جب آپ نیا پاکستان تشکیل دینے نکلے ہیں تو آپ کو اس سارے ڈھانچے کو مسمار کرنا ہے۔ کیونکہ اس کی بنیاد ایک کرپٹ اور بری گورننس کے آئیڈیا پر رکھی گئی تاکہ کوئی ادارہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف چل ہی نہ سکے اور جب اس ڈھانچے کو مسمار کرنے کا کام کوئی بھی حکومت شروع کرے گی تو ہر طرف آہ وبکا یقینی ہے بھلے وہ انڈے مرغی کی طنز کی صورت میں ہو، یو ٹرن کے طعنے ہوں یا پھر انتہائی گھٹیا قسم کے ذاتی الزامات وزیر اعظم اور انکے خاندان کے بارے میں ہوں۔ نئے پاکستان کی تشکیل میں سب سے مشکل کام یہی ہے کہ اس ڈھانچے کو مسمار کیا جائے۔ عمران خان اس کو مسمار کرنے میں کتنا وقت لیتے ہیں یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر اہم ہے تو اس نظام سے چھٹکارا ہے جس نے ملک میں ظلم، چیرہ دستی اور طاقتور کی حکمرانی کے تصور کو مستحکم کیا ہے۔ اگر پانچ سال میں بھی اس نظام کو تباہ کر دیا جاتا ہے تو یہ اس قوم کے لئے عمران خان کا سب سے بڑا تحفہ ہو گا۔ نیا نظام تشکیل دینے میں پھر کوئی وقت درکار نہیں ہو گا۔ بحیثیت قوم ہمیں اس پرانے ڈھانچے کو گرانے میں بھر پور مدد کرنی چاہئے تاکہ جلد از جلد اس سے نجات حاصل ہو۔ کسی کو ذرا سا بھی احساس ہو کہ ہمیں کس قسم کے حکمرانوں سے نجات ملی ہے تو وہ اسکو کامیابی سمجھ کر اگلے پانچ سال کیا دس سال تبدیلی کا انتظار کر سکتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب لوگ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن خود تبدیل ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے سو دن میں ایک ایسی منزل کا تصوربھر پور طریقے سے پیش کر دیا ہے جس تک پہنچنا قطعاً مشکل نہیں ہے اگر قوم اس پر یقین رکھے اور اپنے حصے کا کام کرنے کو تیار ہو‘ حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ لیکن تبدیلی کے خواہشمند عوام خود بھی اس عمل میں نیک نیتی سے شریک ہوں۔جہاں تک تڑپتے ہوئے سیاسی مخالفین کی بات ہے تو انہیں علم ہے کہ جس نظام کی بنیاد انہوں نے ڈالی تھی اگر اسکو مسمار کر دیا جاتا ہے تو پھر ملک خداداد میں انکا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا۔انکے لئے اس وقت زندگی اور موت کی جنگ ہے جس میں وہ ہر حال میں کامیابی چاہتے ہیں اس کے لئے انہیں کوئی بھی سازش کرنی پڑے کسی سے بھی گٹھ جوڑ کرنا پڑے۔ مستقبل قریب میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے لیڈر اپنی اپنی جان بچانے کے لئے باہمی محبت کا شکارہو سکتے ہیں۔پراپیگنڈے کا سیلاب امڈتا آ رہا ہے لیکن یہ ساری کاوشیں بے سود رہیں گی کیونکہ اس ملک کی قسمت تبدیل ہونے کا وقت آگیا ہے۔