Common frontend top

سعد الله شاہ


کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے


کس نے سیکھا ہے نقشِ پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا اور پھر ’’پانیوں پر بہار اترے گی۔ تم وہاں نقش اک بنا رکھنا‘‘ تو صاحبو! میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا صرف محاورہ ہی نہیں کبھی کبھی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ آپ تواتر سے ویرانے میں بس چلیں تو وہاں اک راستہ بن جاتا ہے۔ ’’ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی۔ منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے‘‘ اس راہ کے مسافر ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ وہ اخوت والے ڈاکٹر امجد
بدھ 06 دسمبر 2023ء مزید پڑھیے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

منگل 28 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے اور اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چپ تھے وہ سوچ کر کہ انہیں اختیار ہے جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے ایسا ہی ہے کہ ایک بے اختیاری ہے وہ جو خالد احمد نے کہا تھا یعنی پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد۔حلقہ اختیار سا کچھ ہے۔ پھر یوں ہے کہ گر بولتا ہوں میں تو یہ فطری سی بات ہے سوئے ہوئے نگر تو نگر بولنے لگے۔اپنی ہی چھیڑ چھاڑ یونہی منظروں کے ساتھ چھولیں جو شام کو تو سحر بولنے لگے۔ بات شروع کرتے ہیں نواز شریف کے بیان سے کہ
مزید پڑھیے


ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی

اتوار 26 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے اور ایک عجیب سا خیال دیکھئے ۔نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو، اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے ۔سچ مچ یہ دنیا جینے نہیں دیتی اور بعض اوقات تو مرنے بھی نہیں دیتی۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔یہ خدائی فوجدار رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ہیں انتہائی تخریبی سوچ جسے وہ تعمیری سمجھتے ہیں ایسے
مزید پڑھیے


اقتدار کا حصول اور اصول!

هفته 25 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
جتنی بھی رسوائی تھی میں نے آپ کمائی تھی سب نے جس کو شعر کہا اندر کی شہنائی تھی اور اسی روانی میں پڑھ لیں اس کو دیکھا تھا میں نے ۔آنکھ مری پتھرائی تھی اور پھر اس کی آنکھوں میں جھیلوں سی گہرائی تھی شبنم جیسے پتھر پر سعد جوانی آئی تھی۔ سوچتے سوچتے آخر کو۔ آنکھ مری بھر آئی تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ میں سخن سرائی سے ماحول بنایا ہے کہ بات تو بڑھائی جائے۔ صورت حال نہایت دلچسپ ہے کہ نواز شریف سے مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کا بتاتے ہوئے مولانا نے اپنا مافی الضمیر
مزید پڑھیے


ورلڈ کپ بھارتی کھلاڑی روتے رہ گئے!

بدھ 22 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی اس میں کیا شک ہے کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم ناقابل شکست رہی اور پھر فائنل آ پہنچا۔ ایک غروراور تکبر اس کے انداز و ادا سے جھلکتا تھا وہ وقت سے آگے نکل کر سوچتے تھے کہ ورلڈ کپ تو ان کی جیب میں پڑا ہے اور ان کو اولمپکس پر نظریں جما لینی چاہیے۔ لگتا بھی کچھ ایسے ہی تھا کہ کوئی ٹیم ان کے سامنے ٹھہرتی
مزید پڑھیے



زندہ لوگ اور زندہ معاشرہ

اتوار 19 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں صرف ایک شعر اور کہ دیکھ لینا کہ یہی وقت چلنے کا۔ آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں۔ یقینا ٹھہرائو اور جمود موت ہے جبکہ پیہم چلتے رہنا اور عمل میں رہنا زندگی ہے۔ بات زندگی اور موت کی چلی ہے تو اس میں آج نہایتپتے کی بات کرنا چاہتا ہوں یہ ایک الگ بات ہے کہ زندگی نام ہے مر مر کے جئے
مزید پڑھیے


عوام کچھ اور سوچتے ہیں

هفته 18 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ہے کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی لیکن کیا کریں ’’ہوس کو نشاط کار کیا کیا‘‘ ’’مل بھی جائے گر یہ دنیا ساتھ تیرے۔ پھر بھی شاید اک کمی باقی رہے گی‘‘۔ اور پھر کمی کا احساس بھی اس کو ہوتا ہے جس کے پاس بہت کچھ ہو۔ آنکھ بہرحال نہیں بھرتی۔ بات تو میں نے رومانٹک چھیڑی تھی مگر یہ سیاست میں چلی گئی اور سیاست ہے کہ ہر جگہ چلی آتی ہے۔ کیا کریں حرص و ہوس کا کوئی کنارہ
مزید پڑھیے


سولہ ماہ سنگ میل یاسنگ راہ!

جمعرات 16 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے جس طرح ہم نے گزارہے ہیں وہ ہم جانتے ہیں دن فراغت کے بظاہر بڑے آرام کے تھے چلیے اس مناسبت میں ایک شعر اور کہ سعد پڑھنا پڑی ہم کو بھی کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے ۔انسان کو اپنے شب و روز کا کیا معلوم کہ کس گلی میں صبح ہو اور کس گلی میں شام ہو جائے۔ مگر تحرک کا نام زندگی ہے یعنی ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ سوچا
مزید پڑھیے


مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا

منگل 14 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
تلخیٔ زیست کے عذاب کے ساتھ ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ ہم کوئی خواب سی حقیقت میں یا حقیقت جڑی ہے خواب کے ساتھ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ سودوزباں کی بستی میں۔ کون کتنا چلے خواب کے ساتھ۔ رنگ و بو پر سمجھ کی گئی۔ کون بکھرا مگر گلاب کے ساتھ ۔ بات یہ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھیں اور کیوں لکھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس میں یا تو کوئی دلچسپ کہانی ہو کوئی انشا پردازی ہو اور یا کوئی گہری مقصدیت ۔ غالب نے کہا تھا زندگی اپنی جب اس رنگ میں
مزید پڑھیے


میرا دشمن بھی خاندانی ہو

اتوار 12 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
لفظ غیرت پہ اس کو حیرت تھی دیکھنے والی اس کی صورت تھی خامشی میں تھی درد کی تاثیر کیا وضاحت تھی کیا بلاغت تھی ایک شعر اور پڑھ لیں: آسماں سے لائی زمیں پہ مجھے یہ میری اولیں محبت تھی یہ تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہنوط آدم کی طرف اشارہ ہے یہ سب محبت ہی میں تو ہوا تھا اس پر ہمارے دوست ندیم نے کہا تھا اپنی گردن جھکا کے بات کرو۔ تم نکالے گئے ہو جنت سے۔ بات کسی اور طرف نکل جائے گی کہ مجھے تو ایک خاص بات کرنی ہے کہ جس کا تعلق اخلاقیات سے اور جس کے بارے
مزید پڑھیے



آج کا اخبار





اہم خبریں