معزز قارئین!۔ یوں تو ، میرے دیرینہ دوست ، اسلام آباد کے اعلیٰ سطح کے بزنس مین ، چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد اور دُنیا بھر میں پاکستان کے غیر سرکاری سفاؔرت کار ، برادرِ عزیز ظفر بختاوری کا اپنے نظریاتی اور کاروباری دوستوں سے تجدید ؔتعلقات کے لئے لاہور آنا جانا رہتا ہی ہے لیکن، اِس بار 9 جنوری کو وہ میرے اور اپنے مشترکہ دیرینہ دوست ’’گلاسگو کے بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کے تعاقب ؔمیں اُن سے ’’جپھّی ڈالنے ‘‘ کے لئے لاہور میں ’’ مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ڈیرے (ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان) میں پہنچے تو’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید نے ’’ بابائے امن‘‘ کے دوستوں کو "Food for Thought" کے لئے مدّعو کرلِیا۔ ’’ بابائے امن‘‘ کے علاوہ ’’تقریب جپھّی پائی / پوائی ‘‘ میں تحریکِ پاکستان کے معمر ترین ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان ،’’کارکنانِ تحریک پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین جسٹس (ر) میاں محبوب احمد ، ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے وائس چیئرمین ، میاں فاروق الطاف ، نامور برادرانِ میڈیا ، جمیل اطہر قاضی ، مجیب اُلرحمن شامی، ضیاء شاہد، سعید آسیؔ، خالد یزدانی ، اجمل نیازی، سینئر ایڈووکیٹ میاں اظہر شوکت، کوئٹہ کے قسیم خان کاکٹر، وہاڑی کے چودھری زاہد اقبال ، اور چودھری محمد انور سمیت راقم اُلحروف بھی ،چشم دید گواہا ن تھے ۔ معزز قارئین!۔ مَیں بیان کرچکا ہُوں کہ ’’ مَیں ستمبر 1981ء میں برطانیہ کے ڈیڑھ ماہ کے دورے پر 10 دِن کے لئے گلاسگو بھی گیا تو، ملک غلام ربانی نے ( جو اُن دِنوں ’’ بابائے گلاسگو‘‘ کہلاتے تھے ) مجھے اپنی محبت کے جال میں جکڑ لِیا اور مَیں جب بھی گلاسگو گیا تو، مَیں نے شہر گلاسگو اور چودھری محمد سرور سمیت اہلِ گلاسگو کو ملک غلام ربانی (بابائے امن) کی محبت بھری نظروں سے دیکھا۔ صِرف ایک بار ستمبر 2006ء میں مَیں اور برادرِ عزیز ظفر بختاوری لندن میں اکٹھے ہُوئے اور ہم دونوں نے 10 دِن تک اہل گلاسگو کی شفقتوں اور محبتوں کا فیض حاصل کِیا اور اُس کے بعد تقریباً 15 دِن لندن میں 1983ء سے "Settel" 1961ء سے میرے سرگودھوی دوست ، صحافی اور لیبر پارٹی کے اہم لیڈر سیّد علی جعفر زیدی کیساتھ ۔ لاہور میں ’’ بابائے امن‘‘ کے بیٹے عرفان ربانی کے ماموں سُسر ، میاں محمد سعید ڈیرے والے بھی اُن دِنوں گلاسگو میں تھے۔ مَیں ’’ بابائے امن‘‘ کے ساتھ اُن سے کئی بار مل چکا تھا ۔ مجھے اُن کی ’’ پنجابیت‘‘ بہت اچھی لگی ۔ مَیں نے صحافت کے سِوا کوئی اور کام نہیں کِیا۔ میری نظم کا ایک شعر ہے کہ … پنجابی ، ماں بولی میری، مَیں صدقے ،مَیں واری! پَر اردو ، میری دائی اماّں ، میری پالن ہاری! 4 ستمبر 2006ء کو ’’ بابائے امن‘‘ کے دوستوں نے ایک بڑے ہوٹل میں میرے اور ظفر بختاوری کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کِیا ۔ گلاسگو سے برطانوی "House of Commons" کے منتخب رُکن چودھری محمد سرور میزبانِ اوّل تھے۔ تقریب کے میزبانوں اور ظفر بختاوری نے بھی اردو میں خطاب کِیا ، لیکن، مَیں نے کہا کہ ’’ گلاسگو وِچ سب توں بوہتے پاک پنجاب تے مشرقی پنجاب دے مہاجر پاکستانی رہندے نیں ،مَیں تاں اپنی ماں بولی پنجابی وِچّ اِی تقریر کراں گا‘‘ ۔ میاں محمد سعید سمیت سب نے تالیاں بجائیں۔ چودھری محمد سرور نے بھی مجھے محبت سے دیکھا ، میری تقریر سُنی اور تقریر کا آغاز کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ لَو جی !۔ وڈے بھرا، اثر چوہان جی نے پنجابی وِچّ تقریر کیتی اے ، مَیں وِی پنجابی وِچ اِی تقریر کراں گا‘‘۔ ’’ بزمِ شعر و نغمہ گلاسگو‘‘ کی چیئرپرسن ( شاعرہ) محترمہ راحت ؔزاہد اور شریک چیئرپرسن شیخ محمد اشرف نے میرے اعزاز اور میری صدارت میں مشاعرہ منعقد کِیا تو، وہاں بھی مَیں نے اپنی پنجابی نظمیں سُنائیں۔ معزز قارئین!۔ برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے والد صاحب ماشاء اللہ 95 سالہ (چکوال کے ) جناب غلام نبی بختاوری تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن رہے ۔ امرتسر میں کاروبار کرتے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں آباد ہُوئے۔ میرے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد کی قیادت میں ہمارا خاندان بھی سرگودھا ہی میں آباد ہُوا۔ چاچا غلام نبی بختاوری سے اُن کی دوستی ہُوئی تو، میری بھی ہوگئی۔ خاص طور پر جب، 1964ئ۔1965ء میں جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ، فیلڈ مارشل صدر محمدایوب خان (پاکستان کونشن مسلم لیگ کے صدر ) کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرۂ محترمہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ فاطمہ جناحؒ پاکستان مسلم لیگ ( کونسل) بعد ازاں مشترکہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ سرگودھا میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کی انتخابی مہم کے انچارج تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد مادرِ ملّت کی انتخابی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ اُن کی قیادت ہی میں میرے والد صاحب ، چاچا غلام نبی بختاوری تحریکِ پاکستان کے دوسرے کارکنوں اور اُن کی اولاد نے مادرِ ملّت کے حق میں بھرپور جدوجہد کی لیکن، ’’مادرِ ملّت‘‘ اِس لئے ہار گئی تھیں کہ ’’صدر محمد ایوب خان نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزار منتخب ارکانِ بنیادی جمہوریت ہی کو ووٹ کا حق دِیا تھا‘‘۔ 1965ء کے اواخر میں چاچا غلام نبی بختاوری نے اپنا کاروبار اسلام آباد شِفٹ کرلِیا۔ مَیں 1969ء میں لاہور شفٹ ہوگیا اور 11 جولائی 1973ء کو لاہور سے اپنا روزنامہ ’’سیاست‘‘ جاری کِیا۔ پھر میرا اسلام آباد زیادہ آنا جانا ہوگیا۔ میرے چاچا غلام نبی بختاوری اور ظفر بختاوری سے تعلقات کا نیا دَور شروع ہُوا۔ 1982ء میں بیرونی ملکوں میں ’’پاکستان کی ثقافت / تہذیب و تمدن کے فروغ کے لئے ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ قائم ہُوا تو، ظفر بختاوری اُس کے چیئرمین منتخب ہُوئے۔ یہ اپنی طرز کا پہلا "Forum" تھا۔ 1986ء میں مَیں نے اپنا ایک گھراسلام آباد میں شفٹ کرلِیا تھا‘‘۔ پھر مجھے پتہ چلا (اور 9 جنوری 2018ء کو بھی ) کہ ’’ظفر بختاوری کو 50 سے زیادہ بیرونی ملک "State Guest" کی حیثیت سے مدّعو کر چکے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ 1988ء کے اواخر میں میرے دورۂ سوویت یونین کے بعد میری کتاب ’’ دوستی کا سفر‘‘ شائع ہُوئی تو، ’’پاکستان کلچرل فورم ‘‘ کے زیر اہتمام اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اُس کی تقریب رونمائی ہُوئی ۔ سوویت سفارت خانے میں میڈیا چیف "Mr. Alexander Khachikyan" کے تعاون سے ظفر بختاوری نے میری کتاب کا "Brochure" اردو ، انگریزی اور روسی زبان میں شائع کِیا۔ تقریب کے صدر جناب محمد حنیف رامے کے علاوہ مولانا کوثر نیازی، مشاہد حسین سیّد اور میرے شاگردِ رشید سیّد سلیم بخاری (موجودہ ایڈیٹر "The Nation" )نے خطاب کِیا۔ مہمانِ خصوصی پاکستان میں سوویت یونین کے سفیر "Excellency Abdurrahman Khalil oglu Vazirov" نے مجھے ’’ دوستی کا قلم ‘‘ (Pen of the Friendship) پیش کِیا۔ برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے میری دو دوسری کتابوںکی رسم رونمائی کا بھی اہتمام کِیا اور خُود ہی اخراجات برداشت کئے ۔ مَیں نے بھی "Brotherly Barter System" کے مطابق اُن سے بھی کوئی "Royalty" وصول نہیںکی۔ ظفر بختاوری میرے اُن دوستوں میں سے ہیں ، جن کی بیٹیوں کی شادی (رُخصتی ) کی تقریبات میں مَیں نے شرکت کی اور کالم بھی لکھے۔ ’’تقریب جپھّی پائی / پوائی ‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے کہا کہ ’’دس سال بعد 19 جون 2018ء کو "British Airways" کی فلائٹس کے آغاز پر پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہیے کیوں کہ ہماری قومی ہوائی کمپنی ’’پی ۔ آئی ۔ اے‘‘ (Pakistan International Airlines ) تو ناکارہ ہو چکی ہے ۔ اُنہوں نے تجویز کِیا کہ ’’ بیرونی ملکوں میں پاکستان کی قدیم تاریخ ، ثقافت ، تہذیب و تمدن کو نئے سرے سے متعارف کرانے کے لئے "Tourism" کو فروغ دِیا جائے اور سیاحت اور تجارت کے لئے پاکستان کے دورے پر آنے والے "Tourists" (سیّاحوں) کیلئے "Soft Visa Policy"اختیار کی جائے‘‘۔ اِس تجویز / مطالبے کی سبھی شُرکائے تقریب نے تائید کی ۔ مَیں نے ازِراہِ تفنّن برادر عزیز مجیب اُلرحمن شامی سے کہا کہ ’’ میرا خیال ہے کہ "Socialism" اور "Bhuttoism"کے نعرے تو، ناکام ہوگئے ہیں ‘‘لیکن، مجھے یقین ہے کہ’’ ہمارے 60 فیصد مفلوک اُلحال عوام کی فلاح کے لئے "Tourism" ہی سب سے بڑا "Ism" (مسلک ، نظریہ ، تحریک اور عقیدہ ) ہے ۔