Common frontend top

ناصرخان


کیا ہمیں ضرورت ہے ایک نئے روڈ میپ کی؟

اتوار 19 جولائی 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ Words are things ’’لفظ اشیا کی طرح ہوتے ہیں‘‘۔ ان کی اچھی ترتیب ابلاغ کا سبب بن جاتی ہے۔ ورنہ مفہوم اور ابلاغ دُھندلا جاتے ہیں۔ بات مشکل ہے … ہوسکتا ہے ابلاغ ہوجائے۔ ہمارے ہاں جمہوریت، سیاست، سول انتظامیہ اور لیڈرشپ پر مسلسل سوالیہ نشان مارک ہورہے ہیں۔ ماضی کے اسباق … حال کے تجربات۔ مرکزی سطح پر دو ادارے آج کل بڑا موثر پرفارم کررہے ہیں۔ NCOC نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر اور NLCC نیشنل لوکسٹ سنٹر۔ ہمارے وزیراعظم 4 جولائی کے دن NCOC میں گئے اور 10 جولائی کے دن NLCC
مزید پڑھیے


بلا عنوان!

جمعرات 16 جولائی 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
کچھ یادیں، کچھ باتیں اور بہت سی شخصیات آپ کے شعور کی سڑک کب پھلانگ کر لاشعور میں براجمان ہوجاتی ہیں … پتہ ہی نہیں چلتا۔ وقت کی تقسیم میں حال او رماضی یوں گڈمڈ سے ہوجاتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی کے مطابق ’شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات‘۔ غالباً 2005ء کی بات ہے میں جس روزنامے کے لیے کالم لکھا کرتا تھا اس کی خوش قسمتی تھی اور ہماری بھی کہ اس کے اداراتی صفحے کے ایڈیٹر جناب اطہر ندیم صاحب تھے۔ صحافت کے باوقار ناموں میں سے ایک نام۔ ایسے میں برادرم اشرف
مزید پڑھیے


جب تک تم ہو… تب تک تم ہو!

اتوار 12 جولائی 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
انگریزی کا محاورہ ہے It is never too late۔ مگر شاید سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ دو سال ہوگئے Now it is too late۔ مردم شناسی ایک خداداد صلاحیت ہے۔ حکمران میں ہو تو اسے چار چاند لگ جاتے ہیں ورنہ گرہن کا بندوبست تو ہر وقت موجود ہے۔ جب ایک جنگ کے ہنگام میں لکڑیوں کے الائو پر گوشت تیار کیا جارہا تھا تو ایک سپاہی نے گستاخی کی۔ بادشاہ سے پہلے ہی گوشت کا ایک ٹکڑا غالباً خنجر سے کاٹا اور کھانے لگا۔ بادشاہ نے اپنے سپہ سالار سے اشارۃً پوچھا یہ کون ہے؟ گستاخ سپاہی
مزید پڑھیے


مائنس ون یا مائنس سب!

اتوار 05 جولائی 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
کیا ہم سب بھاگتے بھاگتے تھک نہیں گئے؟ پرانی بات ہے کہ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔ کیوں؟ کیونکہ ہم بھاگ رہے ہیں، سرابوں کے پیچھے، کہانیوں کے سنگ۔ کبھی مائنس قائداعظم… اور کبھی مائنس لیاقت علی خان۔ پھر پلس ایوب خان سے مردِ مومن مردِ حق او رپھر مائنس بھٹو اور پھر اور پھر … وہی پرانی کہانی اور وہی پرانا ’’دی اینڈ‘‘۔ رات ملا تھا ناصر مجھ کو تنہا اور اُداس … وہی پرانی باتیں اس کی، وہی پرانا روگ۔ کئی نسلیں آئیں اور تھک کے مر گئیں۔ زوال کا سفر… مسلسل زوال … زوال آ
مزید پڑھیے


جہانگیر ترین سے عمران خان تک!

جمعرات 02 جولائی 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
تاریخ پھر بھی مسکرائے گی جس طرح وہ آج ضیاء الحق، بھٹو، مشرف اور میاں نوازشریف پر مسکراتی ہے۔ ’’کچھ لوگ‘‘ جب بے نظیر سے اُکتا جاتے تو میاں صاحب آجاتے۔ میاں صاحب ڈکٹیشن لینے سے انکار کرتے تو بی بی لانگ مارچ کی دھمکی دے ڈالتیں۔ جب کوئی کہتا ہے کہ خان کا جانا ٹھہر گیا تو جواب آتا ہے ’’آپ کے پاس چوائس کوئی نہیں‘‘۔ ایک پنڈت جن کا رومانس سکرپٹ رائٹرز سے چلتا رہتا ہے۔ کہنے لگے ’’چوائس ہمیشہ موجود ہوتی ہے‘‘۔ ورنہ وہ خان کو ہیوی مینڈیٹ نہ دلادیتے۔ وہ کیا کسی شاعر نے کہا ہے
مزید پڑھیے



فواد چودھری سے جہانگیر ترین تک

اتوار 28 جون 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
سرمایہ دارانہ دنیا کے بنائے ہوئے دانش وروں کا خیال ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ بالکل بوگس اور فلاپ شدہ ڈاکٹرائن ہے۔ یہ بنائی اس لیے گئی کہ جب عامیوں کا استحصال سے دم گھٹنے لگے تو الیکشن کے ذریعے پریشر ککرسے بھاپ نکال کر اسے دوبارہ آگ پر رکھ دیا جائے حکمران طبقات کے لیے نیا کڑاہی گوشت بننے کے لیے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے۔ مگر وہ ملک جسے پاکستان کہتے ہیں کا جی سنبھل نہیں رہا۔ بات بگڑ رہی ہے ۔ کیوں اور
مزید پڑھیے


نہرو، چین… اور مودی!

اتوار 21 جون 2020ء
ڈاکٹر ناصرخان
اکتوبر 1962ء کا ایک خوبصورت دن تھا۔ نستعلیق لکھنوی انداز کی شخصیت کے حامل بیرسٹر عباس صدیقی کافی کی چُسکیاں لیتے ہوئے گراموفون پر بڑے غلام علی خاں کی آواز میں ایک ٹھمری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اچانک چوکیدار اندر داخل ہوا… اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور ہیجان اس کی باڈی لینگوئج سے عیاں تھا۔ ’’سرکار چین نے ہندوستان پر حملہ کردیا‘‘۔ بیرسٹر صاحب نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا۔ گراموفون بند کردیااور کہنے لگے ’’دیکھو … گھر کا گیٹ بند کردو‘‘۔ عباس صاحب لکھنؤ میں واقع گورنر ہائوس کے سامنے ایک سٹائلش
مزید پڑھیے


پنڈت، کنڈلیاں اور پاور پلے!

جمعه 22 نومبر 2019ء
ڈاکٹر ناصرخان
کرنٹ افیئرز کا بازار گرم ہے۔پولیٹیکل سٹاک ایکسچینج میں نجوم اور پیشگوئیوں کا سیلاب عروج پر ہے۔ اگر ہندو ودیا کے مطابق زائچہ نکالا جائے تو راہو اور کیشو کے اثرات کنڈلی کے پہلے گھر میں بیٹھے خان کو کافی ستا رہے ہیں اور رات کو خواب میں استاد نذر حسین اپنی ایک دھن کا حوالہ دے کر بار بار نظر آتے ہیں۔ دھن کے بول اب خان کو یاد ہوتے جارہے ہیں … ’’ستا ستا کہ ہمیں اشک بار کرتے ہیں‘‘۔ ایسے میں وہ پنڈت جو ماہرین کنڈلی ہیں وہ کچھ بوٹیوں کو جلا جلا کر ان کے دھوئیں
مزید پڑھیے


ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

اتوار 10 نومبر 2019ء
ڈاکٹر ناصرخان
مولانا کے ساتھ نہ بلاول ہے نہ میاں شہباز۔ بلاول کے والد بیمار ہیں… شدید بیمار۔ انہیں بھی وہیں سہولتیں اور نرمیاں درکار ہیں جو چھوٹے میاں صاحب … بڑے میاں صاحب کے لیے حاصل کرلینے میں کامیاب رہے۔ منطق کے عین مطابق ایسے میں مولانا کو سیاسی طور پر تنہا ہوکر ریورس گیئر لگالینا چاہیے تھا مگر مولانا مستقل مزاجی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ مولانا بلف کر رہے ہیں یا مولانا کے پاس واقعی ترپ کا پتہ ہے۔ دھرنے کی جو وجوہات تھیں ان کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بلکہ سکرپٹ سے
مزید پڑھیے


کنفیوژن!

اتوار 03 نومبر 2019ء
ڈاکٹر ناصرخان
مولانا دھرنا کیوں دے رہے ہیں؟ اس سوال کا بڑا معصوم سا جواب ہے، خان کے استعفے کے لیے۔ ہمارے ہاں سازشی کہانیوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ یہاں تک کہ میاں نواز شریف جینوئن بیمار ہوجائیں تو سوشل میڈیا ججوں اور ڈاکٹروں کو کوسنے لگتا ہے۔ ہم ہر واقعے میں … ہر حرکت میں … یہاں تک کہ بیماری میں بھی غیبی قوت اور اشارے تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت خوانچہ فروش سے سوشل میڈیا تک اور ڈھابوں سے فائیو سٹارز لابیوں تک مولانا کے الٹی میٹم کے حسن اور حسن بیاں کے چرچے ہیں۔ مکالموں کی ہیئت کچھ
مزید پڑھیے








اہم خبریں