کون سمجھے مرا تنہا ہونا
یہ دنیا سے شناسا ہونا
پھول کا کھلنا سرشاخ
دیاایک امید کا پیدا ہونا
اپنے من میں ڈوبنا اور فطرت کی رنگا رنگی تلاشنا ایک عجیب مشغلہ ہے۔اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے۔وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے۔آ گہی بھی ایک نعمت سے کم نہیں کہ بہت کچھ منکشف ہونے لگتا ہے بعد مدت کے کھلا یہ مجھ پر اتنا، اچھا نہیں اچھا ہونا۔ اب تو معمول ہوا جاتا ہے بات بے بات تماشہ ہونا۔ تو بات یہ ہے کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے شاید اسی خوشی
جمعه 13 جنوری 2023ء
مزید پڑھیے
سعد الله شاہ
کرکٹ اور سیاست
جمعرات 12 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
مولا مجھے تو لے لے بس اپنے حصار میں
ہے اختیار میرا ترے اختیار میں
عشق نئیؐ کی آگ میں ہو جائوں کاش راکھ
شعلہ بجاں ہے شوق دل بے قرار میں
یہ عقیدت کے پھول تھے جو دل میں کھلے خوشی پھیلی تو میں نے انہیں صورت سخن سجا دیا یہ آمد اتنی منہ زور ہوتی ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتی پھر ایک اور شعر اترا کہ میں نے خدا کو سوچ لیا ماں کے روپ میں ،ستر ہزار پھول کھلے خارزار میں اک معجزے سے کم نہیں میری یہ آگہی، میں صبح دیکھتا ہوں شب اشک بار میں۔اس عقیدت بھری
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
آہ ریاض رومانی!!!
اتوار 08 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
وقت بدلا تو بڑھے ویرانے
کیسے ویراں ہوئے چائے خانے
میرے لہجے میں اداسی آئی
اس اداسی کو سخن ور جانے
یہ خبر نہیں استدعا ہے بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ یہ مصرع منیر نیازی نے کتنے رسان سے کہہ دیا تھا سچ مچ ایسے ہی ہے سیاست ہوکہ ادب کچھ بھی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ایک مادی آہنگ اور ڈھنگ دکھائی دیتا تھا۔ یہاں کون لفظ کے حوالے سے ملتا ہے۔ایک دوسرے سے یکسر اجنبی میری پہچان زمانہ ٹھہرا آپ مجھ کو نہ مگر پہچانے۔رشتۂ درد کی گرہوں پہ نہ جا اور ٹوٹیں گے یہ تانے بانے۔ آج تو ایسے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
مہنگائی اور بہانے
هفته 07 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
صد حیف سب سحاب بھی ثابت ہوئے سراب
پلکوں پہ دھل کے آ گئے سارے ہمارے خواب
ہم کتنے خوش گمان تھے آ جا کے یہ کھلا
گلدان میں تھے آپ کے سب کاغذی گلاب
اور پھر آتے ہیں کس شمار میں ہم سے زمین زاد اترے ہیں آسمان سے بس آپ ہی جناب اے سعد کچھ کہو کہ کہاں ہے وہ آسماں ٹانکے تھے جس پہ آپ نے مہتاب و آفتاب۔ سب کے پاس بس دعوے اور وعدے ہی ہیں کارکردگی تو اب بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تف ہے اس بیان پر کہ کوئی یہ کہے کہ مہنگائی مہنگائی کا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ملائیشیا کا شاندار سفرنامہ
جمعرات 05 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے
پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے
چپ تھے وہ سوچ کہ انہیں اختیار ہے
جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے
آج تو میرے سامنے ایک شاہکار سفرنامہ ہے۔ محترمہ تسنیم کوثر کا لکھا ہوا۔کچھ روز قبل بھیجا گیا یہ ارمغان میرے ہاتھوں کو گرمائش اورآنکھوں کو طراوٹ ب بخشتارہا۔ تسنیم کوثر نے تو مہاتیر کے وطن ملائیشیا کے شب و روز اور جغرافیہ میں وقت کو پھول بوٹے لگائے ہیں۔میں انگریزی ادب ماسٹر کر رہا تھا تو ناول کی تعریف میں کہتے تھے کہ اس میں زندگی دھڑکتی ہے۔ کہانی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
نیا سال نئے خواب!
منگل 03 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے
ہم بھی سوتے تھے کوئی خواب سرہانے رکھ کر
ہاں مگر گردش ایاّم سے پہلے پہلے
وقت گزر جاتا ہے ہر بار نیا سال آ جاتا ہے مگر ایک ہم ہیں کہ صبح ہوتی ہے شام ہوتی زندگی یوں تمام ہوتی ہے۔ ہر دن ہی پوری زندگی کا استعارا ہے۔نہ رات اپنی نہ دن ہمارا ہے سب کچھ خواب ہی تو لگتا ہے وہی کہ جو کہا گیا کہ انسان کہے گا کہ بس دنیا میں ایک دو پل رہا اور پھر واقعتاً اک پل کا بھروسہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ذرا سا غم ہوا اور رو دیئے ہم
هفته 31 دسمبر 2022ءسعد الله شاہ
سحر بن کے آنکھیں کھلیں تو حقیقت کا پورا سبق داستاں ہو گیا
یہ کیا ہے محبت میں اک شخص کی، اپنا سارا سفر رائیگاں ہو گیا
کہاں تک سنو گے زمیں سے زمیں تک مری داستان کمال و عروج
میں پہلے حصار بدن میں رہا پھر اسیر زماں و مکاں ہو گیا
کیا کروں بات ہی ایسی ہے کہ بحرطویل ہو گئی کہ دم پر جس کا دارو مدار ہے کبھی کبھی تھوڑا سا تردد بھی کرنا چاہیے۔ آپ خیال میں لائیں کہ سفر بہت لمبا تھا ہم نے کیسے کیسے حکمرانوں کا کشت کاٹا ۔ایک لمبا انتظار مگر ہوا کیا۔
سخن کی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
یہ چراغ ایسے ہیں کہ مدھم نہیں رکھے جاتے
جمعه 30 دسمبر 2022ءسعد الله شاہ
مشکل پڑی تو یار ہمارے بدل گئے
لیکن یہ سخت جان اگر پھر سنبھل گئے
ریگ روان دشت تھا حرص و ہوس کا شہر
ہم بھی اسی فریب میں حد سے نکل گئے
وہی کہ ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ۔انسان کو اپنا پتہ تو ہوتا ہے مگر تسلیم کرنے میں انا آڑے آتی ہے یا شرم دامن گیر ہوتی ہے۔
آڈیوز نے دیوار کے پیچھے کا ساز منظر کھول دیا ہے اور اب یہ کہے بغیر نہیں بنتی کہ یہ جدید ٹیکنالوجی ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے ۔لب لباب یہ کہ کوا سفید ہوا چکا ہے۔
اگرچہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
اس قدر بے بسی نہیں دیکھی
جمعرات 29 دسمبر 2022ءسعد الله شاہ
آئینہ دیکھ کر بھی پچھتایا
مجھ کو کچھ بھی نظر نہیں آیا
سوچتا ہوں کہ اب کدھر جائوں
اس گلی سے تو میں گزر آیا
ایک کیفیت عجیب سی ہے سخن بہانہ کرتے ہیں۔سچ اور جھوٹ کا فرق ختم ہو چکا۔جھوٹ تو باقاعدہ ایجاد ہوتے ہیں جبکہ سچ دریافت کرنا پڑتا ہے۔ وہ جو دل میں چھپایا تھا میں نے میری آنکھ سے ابھر آیا۔ساری محنت فضول لگتی ہے۔کوئی بھی راہ پر نہیں آیا۔لوگ بے چارے چارہ بنتے رہے۔ کوئی چارہ گر نہیں آیا۔
بلاول بی بی کی برسی پر خان صاحب پر خوب برسے۔ہو سکتا ہے خان صاحب اپنی پرکشش مسکراہٹ کے ساتھ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
دسمبر کی تین یادیں
بدھ 28 دسمبر 2022ءسعد الله شاہ
اتری ہوئی ہے دھند دسمبر کی شام ہے
اک صبح آرزو کہ ابھی تشنہ کام ہے
اک جسستجو کے سامنے ارض و سما کی قید
بے چارگی کا میرے برابر قیام ہے
دسمبر سال کی حدوں پر کھڑا ہے۔ باہر دھند کا راج ہے اور اس قدر ہے کہ اپنے اندر بھی یہی کیفیت ہے۔ اس کی ایک وجہ حالات کا دگرگوں ہونا ہے۔ وہاں بھی برف نہیں پگھل رہی۔ ایسے میں دسمبر سے وابستہ یادیں برفیلی چپ میں سر اٹھا کر باتیں کرتی ہیں۔ ویسے تو ایک بے جان سی یخ بستگی ہے۔ انجماد کی کیفیت۔ باغ میں سبزہ بھی خوابیدہ ہے۔ پھولوں
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے