Common frontend top

ایچ اقبال


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی:تاریک دریچے(قسط38)


میں اور ساتھی سانس روکے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ جیکٹ پہننے والوں کے چہروں پر مسرت تھی ۔ خود کش جیکٹوں پر انھیں قمیص پہنائی گئیں جن میں جیکٹس چھپ گئیں ۔ ’’ ریوالور نہیں دیے جائیں گے تمھیں!‘‘ جیپ میں آنے والے ایک طالبان نے لڑکوں سے کہا ۔’’فائرنگ نہیں کرنا ہے تمھیں ۔بس دھماکا کرنا ہے ۔جنت میں حضور اکرم ﷺ تمھارا استقبال کریں گے اور ستر حوریں تمھاری خدمت گزار بنیں گی ۔‘‘ ایک نوجوان بولا ۔’’ہمیں اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ حوریں کیسی ہوں گی !‘‘ ’’ وہ مشک اورزعفران سے بنائی گئی ہیں
اتوار 15 جولائی 2018ء مزید پڑھیے

سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے قسط37

هفته 14 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
پھر میں نے سیٹلائٹ فون پر بات کرکے اپنے تینوں ساتھیوں کو بھی چھت پر بلا لیا اور پھر رسا اوپر کھینچ لیا ۔ جب میں ان تینوں کو اس کمرے میں لے گئی تو ان کی بھی وہی حالت ہوئی جو میری ہوئی تھی ۔ وہ کمرا راکٹ لانچروں اور حد درجہ خطرناک راکٹوں سے بھرا ہوا تھا ۔ ’’ مائی گاڈ!‘‘ سونیا کے منہ سے نکلا ۔ ’’ دوسرے کمرے ؟‘‘ زاہد کا لہجہ سوالیہ تھا ۔ ’’ اب وہ بھی دیکھیں گے ۔ میں نے سوچا کہ پہلے تم لوگوں کو بھی اوپر بلالوں ۔ دبے قدموں ہی چلنا ۔‘‘ وہ تینوں
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے (قسط36)

جمعه 13 جولائی 2018ء
ایچ اقبال

میرے بعد زاہد نے بھی دوربین سے ان دونوں طالبان کو دیکھا۔ ’’ یہ دونوں یہاں کیا کررہے ہیں !‘‘ وہ بڑبڑایا ۔ میں نے علی محمد کے تاثرات سے اندازہ لگایا کہ وہ بھی ان طالبان کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے دوربین مانگنے کی ہمت نہیں ہوسکی تھی ۔ میں نے زاہد کے ہاتھ سے دوربین لے کر علی محمد کو دی۔’’ لو!تم بھی دیکھو ۔‘‘ علی محمد نے دوربین آنکھوں سے لگائی ۔ میں نے سونیا اور زاہد سے کہا ۔’’ نیچے ہم بعد میں اتریں گے ۔ پہلے ناشتا کرلیں ۔‘‘ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے (قسط35)

جمعرات 12 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
فائرنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی ، اسی طرح یک لخت رک بھی گئی اور ایسی چیختی ہوئی آوازیں سنائی دیں جیسے نعرہٓ فاتحانہ لگائے جارہے ہوں ۔ پھر اسی وقت صرف ایک گولی چلنے کی آواز آئی ۔ اس گولی کے چلتے ہی گولیوں کی ایک باڑھ کی آواز بھی سنائی دی ۔ ’’ یہ کیا ہوا لیڈر ؟‘‘ علی محمدنے جلدی سے پوچھا ۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے سونیا کو صرف ایک لفظ ’’خیریت ؟‘‘ کا میسج دیا تھا ۔ یہی میسج اشرف کو بھی دیا ۔ سونیا کا فوراً جواب
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے (قسط34)

بدھ 11 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
میری بات نے سبھی ساتھیوں کو چونکا دیا ۔ ’’ختم ہوگئے ؟ ‘‘ سونیا کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا ۔ ’’کیسے ختم ہوگئے؟‘‘ یہ زاہد تھا ۔ ’’ دیکھتے ہیں چل کر ! ‘‘ میں نے ٹیلے کی آڑ سے نکلتے ہوئے کہا ۔ ’’ختم ہوگئے ؟ یعنی مرگئے؟‘‘ اشرف بولا ۔ ’’ہوں ۔‘‘ میں نے تیزی سے اس طرف بڑھنا شروع کیا جہاں لاشیں پڑی ہوی تھیں اور دونوں گھوڑے ان لاشوں کو سونگھ رہے تھے ۔ قریب پہنچنے پر سبھی کو معلوم ہوگیا کہ ایک کے سینے میں اور دو سرے کی گردن میں تیر
مزید پڑھیے



سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی:تاریک دریچے(قسط33)

منگل 10 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
سبھی میری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ میں نے سونیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کام تو تم نے اچھا دکھایا لیکن بہتر تھا کہ تم یہ کہہ کر اس سے کلاشنکوف مانگتیں کہ تم خود ہم سب کو ختم کروگی۔ ضروری نہیں کہ وہ تمھاری بات مان لیتا لیکن ذرا پیار سے کہتیں تو مان بھی سکتا تھا۔ ‘‘ ’’تم نے کسی خطرے کی بات کی ہے لیڈر! ‘‘سونیا نے کہا۔ باقی ساتھی بھی سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’گولیاں چلنے کی آواز دور تک گئی ہوگی۔ دوسرے طالبان چوکنا ہوگئے ہوں گے۔ ان میں سے
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے قسط32

پیر 09 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
ہمیں للکارنے والاشخص ایک چھوٹے سے پتھریلے ٹیلے پر کھڑا تھا ۔ اس کی عمر چھبیس اٹھائیس سال کے لگ بھگ ہوسکتی تھی ۔ شلوار قمیص پر واسکٹ پہنے ہوئے تھا ۔ ٹھوڑی پرخشخشی داڑھی تھی ، سر پر سرمائی ٹوپی پہنے ہوئے تھا ۔ ہاتھوں میں کلاشنکوف تھی جو وہ ہم لوگوں کی طرف تانے ہوئے تھا ۔ علی محمد کا جواب سننے کے بعد وہ کسی قدر غصے میں بولا۔ ’’ میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ تم لوگ کون ہو؟‘‘ زبان پشتو ہی تھی ۔’’ہم بنوں سے آئے ہیں ۔‘‘ اس بار بھی علی محمد نے جواب
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے (قسط31)

اتوار 08 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
اس وقت جب میں وزیرستان کی طرف روانگی کے لیے لکھنے بیٹھی ہوں تو مجھے کچھ دن پہلے کی خبر یاد آگئی ۔ تیرہ جون کے ڈرون اٹیک میں تحریک طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ ہلاک ہوچکا تھا ۔ وہ ملا جو بے شمار لوگوں کی ہلاکت کا ذمے دار تھا ، جس کی سفاکی نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا بھی خون بہایا تھا ۔ اس کی یاد مجھے اس لیے آئی کہ وزیرستان میں اس سے میرا سامنا ہوا تھا اور وہ میری چلائی ہوئی گولی سے بال بال بچا تھا ، اور غالباً اسی لیے
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی تاریک دریچے (قسط30

هفته 07 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
میں نے مسٹر داراب کو اطلاع دی کہ میں پشتو بولنے پر قادر ہو گئی ہوں ۔ مسٹر داراب کے چہرے سے سوچ بچار کا اظہار ہوا ۔ پھر وہ بولے ۔ ’’ جن افراد کو تمھارے ساتھ جانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا ، ان میں سے ایک ابھی پشتو بولنے میں کچا ہے۔ اس پر ایک ہفتے اور محنت کی جائے گی ۔‘‘ ’’ توروانگی میں مزید ایک ہفتہ لگے گا ؟ ‘‘ مجھے مایوسی ہوئی تھی ۔ ’’بگ پرسن سے میری بات ہوئی تھی ۔ انھیںبتا دیا تھا میں نے ۔ ان کا کہنا تھا کہ
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی:تاریک دریچے(قسط29)

جمعه 06 جولائی 2018ء
ایچ اقبال
میں نے اور بانو نے کسی نہ کسی طرح شاردا کو فیصل آباد کے ایک ہاسپٹل پہنچایا جو اس وقت بہت ضروری تھا ۔ میں نے جب اس کے سینے سے کان لگائے تھے تو محسوس ہوگیا تھا کہ اس کے دل کی دھڑکنیں نا ہم وار تھیں۔ میں نے سوچا تھا کہ جیسے ہی شاردا کی حالت کچھ سنبھلے گی ، اسے ایر ایمبولینس سے لاہور کے کسی اچھے ہاسپٹل میں منتقل کرادینا بہتر ہوگا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ فیصل آباد ہی کے اسپتال میں اس کی حالت اتنی سنبھل گئی کہ اسے لاہور لے جانے کی
مزید پڑھیے








اہم خبریں