Common frontend top

اوریا مقبول جان


اُسامہ بن لادن سے ایمن الظواہری تک


آج سے گیارہ سال قبل 2 مئی 2011ء کو امریکی صدر باراک اوبامہ نے ٹیلی ویژن پر سرشاری کے عالم میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے اُسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کر کے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ اس آپریشن کے بعد اُسامہ بن لادن کے وجود کا کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا کہ وہ معدودے چند لوگ کون تھے جن کے سامنے اسے سمندر میں بہا دیا گیا۔ البتہ وائٹ ہائوس کے ایک کمرے میں میز کے اردگرد بیٹھے ہوئے امریکی حکام کی ایک تصویر ضرور عام
جمعرات 04  اگست 2022ء مزید پڑھیے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے

بدھ 03  اگست 2022ء
اوریا مقبول جان
پاکستان کے غیر سرکاری، نجی الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ صرف بیس سال پرانی ہے لیکن ان بیس سالوں میں اس میڈیا نے پاکستانی معاشرے میں جو ہیجان برپا کیا ہے وہ شاید کئی سو سالوں کی پریشانیوں، اُلجھنوں اور ناکامیوں سے بھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ آج سے پچاس سال قبل پنجابی کے مشہور شاعر انور مسعود کی کتاب ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ شائع ہوئی تو اس وقت، آزاد خود مختار پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات کا طوطی بولتا تھا۔ اس کتاب میں ان کی ایک مشہور نظم ’’اخبار‘‘ بھی ہے۔ اس نظم کے آخری دو اشعار اخبارات کی سنسنی خیزی
مزید پڑھیے


کیا ہم حالتِ عذاب میں ہیں؟

منگل 02  اگست 2022ء
اوریا مقبول جان
جب پوری دُنیا ایک آنے والے کل کے خوف سے لرزاں ہو، بڑے بڑے طاقتور ملکوں اور امیر ترین معیشتوں کے حکمران مضطرب ہوں، ایسے میں پینتالیس ہزار ارب روپے کے مقروض ملک ’’پاکستان‘‘ کے حکمران آنے والے دنوں کی مصیبتوں سے بے نیاز اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود سیاسی اور میڈیائی پھلجھڑیوں سے شغل فرما رہے ہوں تو اس قوم کی بدقسمتی پر رونا آتا ہے۔ آسمان پر چھائے بادل جب اَبرِ رحمت کی بجائے لوگوں پر آفت کی صورت برسنے لگے، دریا جو فصلیں آباد کیا کرتے تھے، فصلیں برباد کرنے لگیں، تو پھر کون ہے
مزید پڑھیے


چوہدری ظہور الٰہی کی گمشدہ سیاسی روایت

جمعه 29 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
جن لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں جمہوریت کا مزا چکھا ہے، ان کی یادیں کسی مارشل لاء دَور سے بھی زیادہ تلخ ہیں۔ بے شمار لوگوں کو جمہوری نظام کے ساتھ ان کا تعصب سچ بولنے سے روکتا ہے، ورنہ جماعتِ اسلامی کو اپنے درویش صفت رکنِ اسمبلی ڈاکٹر نذیر شہید کی خون میں لَت پت لاش یاد نہیں، انہیں ہائی کورٹ میں اپنے امیر میاں طفیل محمد کا آنسوئوں میں ڈوبا بیان بھول گیا، جو انہوں نے جیل میں ہونے والے بدترین تشدد کے بارے میں دیا تھا۔ محمود خان اچکزئی کو کوئٹہ میں ہونے والا
مزید پڑھیے


محلّاتی سازشوں کا عہدِ زوال

جمعرات 28 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
اورنگ زیب عالمگیر کے بعد جب عظیم الشان مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو دربار کی راہداریوں میں دو بھائیوں کا عروج شروع ہوا جنہیں تاریخ ’’بادشاہ گر‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ سید برادران، عبداللہ خان اور حسین علی خان جن کا جدِ امجد ابوالعزم، عراق سے ہندوستان آیا اور میرٹھ و سہارنپور کے درمیانی علاقے میں آباد ہو گیا۔ جہاں اس نے بارہ گائوں بسائے، جن کی وجہ سے اس کی نسل کو ’’ساداتِ بارہہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ خاندان محمود غزنوی سے لے کر لودھی خاندان تک ہر دربار میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہا۔
مزید پڑھیے



یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

بدھ 27 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
پاکستانی اشرافیہ میں تین متکبر مزاج طبقات ایسے ہیں جن کی اُٹھان اس ملک کے صدیوں پرانے ذات پات کے کریہہ اور غیر انسانی سماج سے ہوئی ہے۔ ان تینوں طبقوں کو نافرمانی، حکم عدولی اور مخالفت سخت بُری لگتی ہے۔ پہلا طبقہ اعلیٰ زمیندار (Landed Aristocracy) کا ہے جو خود کو اس زمین کا مالک و مختار سمجھتا ہے اور باقی تمام انسانوں کو خواہ وہ کسی بھی پیشے سے منسلک کیوں نہ ہوں، انہیں تابع فرمان اور کمتر حیثیت کے ملازمین (Sub servient) تصور کرتا ہے۔ ہزاروں سالوں سے اس برصغیر میں تمام ہنرمند افراد ان کے نزدیک
مزید پڑھیے


یہ عدل ہے، جمہوریت نہیں

منگل 26 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
پورا شہر، ملک، یہاں تک زمین پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت اگر کسی ایک بددیانت، چور، قاتل اور ڈاکو کے دفاع میں اکٹھی ہو جائے، منتخب جمہوری ادارے اس کے جرم کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کر لیں، عالمی رائے عامہ اپنے مخصوص مفادات کے تحت اس کے لئے ہموار کر دی جائے، دُنیا بھر کی مقامی، علاقائی، قومی اور عالمی عدالتیں اور ان میں بیٹھے ہوئے ججوں کی اکثریت بھی ایسے مجرم کے حق میں اپنی اکثریتی رائے دے، مگر انسانی فطرت میں اللہ نے جو عدل کے معیارات رکھ دیئے ہیں، ان معیارات کے مطابق
مزید پڑھیے


یہ گھڑی محشر کی ہے،’’ہم‘‘عرصۂ محشر میں ہیں(آخری قسط)

جمعه 22 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
2 ستمبر 1945ء کو دوسری عالمگیر جنگ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی۔ اس دن سے لے کر اب تک ستتر برسوں میں کوئی ایسی جنگ نہیں چھڑی جس کے شعلے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ مغربی اتحاد کی جیت کا بنیادی مقصد پوری دُنیا پر ایک عالمی مالیاتی، سُودی نظام کے تحت حکمرانی کرنا تھا۔ یہ مقصد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بنا کر حاصل کر لیا گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کسی بھی جنگ کو منصوبہ بندی
مزید پڑھیے


یہ گھڑی محشر کی ہے، ’’ہم‘‘ عرصۂ محشر میں ہیں……(2)

جمعرات 21 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور عرب دُنیا کے حصے بخرے ہونے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ سعودی عرب نے امریکی صدر جوبائیڈن سے ویسا ہی برتائو کیا ہے، اور اس کی عالمی میڈیا میں ویسی ہی پذیرائی ہوئی ہے جیسی عمران خان کے "Absolutely Not" کی گونج سے ہوئی تھی۔ عمران کے اسی فقرے کے بعد ہی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس ’’ناہنجار‘‘ کو اقتدار سے نکال باہر کیا جائے۔ سعودی عرب کا پہلا موقع وہ تھا جب شاہ فیصل نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔ 23 اگست 1973ء کو جب اسرائیلی ’’یوم
مزید پڑھیے


یہ گھڑی محشر کی ہے، ’’ہم‘‘ عرصۂ محشر میں ہیں

بدھ 20 جولائی 2022ء
اوریا مقبول جان
گذشتہ دس سالوں سے مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی یورپ میں جو جگہ جگہ آتش فشانی پٹاخہ باری جاری تھی، اس نے اب ایک بہت بڑے میدانِ جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس جنگی بحران اور آنے والے خوفناک دنوں کو سمجھنے، تجزیہ کرنے اور اس کی ہولناکی کا اندازہ کرنے کے لئے پوری دُنیا میں دو زاویۂ نظر متوازی طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ پہلا تو وہ معروف طریقہ ہے کہ جس میں سیاسی، معاشی اور عسکری ماہرین تیسری عالمی جنگ کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی دُنیا کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جبکہ تینوں ابراہیمی
مزید پڑھیے








اہم خبریں