Common frontend top

سعد الله شاہ


نگہبان رمضان پیکیج اور مسائل


سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا ایک شعر اور دیکھیے کہ ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا ۔یہ آتاب و ماہتاب رومانٹک اشارے ہیں ان کا سیاست سے ہرگز تعلق نہیں۔ لیکن آج سیاست پر تھوڑی سی تو بات ہو گی کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ سب ہی دیکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی نسبت پنجاب کی وزارت
هفته 16 مارچ 2024ء مزید پڑھیے

اجتماع زندگی ہے!

جمعرات 14 مارچ 2024ء
سعد الله شاہ
گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردا تھا بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں جھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا اس ربط میں صرف ایک شعر اور۔ اگرچہ سعدرستے میں کئی دلکش جزیرے تھے مگر ہرحال میں مجھ کو سمندر پار جانا تھا ۔بس یہاں منزل کا تعین تھا ایسی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دین میں منزل ہی مقصود ہے اور یہ منزل کیا ہے؟ پہلے ایک مزے کی بات کرتے ہیں کہ اجتماع زندگی ہے اور انتشار
مزید پڑھیے


زباں پر ایک ادبی کالم

جمعه 08 مارچ 2024ء
سعد الله شاہ
کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ رنجش کار زیاں، در بدری، تنہائی اور دنیا ہی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ اور پھر یہ کہ چشم نمناک لئے سینہ صد چاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ۔ ان اشعار لکھنے کا ایک مقصد ہے کہ یہ میرے موضوع کے ساتھ لگا کھاتے ہیں خاص طور پر ہمارے ادب سے وابستہ نوجوان اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ درپیش مسئلہ تھا کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے ہم نے حوالے سے ایک محاورہ بند شعر پڑھ دیا: اس کے لب پر سوال آیا
مزید پڑھیے


کچھ الفاظ کے پھول اور معنی کی خوشبو!

اتوار 03 مارچ 2024ء
سعد الله شاہ
دلوں کے ساتھ یہ اشکوں کی رائیگانی بھی کہ ساتھ آگ کے جلنے لگا ہے پانی بھی بجا رہے ہو ہوائوں سے تم چراغ مگر ہوا کے بعد کہاں اس کی زندگانی بھی ایک اور شعر دیکھیئے بہت ذھین تھا ظالم کہ اٹھ کے چل بھی دیا۔ جہاں زبان بنی اپنی بے زبانی بھی۔ اور پھر یہ کہ ہمارے خواب سے ٹکرا گئے ہیں خواب اس کے ۔یہیں پہ ختم کرو سعد یہ کہانی بھی۔ یعنی اب ہمارے کہنے اور کرنے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ اخلاقیات کا تذکرہ تو شاید دقیانوسی بات ہو گی۔ مال مسروقہ پہ وہ کس قدر مطمئن ہو گئے۔
مزید پڑھیے


مری خزاں ترے لئے بہار کیسے ہو گئی!

منگل 27 فروری 2024ء
سعد الله شاہ
باعث رنج ومحن غیض و غضب پوچھتے ہیں ہم سے کیا بات ہوئی سوئے ادب پوچھتے ہیں کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں ایک اور شعر کا احتمال پیدا ہوا کہ ہمارے شہباز شریف پوچھتے ہیں کہ آخر لوگ ان سے گریزاں کیوں ہیں؟’’ ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر، ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لئے سارے اختلافات بالائے طاق رکھ کر کاوشیں کرنا ہوں گی باقی تو سب ٹھیک ہے مگر سیاسی استحکام تو
مزید پڑھیے



نئی حکومت اور سب سے اہم مسئلہ!

اتوار 25 فروری 2024ء
سعد الله شاہ
اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے پھر نظر ہے ہماری سائے پر سعد وقت زوال آیا ہے یہ کوئی نئی بات بھی نہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے مگر اصل بات یہ کہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر اپنے اعمال پر نظر رکھی جائے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے کالم لکھنے کا اصل مقصد تو یہی ٹھہرتا ہے کہ ہم اپنے قارئین کے مسائل پر بات کریں۔ حکومت یا ان طاقتوں کے سامنے عوام کی مشکلات رکھیں باقی علمی ادبی سیاسی یا معاشرتی موضوعات کچھ اس کے سوا بھی ہیں سردست تو مہنگائی کا
مزید پڑھیے


ایک بہت ہی مفید مشورہ!

منگل 20 فروری 2024ء
سعد الله شاہ
سچ کی تائید میں اے دوست اگر نام آئے کیا عجب ہے گر کوئی ہم پہ بھی دشنام آئے آنکھ رکھتے ہو تو آنکھوں کی زباں بھی جانو چاند نکلا تو ستارے بھی سربام آئے ایک خیال اور کہ میں نے چڑھتے ہوئے سورج کی ادا دیکھی ہے ڈوب جاتا ہے یہ سستانے کو جب شام آئے۔ کون جانتا ہے کہ پردۂ غیب سے کیا نمودار ہونے والا ہے۔ بس وہی کہ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ آج میں دو عشروں کے بعد صحت یاب ہوا ہوں تو کچھ لکھنے بیٹھا ہوں کوئی سیاسی یا ادبی بات تو نہیں مگر
مزید پڑھیے


دوسروں کی زمین میں سخن وری!

منگل 30 جنوری 2024ء
سعد الله شاہ
کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ اس تسلسل میں ایک شعر اور ’’کہ وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں۔کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ‘‘ اصل میں آج میرا دل چاہا کہ ادبی کالم میں پرائی زمینوں کی بات کروں کہ کسی کی زمین شاعر کو پسند آ گئی تو اپنی فصل اگا دی بعض اوقات بہت اچھے اچھے شعر نکل آتے ہیں مندرجہ بالا اشعار کے
مزید پڑھیے


نثری شاعر اور جواب آں غزل

بدھ 17 جنوری 2024ء
سعد الله شاہ
موج میں آ کر جب بہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں تنہا تنہا کیوں رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں سبز رُتوں کی جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں بہکے بہکے سے رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں اور پھر’’آنکھیں بن کر دیکھ رہے ہو تم بھی قیدی لوگوں کو۔ روشن دانوں سے کہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں‘‘ پہلی بات تو یہ کہ شعر میں قیدی سے مراد کوئی سیاسی قیدی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ کالم خالصتاً ادبی ہے۔ اصل میں محترم اقتدار جاوید کالم نثری نظم اور یوسف خالد نظر سے گزرا تو ہم پر
مزید پڑھیے


اسلم کمال اور فراست بخاری کی یاد میں چغتائی مشاعرہ !

هفته 13 جنوری 2024ء
سعد الله شاہ
ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے مگر وہ نین کہ تونے تھے جو نشیلے کیے ادھر تھا جھیل سی آنکھوںمیں آسمان کا رنگ ادھر خیال نے پنچھی تمام نیلے کیے ایک اور شعر کہ ’’محبتوں کو تم اتنا نہ سرسری لینا، محبتوں نے صف آراء کئی قبیلے کئے۔ آج ایک زبردست مشاعرے کا تذکرہ کرنا ہے کہ جیسے وسیم عباس نے بزم طارق چغتائی کے تحت سجایا مگر اس سے پہلے ایک پیاری سی خبر پر نظر پڑ گئی کہ ایک فرانسیسی شخص نے رشتوں سے تنگ آ کر خود ہی سے شادی کر لی۔ معاً ذھن میں ظہیر کاشمیری کا شعر
مزید پڑھیے








اہم خبریں