Common frontend top

اسداللہ خان


ابہام پیدا کرنا ہی حکمت عملی ہے؟


تب ن لیگی قانون دانوں اور زعما کو یہ خیال شاید سوجھا نہ ہوگا ورنہ وہ کہہ دیتے کہ پانامہ کیس میں دستخط کرنے والے جج عظمت سعید شیخ یا اعجاز الاحسن کے دستخط ان کے پرانے فیصلے پر موجود دستخط سے میچ نہیں کرتے ،لہذا فیصلہ متنازع ہے اور اس پر عملدآمد ممکن نہیں ہے، مزید کہہ سکتے تھے کہ ہماری تشریح تو یہی ہے ، اگر کسی کو اعتراض ہے تو عدالت سے جا کے تشریح کرا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی پہلی سطر میں صاف صاف لکھا ہے کہ یہ فیصلہ دو کے مقابلے میں
جمعه 03 مارچ 2023ء مزید پڑھیے

انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ ہی گیا

جمعه 24 فروری 2023ء
اسداللہ خان
انتخابات کا معاملہ عدالت میں جانا تھا اور بالآخر عدالت جا پہنچا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ گذشتہ روز اس بینچ نے پہلی سماعت کی جو کئی حوالوں سے بہت اہم تھی۔ پہلی سماعت کے دوران ہی سپریم کورٹ کے ججز اور ماہرین آئین و قانون کی توجہ کچھ نئے پہلوئوں کی جانب مبذول ہو گئی ہے۔لہذا یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سماعت کے آغاز پہ لگ رہا تھا۔ ایک تو کچھ عرصے سے یہ چلن چل نکلا ہے کہ مختلف قوتیں عدالت پہ اپنی
مزید پڑھیے


خیبر

بدھ 22 فروری 2023ء
اسداللہ خان
کبھی کبھی جی چاہتا ہے ،سب کچھ وہیں ٹھہر جائیں جہاںہے۔ پیچیدگی مزید پیچیدہ نہ ہو،حالات مزید کشیدہ نہ ہوں۔مسلسل رونما ہونے والی سیاسی و عدالتی خبریں مزید جنم نہ لیں۔ صدرکوئی مراسلہ بھیجیں نہ الیکشن کمیشن کوئی وضاحت کرے، گورنر عدالت جائیں نہ کوئی نیا بنچ بنے۔کوئی ایک شخص دوسرے کو ڈاکو کہے نہ دوسرا پہلے کو چور۔کوئی دوسرے کومعاشی تباہی کا ذمہ دار قرار نہ دے،ڈیفالٹ کرنے کی خبریں تھم جائیں۔جی چاہتا ہے سب آنکھیں بند کریں اور لمبی لمبی سانس لیں۔ جب آنکھ کھولیں توطوفان تھم چکا ہو۔ چونکہ اب ہمارے ہاں یہ ممکن نہیں رہا تو اس
مزید پڑھیے


اسحاق ڈار کیوں ناکام ہو گئے

جمعه 17 فروری 2023ء
اسداللہ خان
اسحاق ڈار صرف دعویٰ نہیں کر رہے تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ پرانے حربوں سے وہ ڈالر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس بار مگر ایسا نہیں ہوا ۔ اسحاق ڈار صرف ناکام ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کی حکمت عملی سے الٹا نقصان ہو گیا۔ اسحاق ڈار کا پرانا فارمولا بڑا سیدھا سا تھا۔ وہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ماضی میں جب بھی ڈالر کی کمی ہونے لگتی وہ سپلائی بڑھا دیتے ۔ قومی خزانے سے ڈالر کی کمی پوری کر دیتے ۔سپلائی پوری رہتی تو ڈالر کی ڈیمانڈ بھی پوری ہوتی رہتی
مزید پڑھیے


کیا کوئی بھی الیکشن نہیں چاہتا؟

جمعه 10 فروری 2023ء
اسداللہ خان
تین اداروں نے تو باقاعدہ معذرت کر لی، جو معذرت نہیں کر سکتے حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کو الیکشن کرانے کے لیے ریٹرننگ آفیسرز اور دیگر عملے کی ضرورت ہے، جو ہمیشہ اسے پاکستان کے دیگر اداروں سے مل جاتے ہیں،اس بار نہیں مل پا رہے،اس بار سبھی ادارے مصروف ہیں یا معاونت کرنے سے قاصر،یا شاید عدم تعاون پر آمادہ۔ لاہور ہائیکورٹ سے ماتحت عدلیہ کے عملے کی خدمات طلب کی گئیں تھیں تاکہ پولنگ ڈے پر انہیں استعمال کیا جائے۔لاہور ہائیکورٹ کے مگر رجسٹرار نے لکھ بھیجا ہے کہ یہ ممکن نہیں۔کہا گیا ہے کہ
مزید پڑھیے



وہ نہیں روئے، یہ کیوں روتے ہیں؟

بدھ 08 فروری 2023ء
اسداللہ خان
مجھے یاد ہیں وہ دن جب حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو نیب عدالت لایا جاتا ۔ دونو ں الگ الگ گاڑیوں میں پروٹوکول کے ساتھ احاطہ عدالت میں داخل ہوتے۔ دونوں کی آمد میں دس منٹ کا وقفہ ہوتا۔استقبال کرنے اور پھول نچھاور کرنے والے درجن بھر کارکنوں کو بھی روکا نہ جاتا۔ وہ گاڑیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے۔برآمدوں اور راہداریوں میں قطار بنا کر پھول پھینکتے اور نعرے لگاتے رہتے۔ پولیس اہلکار شہباز شریف اور حمزہ کے گرد حفاظتی حصار بنا لیتے اور نہایت احترام کے ساتھ انہیں کمرہ عدالت میں پہنچاتے۔ کمرہ عدالت میں شہباز
مزید پڑھیے


روپے کی کہانی

جمعه 03 فروری 2023ء
اسداللہ خان
روپے کی کہانی دراصل پاکستان کی کہانی ہے۔جب جب پاکستان کے سفر میں نازک موڑ آئے،ڈالر کی چودھراہٹ میں اضافہ ہوا۔اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ہر وار پاکستانی روپے نے اپنے سینے پر جھیلا۔آئیے ڈالر سے جنگ کرنے والے روپے کی دردناک کہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1947 میں ایک امریکی ڈالر3روپے 31پیسے کا تھا اور 1954 تک چپ چاپ اسی ریٹ پہ چلتا رہا۔پھر روپیہ مسلسل سیاسی عدم استحکام اور باربار حکومتوں کی تبدیلی کے سامنے ہار گیا یوں 1955 میں ڈالر پہلی بار بڑھ کے 3روپے 91 پیسے کا ہو گیا۔ 1956 میں مارشل لاء کو دیکھ
مزید پڑھیے


عدالت میں سیاست

بدھ 01 فروری 2023ء
اسداللہ خان
اسی عنوان سے ایس ایم ظفر نے برسوں پہلے ایک کتاب لکھی، لگتا ہے آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ آج بھی سیاست عدالت میں ہو رہی ہے۔کون سا فیصلہ ہے جو سیاست دان مل بیٹھ کے کر پاتے ہیں۔الیکشن کی تاریخ لینی ہو یا وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھانا ہو، اعتماد کے ووٹ کا معاملہ ہو یاکسی سیاست دان کے انتخاب لڑنے کی بحث ، ہر فیصلہ عدالت جا کر ہی ہوتا ہے ۔ یہی نہیں سیاست دانوں کی نااہلی کے لیے بھی یہی گھر مناسب مان لیا گیا ہے، پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توثیق بھی اب یہیں سے ہوتی
مزید پڑھیے


نظام دم توڑ چکا

بدھ 25 جنوری 2023ء
اسداللہ خان
ایسی قوم جسے اپنے نظام ، آئین و قانون اور ریاست کے اہم اداروں پر اعتماد نہ رہے اس کی بے چینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں متعدد بار تواتر سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم کسی نظام کے تحت رہتے ہیں ؟نظام جو ریاست کو چلانے کے کا لازمی جزو ہے،اپنا وجود رکھتا ہے؟سیاسی اخلاقیات جو بسا اوقات نظام سے اہم ہوتی ہیں،اپنا وجود رکھتی ہیں؟قانون کو چکما دینے کا چلن، اختیارات کا ناجائز استعمال،عدالتوں سے کھلواڑ،ڈھٹائی ، ضد ، انا اور بے شرمی۔ ہماری
مزید پڑھیے


اداروں کی وقعت کیسے بحال ہو !

جمعه 20 جنوری 2023ء
اسداللہ خان
چند ہی دن کی بات ہے توشہ خانہ پہ بڑا شور مچا تھا، کہا جا رہا تھاعمران خان توشہ خانہ سے گھڑی لے اُڑے۔پھر یہ ہوا کہ ایک درخواست گزار لاہور ہائیکورٹ کے پاس گیا اور درخواست کی کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ عام کیا جائے۔ عدالت نے حکم دیا تو حکومت نے معذرت کر لی کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے وجہ پوچھی تو ایک تحریری جواب جمع کرایا گیا۔ اس جواب میں کہا گیا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے سے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوں گے اور ملکی سلامتی کو خطرات
مزید پڑھیے








اہم خبریں