Common frontend top

BN

ناصرخان


تیرے بھی صنم خانے … میرے بھی صنم خانے


قرۃ العین کا آگ کا حیران کن ناو ل آگ کا دریا پڑھتے ہوئے بار بار خیال آرہا تھا کہ بعض لکھاری زمان و مکان کی حدود توڑ کر لکھتے ہیں۔ یہ تحریر بھی زمانوں بلکہ قرنوں پر محیط ہے۔ یہ تاریخ اور وقت کو برصغیر کے جغرافیہ سے منسلک کررہا ہے۔ یہ چوتھی صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے اورآزادی کے بعد تک چلتا ہے۔ اس کے کردار، اپنے اپنے عہد سے منسلک ہیں۔ لگتا ہے زمان و مکان میں اور گزرے عصر میں گندھے ہوئے ہیں۔ پھر اخبار کے کالم کی طرف رخش خیال پلٹتا ہے۔ کرنٹ افیئرز،
اتوار 05 مئی 2019ء مزید پڑھیے

کہانیاں، سکرپٹس اور ایکٹرز!

جمعه 03 مئی 2019ء
ناصرخان
بات ہورہی تھی ان کہانیوں کی جو اسلام آباد سے راولپنڈی تک محو پرواز ہیں۔ ممکنہ سکرپٹس کی اور نئے پرانے ان ایکٹرز کی جو ان ممکنہ کہانیوں میں اپنا کردار نبھائیں گے۔ بات صدارتی نظام کی بھی ہوئی اور بنیادی جمہوریتوں کی بھی۔ ٹیکنو کریٹس کی بھی اور اسمبلیاں توڑ کر نگران حکومت کا ڈول ڈالنے کی بھی۔ پھر یہ کہ اس سیاسی ٹیلرنگ کے ہنگام میں کہانیوں اور سرگوشیوں کے آس پاس کچھ عالمی حقیقتیں بھی ہیں اور باقی وہ جو ہمارے پڑوس میں کھڑی ہمیں مسلسل گھور رہی ہیں۔ بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات تہہ
مزید پڑھیے


کہانیاں، سکرپٹس اور ایکٹرز

اتوار 28 اپریل 2019ء
ناصرخان
پرانے زمانے کی بادشاہتوں میں محلوں کے اندر غلام گردشیں ہوا کرتی تھیں۔ ان غلام گردشوں میں سازشیں، سرگوشیاں اور پھر کہانیاں جنم لیا کرتی تھیں۔ غلام گردشیں خلافت عثمانیہ کی ہوں کہ بنو عباس کی، سلاطین دہلی کی ہوں یا مغل بادشاہت کی، بنواُمیہ کی ہوں یا رومن ایمپائر کی، کہانیوں کی ابتدا سرگوشیوں سے ہوتی ہے۔ سرگوشیاں … سازشیں اور کہانیاں۔ ہمارے ہاں بھی آج کل راولپنڈی سے اسلام آباد تک کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ کیا لکھوں؟ کیا نہ لکھوں؟ اب بات بزدار، محمود خان،چودھری سرور اور چودھری پرویز الٰہی سے ذرا آگے کی ہے۔ بات وزیر اعظم
مزید پڑھیے


ٹریجڈی آف بیوروکریسی!

جمعرات 25 اپریل 2019ء
ناصرخان
1947ء میں جو بیوروکریسی پاکستان کے حصے میں آئی وہ سیاستدان کے مقابلے میں خاصی بالا دست اور خود مختار تھی۔ سیاستدان کی پرورش انگریز کا مقابلہ کرتے گزری۔ بیوروکریٹ گوروں کے ساتھ مل کر ملک چلاتا تھا۔ تقسیم کے بعد رفتہ رفتہ انگریز کے تربیت یافتہ منظر سے ہٹتے گئے اور پھر بات آپ سے پھر تم ہوئی اور پھر تو کا عنوان ہوگئی۔ زوال آیا تو پھر پورے کمال سے آیا۔ قدرت اللہ شہاب، ایچ یو بیگ اور آفتاب احمد جیسے بیوروکریٹ بھی متنازعہ ہوتے ہوں گے مگر احد چیمہ، فواد حسن فواد اور اکرم چیمہ جیسوں کی
مزید پڑھیے


ڈیپ سٹیٹ

اتوار 21 اپریل 2019ء
ناصرخان
کائنات کا رب فرمارہا ہے: ’’ برابر نہیں ہوتااندھا اور دیکھنے والا۔ نہ برابر ہوتا ہے اندھیرا اور اُجالا‘‘۔ایک ہوتی ہے بصارت اور ایک ہوتی ہے بصیرت۔ سیاست پر ہر کس و ناکس بحث میں مصروف ہے۔ واقعات پر بھی اور شخصیات پر بھی۔ معلومات پر بھی اور نتائج پر بھی۔ گرد خاصی اُڑ رہی ہے۔ عرض کرتا رہتا ہوں پاکستان ایک ڈیپ سٹیٹ ہے۔ یہ بھی کہ جو ہور رہا ہوتا ہے اس کے دھاگے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ہمارے بھائی لوگ کیا بحث کر رہے ہیں؟ اسد عمر کو کیوں
مزید پڑھیے



پنجاب کا نیا وزیر اعلیٰ؟

اتوار 14 اپریل 2019ء
ناصرخان
دل تو چاہ رہا تھا کہ آج لکھا جائے دنیائے روحانیت کے کسی نام پر … اس کے میٹا فزیکل افکار پر … اس کے مادی دنیا پر اثرات و نتائج پر … دل یہ بھی چاہ رہا ہے کہ اس جمہوریت نامی حسینہ کے حسن و ادا، عشوہ غمزہ، زلف و رخسار پر بات کی جاتی جس کی دانشور دن رات تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ مغربی جمہوریت دراصل ایک Myth ہے۔ اکثریت کو دی جانے والی چوسنی ہے۔ معاشرے بددعائے ہوں، نیتیں فتور زدہ ہوں تو… خیر یہ کہانی پھر سہی۔ قلم مجھے دھکیل کر پنجاب کے اس پاور
مزید پڑھیے


ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک!

اتوار 07 اپریل 2019ء
ناصرخان

ارشاد ہے ’’ یاد رکھو … سمجھ لو کہ قضا و قدر کے ہر حکم کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسباب رکھے ہیں‘‘۔ یونان کے ہی ایک مفکر نے ہزاروں سال پہلے کہا تھا کہ انسان کا مزاج ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔وقت کی سان پر یہ باب کھلا کہ یکساں حالات میں ایک جیسے مزاج میں، ایک جیسے عروج میں اور زوال میں شخصیات کے ردِ عمل ہی نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ نتائج تقدیر بن جاتے ہیں۔ ابن خلدون جیسا تاریخ دان پھر قوموں کے عروج و زوال کے اسباب لکھتا ہے۔ قوموں اور انسانوں میں جزو اور
مزید پڑھیے








اہم خبریں