معزز قارئین!۔ آج 10 محرم اُلحرام ہے ۔ شُہدائے کربلا کا دِن، اُن کے احترام اور یادوں کا دِن۔ آج پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں سیّد اُلشہداء حضرت امام حسین ؑ اور میدان ِ کربلا میں شہید ہونے والے آپ ؑ کے 72 ساتھیوں کے ایمان و ایقان، جُرأت و پامردی کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں ۔مولا علی ؑ کے ایک فرزند ، نائب ِ رسولؐ خواجہ غریب نواز حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒ نے اپنے صِرف دو شعروں میں ’’ امام عالی مقام ‘‘ حضرت امام حسین ؑ کی (تاقیامت بادشاہت ؔ ) کا کِس انوکھے انداز میں تعارف کرایا ہے ۔ فرماتے ہیں … شاہ ہست حُسین ؑ، پادشاہ ہست حُسین ؑ ! دِیں ہست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؑ! سَرداد ، نَداد دست ، در دستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسین ؑ! …O… یعنی۔’’ ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسین ؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسین ؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید ؔکی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔ مولا علی ؑ کے حوالے سے ’’ مولائی‘‘ کہلانے والے ’’ شاعرِ مشرق‘‘ علاّمہ اقبالؒ کا اپنا انداز ہے ۔ فرمایا کہ … آںاِمام ِ عاشقاں ، پُورِ بتول س! سروِ آزادے ، زَبِستان رسولؐ! اللہ اللہ ، بائے بسم اللہ پدر! معنی ٔ ذَبح ’‘عظیم ، آمد پِسر! یعنی۔ ’’ (1) وہ (امام حسین ؑ ) عاشقوں کے اِمام ، سیّدہ فاطمۃ سلام اللہ علیہا کے فرزند ، جو حضور پُر نُور کے سَروِ آزاد تھے ۔ ( 2) آپ ؑ کے والد ( مولا علی ؑ ) کا مرتبہ ، بائے بسم اللہ ، کا تھا اور سیّدنا حسین ؑ، ذَبح عظیم کی تعبیر ہیں ‘‘۔ قادریہ سلسلے کے ولی ( فارسی اور ) پنجابی کے نامور شاعر حضرت سُلطان باہوؒ (1629ئ۔ 1690ئ) نے سانحہ کربلا کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہُوئے کہا کہ … جے کر، دِین عِلم وِچ ہوندا ، تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ہُو! اٹّھاراں ہزار جے عالم آہا ، اوہ اگے حُسینؑ دے مَردے ہُو! جو کُجھ ملاحظہ سَرورؐ دا کر دے، تاں خیمے تمبو کیوں سَڑدے ہُو! پر صادق دِین تِنہاں دے باہُو ، جو سرِ قُربانی کردے ہُو! …O… یعنی’’ اگر دِین اسلام ( محض) عِلم میں ہوتا تو پھر ( میدانِ کربلا میں اہل بیتؑ) کے سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ سانحۂ کربلا کے وقت یزید کی سلطنت میں 18 ہزار عُلمائے دِین موجود تھے ( انہوں نے یزید کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیوں نہیں کِیا؟اور اُنہوں نے حضرت امام حُسین ؑ پر اپنی جانیں کیوں نہ قربان کردیں؟ اگر وہ عُلماء حق پرست ہوتے تو وہ آل رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی اطاعت / تابعداری کرنے والے ہوتے تو ، وہ اہلِ بَیتؑ کا پانی کیوں بند کرتے؟۔ اے باہوؑ ! جو لوگ حق پرست لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں ، وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں! ‘‘۔ حضرت امام حُسین ؑ کی جنگ ملوکیت، جُورو جبر ، خیانت ، نجاست ، بربریت اور جہالت کے خلاف تھی لیکن اُس جنگ میں حضرت امام حُسین ؑ کے قبیلے کے لوگ اور چند عقیدت مند ہی تھے۔ اُن میں پردہ دار خواتین ، کم سِن اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے ۔ سب کو شہید کردِیا گیا ۔ اُس کے بعد چشم فلک نے، قبیلۂ امام حسینؑ اور عقیدت مندانِ اہل بیتؑ کا خون بہانے والوں کا بُرا حشر بھی دیکھا۔ حضرت امام حُسین ؑ ، اُن کے رشتہ داروں اور عقیدت مندوں کی قربانیوں نے فی الحقیقت اسلام کو زندہ کردِیا ۔ معزز قارئین!۔ صدیوں سے بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر میں آباد میرے آبائو اجداد نے خواجہ غریب نوازؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ مجھے رحمتہ اُللعالمین ؐ ، اہل بیت ؑ سے عقیدت / محبت اور حسینیت ؑ کا سبق اپنے گھر سے ملا۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک پاس کِیا تو، پہلی نعت اردو زبان میں لکھی ۔1960 میں مَیں نے گریجویشن سے پہلے مسلکِ صحافت اختیار کِیا اور باقاعدہ شاعری شروع کردِی۔ مَیں نے اردو اور پنجابی میں کئی نعتیں لکھیں اور اہل بیت کی منقبتیں بھی ۔ 1980ء کے اوائل میں میرے خواب میں خواجہ غریب نوازؒ میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ آپؒ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور مسکراتے ہُوئے رخصت ہوگئے۔ پھر میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی ملکوں کے دوروں کے دروازے کھل گئے۔ ستمبر 1983ء میں مجھے خواب میں کسی غیبی طاقت نے بتایا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے ‘‘ ۔یکم جنوری 1988ء کو جمعتہ اُلوداع تھا ، جب مجھے ماسکو کی جامع مسجد میں ، نماز پڑھنے اور امام مسجد کے خطبہ سے پہلے اہل پاکستان کا سلام پیش کرنے کا موقع ملا ۔ ستمبر 1991ء میں مجھے صدرِ پاکستان جناب غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی۔اُس کے بعد مَیں نے پھر ایک نعت لکھی جس کے چار شعر یوں ہیں … یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا! ارض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا! شمس و قمر میں رَوشنی ، ہے آپؐ کے طُفیل! خُلدِ برِیں ہے آپؐ کا ، سَنسار آپؐ کا! مخلُوقِ کائنات ہو یا خالقِ عظِیم! مِدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپؐ کا! مولا علی ؑ و زَہراس، حسنؑ اور حُسینؑ سے! عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا! قیام پاکستان سے پہلے قائداعظمؒ سے ایک صحافی نے پوچھا کہ ’’ آپ سُنی ہیں یا شیعہ ؟‘‘۔ اِس پر قائداعظمؒ نے کہا کہ ’’ مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن، ہم سب مسلمان ’’ باب اُلعلم‘ ‘ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ قائداعظمؒ کے چاہنے والے ایک معمولی پاکستانی کی حیثیت سے مَیں نے مولا علی مرتضیٰ ؑ کی شان میں دو منقبتیں لکھیں ، ایک اردو اور دوسری پنجابی میں ۔ اِس وقت مَیں اپنی پنجابی منقبت کا مطلع اور دو بند پیش کر رہا ہُوں … نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑ مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں لوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علیؑ مولا! لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یزداں دا! سارے نعریاں توں وڈّا ، نعرہ تیرے ناں دا! تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… معزز قارئین!۔ آج میری طرف سے سیّد اُلشہدا ، امام عالی مقام علیہ السلام کی خدمت میں نذرانۂ عقیدت پیش ہے گر قبول اُفتد ، زہے عِز ّ و شرف !… صاحب کردار ، فخر مِلّت ، بَیضا حسین ؑ! کار گاہِ کُن فکاں میں ، مُنفرد، یکتا حسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ اِن کا نصب اُلعین، تخت و تاج تو ہر گز نہ تھا! رَزم گاہ میں ، دین کی خاطر تھے ، صف آرا حسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ پانی پانی ہو رہا تھا ،دِل میں ،دریائے فراتؔ! کاش آ پہنچیں ، کسی صورت ، لب دریا حسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ حضرت مولُودکعبہ ؑکا ،قبیلہ کٹ گیا! اِک طرف طاغُوت سارے ، اِک طرف تنہا حسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ مُقتدر تو، جیت کر بھی ہوگیا ذِلّت مآب! حالانکہ تھے ، کربلا میں ، فاتح اَعدا، حسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ منتظر تھے حُورُو غِلماں ، اَنبیاء اور اَولیائ! جب درِ فردوس پہنچے ، وارث کعبہ حسینؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ جان تو دے دِی اثرؔ ، پائی حیاتِ جاوداں! صاحبِ دوراں بھی ہیں اور صاحبِ فَرداحسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ …O… معزز قارئین!۔ فارسی زبان کے لفظ ’’فردا ‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’ آنے والا کل لیکن ،مجازاً ۔ قیامت کا دِن ‘‘