Common frontend top

سجاد میر


فاروق عبداللہ سے گلگت و بلتستان تک


میں وہمی شخص ہوتا تو جانے کتنے سوال اٹھا دیتا۔ ویسے بھی میں کشمیری نژاد ہونے کی وجہ سے اور ایک متشدد پاکستانی ہونے کے ناتے کبھی شیخ عبداللہ کے خانوادے سے مطمئن نہیں ہوا۔ ان کی تین نسلوں نے مقبوضہ کشمیر پر حکومت کی ہے۔ وہ سونے کے بن کر بھی آ جائیں تو بھی مجھے ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ آدمی کو ویسے اتنا بھی سنگدل نہیں ہونا چاہیے۔کبھی کبھی وہاں سے خیر کی بارش ہو جاتی ہے جہاں سے اس کا گمان تک نہیں ہوتا۔ طائف میں بدترین ظلم کرنے والوں کی ہدایت کی
هفته 26  ستمبر 2020ء مزید پڑھیے

فیصلہ کن موڑ

جمعرات 24  ستمبر 2020ء
سجاد میر
کیا نوازشریف کی تقریر ٹکڑائو کی پالیسی کا اعلان ہے یا اس بات کا اظہار ہے کہ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ شیخ رشید نے یہ بیان دے کر کس کی خدمت کی ہے کہ نوازشریف نے اپنا پاسپورٹ خود پھاڑ دیا ہے اور اب ان کی ملک کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں۔ ان کی یہ بات اس تجزیے پر مبنی ہے کہ نوازشریف نے چونکہ ریاست سے ماورا ریاست کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان کی لڑائی عمران سے نہیں‘ ان لوگوں سے ہے جو عمران کو لے کر آئے ہیں تو وہ
مزید پڑھیے


سٹالن یا دُرّۂ عمرؓ

جمعرات 17  ستمبر 2020ء
سجاد میر
ان کی تحریر پڑھ کر بنا پیئے ہی نشہ آ جائے، یہ کم ہوتا ہے یہ معجزہ مگر آج ہوا ہے۔ میں جن سوالوں پر غور کر رہا تھا ان میں بعض کی طرف اشارے ملے ہیں۔ کالم کا عنوان ہے کہ کیمونسٹ ماسکو میں ریپ ناممکن تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ماسکو کی شاموں کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کا رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ کوئی راہ چلتی خواتین کی طرف میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ وہاں وہ آزادیاں نہ تھیں جو جمہوری ملکوں میں ہوتی
مزید پڑھیے


رحم کرو‘ رحم!

پیر 14  ستمبر 2020ء
سجاد میر
ایسے میں کئی بار میرے اندر کا صحافی آنکھیں موند لیتا ہے اور وہ چھوٹا سا ادب کا طالب علم جاگ اٹھتا ہے جس نے دیوتائوں سے لے کر انسانوں تک کی کہانیاں درد دل کے ساتھ پڑھی ہوتی ہیں۔ میں بھول جاتا ہوں کہ اس موٹروے کو بنے اتنے ماہ ہو گئے اس پر سکیورٹی اور سہولت کے وہ بندوبست کیوں نہیں ہے جو ایسے منصوبوں کا ضروری جزو ہوتا ہے۔ لاہور سیالکوٹ چھوڑیئے‘ مجھے اس کا بھی خیال نہیں آتا کہ لاہور سے ملتان اور سکھر جانے والی موٹروے کھلے اس سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے
مزید پڑھیے


منو بھائی کا سندس

هفته 12  ستمبر 2020ء
سجاد میر
منو بھائی سے مری آشنائی پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ وہ ایک نظریاتی ہنگامہ خیزی کا زمانہ تھا‘مگر پاک ٹی ہائوس ایک ایسی جگہ تھی جہاں سب ایک میز پر بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ میں کئی برس کراچی میں گزار کر واپس لاہور آیا تو منو بھائی کو ہمیشہ کی طرح فعال پایا۔ سندس کے نام سے ایک ادارہ نظر آیا جو مرے خیال میں ایک طرح کا بلڈ بنک ہو گا۔ فنکار اور اداکار جو این جی او بناتے ہیں اس پر اہل نظر طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں‘ تاہم مجھے یقین تھا
مزید پڑھیے



پنجاب پولیس کی لڑائی

جمعرات 10  ستمبر 2020ء
سجاد میر
دل تو چاہتا تھا کہ کراچی کی حالت زار پر کچھ لکھوں۔ اتنی بربادیوں کے باوجود روشنیوں کے اس شہر کی جو گت بنائی جا رہی ہے وہ اب ناقابل برداشت ہے۔ نام نہاد منصوبہ بندی کے باوجود بہتری کی کوئی امید اس لیے نظر نہیں آتی کہ سب کی نیتوں میں فتور ہے مگر پنجاب میں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے جو بات پاکپتن کے گردونواح سے شروع ہوئی تھی اور ایک ڈی پی او کے تبادلے پر منتج ہوئی تھی۔ وہ یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اس نے پنجاب جیسے صوبے کے پانچ پولیس سربراہوں
مزید پڑھیے


فیڈریشن یا کنفیڈریشن

هفته 05  ستمبر 2020ء
سجاد میر
چند روز پہلے بڑی وضاحت کے ساتھ عرض کر چکا ہوں کہ صوبے مقدس نہیں‘ تقدس اگر حاصل ہے تو صرف ملک کو۔ یہ بھی وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ ملک صوبائی اکائیوں کے اشتراک سے نہیںبنا تھا۔اگر ایسا ہوتا تو پنجاب اور بنگال کے صوبے تقسیم نہ ہوتے۔ سندھ تو خیر پہلے ہی تقسیم ہو چکا تھا جب اسے بمبئی سے الگ کر دیا گیا تھا اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ اس وقت عرض مجھے یہ کرنا ہے کہ پاکستان کے دولخت ہونے سے پہلے یہ بحث چلی تھی کہ پاکستان
مزید پڑھیے


صبح نو کی نمود

جمعرات 03  ستمبر 2020ء
سجاد میر
میں اس نسل کا نمائندہ ہوں جنہوں نے پاکستان کا خواب تو نہ دیکھا تھا‘ مگر پاکستان بننے کے بعد ان خوابوں کی آغوش میں پرورش پائی تھی۔میری ماں بتا تی تھیں کہ جب انہوںنے ایک بائیس دن کے بچے کو گولیوں کی بوچھاڑ میں سینے سے لگا کر سرحد پار کی تھی تو راوی‘ چناب اور جہلم تینوں سرخ ہوئے تھے۔ سال ختم ہونے سے پہلے ان کا ادھر کوئی نہ بچا تھا اور ہمارا ادھر کوئی باقی نہ رہا تھا۔ باقی بھی کسی نہ کسی صورت قافلوں میں دھکے کھاتے خوابوں کی اس سرزمین پر آن پہنچے
مزید پڑھیے


پبلک انٹلکچوئل

هفته 29  اگست 2020ء
سجاد میر
اللہ خوش رکھے ڈاکٹر صفدر محمود اور اظہار الحق کی دو تحریریں میرے لئے آج وسیلہ مسرت بنی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کالموں کی تازہ کتاب مرے سامنے دھری ہے جسے میں چسکے لے لے کر پڑھ رہا ہوں۔ تاہم میری یہ تحریر اس کتاب پر تبصرہ نہیں ہے بلکہ محض اس خوشی کا اظہار ہے جو مجھے اسے پڑھنے میں حاصل ہو رہی ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو تو خیر بعد میں کروں گا خلاصہ صرف یہ عرض کردوں کہ ہمارے ہاں کے بگڑے ہوئے دانشور تحریک پاکستان ‘ قائد اعظم اور اقبال کے بارے میں جتنی بھی غلط
مزید پڑھیے


احمد فراز اور این آر او

جمعرات 27  اگست 2020ء
سجاد میر
میں ٹیلیویژن پر بیٹھا تھا کہ اچانک یہ سوال پوچھ لیا گیا کہ آج احمد فراز کا یوم وفات ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ وہ ہمارے وزیر اطلاعات کے والد ہیں۔ فراز سے کم از کم اتنی دوستی ضرور تھی کہ جب آخری بار امریکہ جانے سے پہلے وہ کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں جو دو بار دعوتیں ہوئیں‘ ان میں سے ایک میرے گھر پر تھی۔ فقرے بازی سے میں باز نہ آتا تھا۔ اس محفل میں کسی نے زہرہ آپا (زہرہ نگار) سے کہا کہ یہ
مزید پڑھیے








اہم خبریں