Common frontend top

مستنصر حسین تارڑ


’’ایوارڈ حاصل کرنے کے مجرب نسخے اور قبر کے کتبے‘‘


سول ایوارڈ کچھ تو عطا ہوتے ہیں اور کچھ عطا کروائے جاتے ہیں یعنی کچھ ملتے ہیں اور کچھ ’’حاصل ‘‘ کئے جاتے ہیں۔ ایوارڈ ’’حاصل‘‘ کرنے کے لئے وہ تمام تر حربے استعمال کئے جاتے ہیں جو کسی بھی غیر قانونی عمل کو قانونی کروانے کے لئے بروئے کار لائے جاتے ہیں‘ یعنی سفارش‘ دوستی‘ تعلقات‘ سیاست اور تعلقات عامہ کے شعبہ سے ۔ ویسے تو ایوارڈ حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی صوبائی یا مرکزی وزیر کی خوشنودی حاصل کیجیے اور کچھ حاجت نہیں ہے کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ آپ کا نام
بدھ 20 مارچ 2019ء مزید پڑھیے

’’صدارتی ایوارڈ کے اصطبل میں عربی گھوڑے اور خچّر‘‘

اتوار 17 مارچ 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
یہ غالباً 91ء کا قصہ ہے جب صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی عطا کئے جانے کے بعد اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے مجھ سے معمول کا ایک سوال کیا کہ آپ کا اس ایوارڈ کے بارے میں کیا تاثر ہے اور میں نے کہا تھا کہ تمغہ حسن کارکردگی ایک ایسا اصطبل ہے جس میں عربی گھوڑے اور خچر ساتھ ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اس بیان پر مجھ سے پہلے اپنے زور بازو سے ایوارڈ’’حاصل‘‘ کرنے والے ایک دو ادیبوں نے بہت غل مچایا کہ تارڑ نے ہمیں خچر کہا ہے۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے
مزید پڑھیے


’’دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے…تلوک چند محرومؔ‘‘

بدھ 13 مارچ 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
انگریز سرکار کے ابتدائی دور میں جہانگیر‘ آصف جاہ اور نورجہاں کے مقابر ایک دوسرے کی قربت میں تھے۔ جہانگیر کشمیر سے واپسی پر راجوڑی یا بھمبر کے مقام پر 1627ء میں راہی ملک عدم ہوا۔ اس کی شیر افگن سے چھینی ہوئی لاڈلی ملکہ نورجہاں نے شاہی حکیم کو حکم دیا کہ شہنشاہ کو میں اپنے لاہور میں دفن کروں گی چنانچہ حکیم نے شہنشاہ کے بدن میں نشتر لگا کر اسے کھولا اور مردہ بدن کے وہ حصے نکال لئے جو دو چار دن میں گل سڑ جاتے ہیں۔ ان حصوںکو وہیں دفن کر دیا گیا اور وہاں
مزید پڑھیے


’’کامران کی شکست خوردہ بارہ دری‘‘

اتوار 10 مارچ 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
بارہ دری باغ کامران شہر لاہور میں تعمیر کردہ مغلیہ عمارتوں پر قدامت کے حساب سے غالباً سبقت رکھتی ہے۔ مرزا کامران‘ شہنشاہ بابر کا بیٹا اور ہمایوں کا بھائی اس عمارت کا بانی تھا اور تب یہاں صرف بارہ دری نہیں بلکہ اس کے آس پاس ایک شاندار مغل باغ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ جج عبدالطیف نے ’’تاریخ لاہور میں اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’یہ مستحکم و مضبوط پرانی عمارت اپنی عالی شان اور بلند و بالا محرابوں کے ہمراہ دریائے راوی کے دائیں کنارے پر کھڑی ہے۔ یہ عمارت ایک خوبصورت باغ کے وسط
مزید پڑھیے


’’سر گنگا رام کی سمادھی اور راوی کی آلودگی‘‘

بدھ 06 مارچ 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
جن زمانوں میں میری حیات کا تسلسل صبح کی نشریات کی میزبانی تھا ان دنوں میرے پروگرام کیلئے خصوصی طور پر تیار کردہ لاہور ٹیلی ویژن کی جانب سے ایک ایسی ڈاکومنٹری وصول ہوئی جسے دیکھ کر میں اپنی آنکھوں پر یقین نہ کر سکا کہ یہ خواب ہے کہ سراب ہے۔ سرسبز کھیتوں کے درمیان میں ٹرین کے ڈبے ایک پٹڑی پر چلے جا رہے ہیں۔ ان میں مسافر سوار ہیں اور ان ڈبوں کے آگے ریلوے انجن نہیں ہے۔ بلکہ گھوڑے بندھے ہوئے ہیں جو انہیں کھینچتے چلے جا رہے ہیں۔ یا وحشت یہ کیا شے ہے۔ ایک
مزید پڑھیے



’’ہندوستانی ہاتھی اور پاکستانی چڑیا‘‘

اتوار 03 مارچ 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
بعض اوقات کوئی بہت فضول اور عامیانہ سا لطیفہ کسی صورت حال پر یوں منطبق ہوتا ہے کہ مجبوراً اس کا حوالہ دینا ہی پڑتا ہے۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک نامور کبڈی کے کھلاڑی کی بیوی نے عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ حضور میرے خاوند میں وہ خصوصیات مفقود ہیں جو ایک مرد میں ہونی چاہئیں اس لئے میں اس سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ جج نے حیران ہو کر کہا کہ بی بی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ کا خاوند تو بہت تنومند کبڈی کا کھلاڑی ہے۔ اس پر اس
مزید پڑھیے


’’ایک شاندار حُسن والا گھوڑا…کشمیر‘‘

بدھ 27 فروری 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
میری امّی جان اور میری دو عدد خالائیں اپنی روز مرہ کی گفتگو میں محاورے بے دریغ استعمال کرتی تھیں‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ محاوروں میں کچھ کچھ گفتگو کرتی تھیں۔ ہماری زبان یعنی پنجابی کو ایک تو دیگر زبانوں نے زدو کوب کیا اور اس کے علاوہ خود پنجابیوں نے بھی اپنی مادری زبان سے نفرت کی انتہا کر دی۔ بہرحال مجھے ہمیشہ قلق رہے گا کہ میں نے اپنے گھر میں کثرت سے استعمال کئے گئے محاوروں کو محفوظ کیوں نہ کیا۔ ہماری مائیں‘ خالائیں اور پھوپھیاں گئیں تو ان کے ساتھ پنجابی کے
مزید پڑھیے


’’گوروارجن دیو‘ شاہجہاں کی بیٹی اور شوکت خانم‘‘

اتوار 24 فروری 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
شہر لاہور کے بہت سے باسی اکثر موچی دروازے کے اندر واقع ایک قدیم کنویں کے قریب سے گزرتے رہتے ہیں اور وہ اس کنویں سے منسوب دوستی کی ایک لازوال داستان سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ایک مسلمان درویش حضرت میاں میر اور ایک سکھ گورو ارجن دیو کی دوستی کی داستان ۔ یہ کنواں جو ’’لال کھوہ‘‘ کہلاتا ہے البتہ اپنی ذائقہ دار برفی کے لئے دنیا بھر کے لاہوریوں میں معروف ہے اور اس داستان میں یہاں کی برفی بھی ایک تاریخی کردار ہے۔ گورو ارجن دیو حضرت میاں میر کے نہ صرف قریبی دوست تھے بلکہ روائت
مزید پڑھیے


’’حضرت میاں میر‘ چھجو بھگت اور داراشکوہ‘‘

بدھ 20 فروری 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
لاہور تاریخ کے نگار خانے میں ایک عجائب ہے۔ بہت دیوانگی‘ عبادت‘ ریاضت پاکیزگی اور روحانیت کا۔ اس نگارخانے میں ایسی ایسی محیرالعقول داستانیں رقم ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ یقین کس کا کرے۔ تعصب ‘ مذہبی تنگ نظری کا یا فراخ دلی اور انسانیت کے اعلیٰ پیمانوں کا۔ مجھے آج تین الگ الگ داستانیں سنانی ہیں۔ تاریخ اور عقیدے کے تین سب سے بڑے جری اور شاندار کردار اور تینوں کی عظمت اور پارسائی میں کچھ شک نہیں۔ حیرت یہ ہے کہ یہ تینوں اگرچہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمان ہندو اور
مزید پڑھیے


’’بائے بائے بسنت۔ ویلکم ویلنٹائن‘‘

اتوار 17 فروری 2019ء
مستنصر حسین تارڑ
اِک دن رہیں بسنت میں اِک دن جئیں بہار میں اِک دن پھریں بے انت میں اِک دن چلیں خمار میں دو دن رکیں گرہست میں اِک دن کسی دیار میں (منیر نیازی) آپ مشہور پنجابی لوگ گیت’’جگنی‘ کے ان مصرعوں سے تو آگاہ ہوں گے کہ ‘جگنی جاوڑی وچ روہی۔ اوتھے رو رو کملی ہوئی۔ اوہدی وات نہ لیندا کوئی۔ یعنی جگنی روہی کے ویرانے میں چلی گئی اور وہاں رو رو کر کملی ہو گئی اور پھر بھی کسی نے اس کی خبر نہ لی۔ ان دنوں بے چاری بسنت بھی جگنی ہو چکی ہے۔ دشمنوں کے نرغے میں آ گئی ہے۔ روتی ہے فریادیں
مزید پڑھیے








اہم خبریں