Common frontend top

سہیل دانش


ہمارے اصل دشمن ہم خود ہیں!


اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھے جانے والا خط اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوتے ہوئے پاکستان میں باہم تفریق کو نمایاں کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ تیرے، میرے کے شور میں بٹے ایک ایسے معاشرے میں جہاں ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں میں تقسیم در تقسیم کی لکیریں زیادہ نمایاں ہونے کے ساتھ یہ آوازیں زیادہ توانا ہوتی جا رہی ہیں کہ فوج، سیاست، عدلیہ اور صحافت میں مداخلت کر رہی ہے۔ سیاست دان فوج اور عدلیہ سے اپنی بات منوانے کے لیے کمربستہ ہیں اور عدلیہ سیاست میں غلط طور
بدھ 03 اپریل 2024ء مزید پڑھیے

اللہ پاک ہم سے ناراض تو نہیں؟

پیر 01 اپریل 2024ء
سہیل دانش
آخر کوئی تو وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنا رزق تنگ کر دیا ہے جس سے ملو وہ بے سکون بدحال غیر مطمئن اور ٹینشن میں دکھائی دیتا ہے۔اگر ہم اس احساس اور منطق کو مان لیں کہ اللہ پاک ہم سے ناراض ہیاس لئے اس نے ہم پر ان نعمتوں کو سکیڑ دیا۔ جس کے سبب ملک کی اکثریت پریشانیوں‘ مصائب و الم اور آنسوئوں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ میںسوچ رہا ہوں کہ کہیں عوام کے یہ دکھ‘ آنسو اور آہیں اس ملک کے تمام مسائل کی بنیاد تو نہیں۔
مزید پڑھیے


ہم بھنور میں کیوں پھنس گئے؟

اتوار 24 مارچ 2024ء
سہیل دانش
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کوئی گڑھی ہوئی کہانی نہیں ہے کہ 1947 سے پہلے پاکستان اور بھارت میں منقسم سرزمین نہیں تھی یہ علاقہ یونائیٹڈ انڈیا کہلاتا تھا۔ پاکستان کی پہلی اسمبلی کے 53 ارکان تھے ان میں 13 غیر مسلم تھے یہ لوگ شرح میں 25 فیصد بنتے تھے گویا پاکستان کے بنانے والوں نے 25 فیصد غیر مسلموں کو مملکتِ خداداد کا حصہ تسلیم کیا تھا۔ 1951ء تک پاکستان کی کل آبادی کا 24 فیصد غیرمسلموں پر مشتمل تھا۔ ہم مسلمان 7 دھائیوں سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد آج 3 کروڑ سے بڑھ کر 24 کروڑ
مزید پڑھیے


اللہ اکبر۔۔۔۔ خدارا اب بھی سنبھل جائیں

پیر 18 مارچ 2024ء
سہیل دانش
اِس بار بھی رمضان المبارک میں لوگ جوق در جوق عمرہ کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس روانہ ہورہے ہیں ،یہ منظر ہم کیونکر فراموش کرسکتے ہیں جب ہر سال دربار الٰہی میں لاکھوں طلبگار اپنے خالقِ اور مالک سے دْعائیں اور التجائیں کرتے ہیں ،عشق کی آنکھ سے قطرے بہتے ہیں کوئی کیا مانگ رہا ہوتا ہے کسی کو ہوش نہیں ہوتا کانپتے ہونٹوں پر ان گنت فسانے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کیا روح پرور منظر۔ سبحان اللہ جب پوری فضا پرنور کی چادر تنی ہوئی ہوتی ہے، پھر وہ سفر اور وہ لمحہ جب ندامت اور شرمساری کے
مزید پڑھیے


اس قوم سے انصاف کر جائیں!

جمعرات 08 فروری 2024ء
سہیل دانش
یہ دوسرے خلیفہ راشد کے دور کا واقعہ ہے۔حکمران کلاس کی دو شخصیات باہم گفتگو میں مصروف تھیں۔اس اثناء میں ایک اور شخص وہاں آ گیا اور اس نے ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ذرا برہمی کے انداز میں کہا کہ یہ شخص میرا ملزم ہے، میں یہاں انصاف کی دہائی دیتا ہوں، وہاں موجود دونوں حضرات میں موجود نسبتاً طویل القامت شخص کے چہرے پر سختی آ گئی اور اس نے جلالی لہجے میں سامنے بیٹھے شخص سے کہا ’’اے ابو حسن کھڑے ہو جائو‘‘ ابو حسن کا چہرہ سرخ ہو گیا تاہم
مزید پڑھیے



سب خود کو بدلیں!

پیر 29 جنوری 2024ء
سہیل دانش
نواز شریف اس دروازے سے محض دو قدم کی دوری پر ہیں۔ بلاول بھٹو سیڑھی پر چڑھ کر ایوان اقتدار کے صحن میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جیل میں مقید عمران خان کسی معجزے یا انہونی کے منتظر۔ نواز شریف کا ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا اور مکان کے خوشنما وعدہ اور عمران خان کے ریاست مدینہ‘ آزادی 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے ریت کی طرح اڑتے دکھائی دے چکے۔ عام پاکستانی کے لئے صرف بے بسی‘ مجبوریاں ‘ بے چارگی‘ افسوس اور آنسو بچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ
مزید پڑھیے


انوکھا مقابلہ

جمعه 26 جنوری 2024ء
سہیل دانش
نواز شریف کو ایک عدالتی حکم کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے رخصت کر دیا گیا۔ وہ ان دنوں ہر جلسے میں اپنی یہ آواز اور احتجاج بلند کرتے دکھائی دے رہے تھے میں نے کراچی کے ’’موون پک‘‘ ہوٹل کے کمرے میں دریافت کیا۔ آخر کیا وجہ بنی کہ سسٹم آپ کو قبول نہیں کر رہا۔ مجھے یاد ہے میاں صاحب کی آواز میں جذباتیت آ گئی وہ رندھی ہوئی آواز میں بولے۔ جب تک آپ سسٹم کے ساتھ چلتے ہیں یہ آپ کو ہاتھوں میں اٹھائے رکھتا ہے۔ لیکن جیسے ہی آپ کمپرو مائز کرنے سے انکار
مزید پڑھیے


انصاف‘ انصاف ہوتا ہے

جمعه 19 جنوری 2024ء
سہیل دانش
اپنے وطن عزیز کی تاریخ کا ہر موڑ اور ایک ایک صفحہ ازبر ہے۔ نہ جانے کتنے واقعات گردش کرتے رہے انصاف کے ایوانوں میں کتنے لوگ اپنی فائلیں تھامے اپنا جائز حق مانگنے کے لئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔میں بیٹھا یہی سوچتا رہا۔ سورج غروب ہو گیا۔ اندھیرا سرک کر اندر داخل ہونے لگا۔ دماغ میں یہی سوال ابھرتا رہا کہ اس ملک میں کوئی ایسا ادارہ ہے۔ جس پر لوگوں کا اعتماد باقی رہا ہو۔ جس کے متعلق لوگوں کو یقین ہو کہ وہاں جائیں گے تو وہاں انصاف ہو گاکہ وہاں فیصلے مظلوم کی مظلومیت اور
مزید پڑھیے


اذیت پسندی کا شکار معاشرہ

جمعرات 18 جنوری 2024ء
سہیل دانش
آپ ٹی وی پروگراموں کو دیکھیں آپ ڈیجیٹل میڈیا پر تبصرے سنیں۔آپ ان کے اینکرز کا جوش دیکھیں ان پروگراموں میں شریک سیاست کاروں اور ماہرین کا اسلوب دیکھیں ایک دوسرے کو جھوٹا اور دغا باز ثابت کرنے کے لئے دست و گریبان ہونا دیکھیں ۔آپ سوشل میڈیا پر ہر ایک کو اپنی دانشوری جھاڑتے دیکھیں۔ پھکڑ پن کی حدوں کو چھوتے دیکھیں۔ اپنی خواہشات کے مطابق جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتے دیکھیں۔ کبھی حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں کبھی امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہماری
مزید پڑھیے


یہ ہے ہماری سیاست!

اتوار 14 جنوری 2024ء
سہیل دانش
مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی ایک خاص برانڈ ہے جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سیاست واقعی حالات‘ زمینی حقائق اور مفادات کا کھیل ہے اور اس کی کوئی کھڑکی انقلاب کے صحن میں نہیں کھلتی ،سیاستدان محض سیاستدان ہیں انقلابی یا امام خمینی نہیں۔ یہ محض ایک گیم ہے ۔ اس میں سیاستدان زمینی حقائق بھانپ کر اور ہوا کا رخ دیکھ کر یہ سمجھ جاتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں رہنا ہے تو پھر انہیں کس مورچے کو اپنی پناہ گاہ بنا لینی چاہیے چنانچہ ایسے سیاستدان اقتدار کے مزے بھی لوٹتے ہیں
مزید پڑھیے








اہم خبریں