سیاست تو سبھی سیاست دان کرتے ہیں مگرnext level پر اسے تحریک انصاف لائی۔بلاشبہ بہترین تھا۔ غازی بروتھا میں عمران خان کا طریقہ دل کو بھا گیا۔چھوٹی سی مگر مسحور کن بیٹھک۔ چند کسان نمائندے اور ان کے درمیان ایک عوامی لیڈر۔اب کوئی شو بازی کہے یا کچھ اور۔ پھر کون ہے جس نے شو بازی نہیں کی۔ کوئی ایک؟ بچپن سے لڑکپن اور اب جوانی کا دور، یہی تو دیکھا ہے۔ پولیس گاڑیوں کا قافلہ، مسلسل بجتے ہوٹر، ہٹو بچو، ورنہ راستے میں آنے والا کسی زمینی کیڑے کی طرح مسل دیا جائے گا۔ ایسے میں جان کس کو پیاری نہیں۔ کم از کم درجن بھر پروٹوکول گاڑیاں تو لازم ہیں ،ورنہ بادشاہ سلامت کی شان بارے کیسے معلوم پڑے گا۔ مسلح گارڈز کے جتھے، تنی بندوقیں، رعونت ایسی جیسے اسی لمحے کوئی قلعہ فتح کیا ہو۔ اس ریت رسم کو عمران خان نے توڑا۔ چند روز قبل کشمالہ طارق کے پروٹوکول کی گاڑیوں سے چار جانیں کیڑوں کی مانند مسل دی گئیں۔ یہاں بھی وہی المیہ، ہٹو بچو۔معاملہ اس بات پر ختم کر دیا کہ ستم زدہ گھرانوں نے اللہ کے واسطے معافی دے دی۔ ہارون الرشید صاحب نے بڑی پیاری بات کی۔ کہتے ہیں 'چھوڑیں جی، اللہ واسطے بھی کوئی معاف کرتا ہے؟' کوئی کچھ بھی کہے۔تسلیم کرنا پڑے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کوئی عوامی لیڈر بن کر ابھرا، عوام کی آواز پھر سے بنا وہ موجودہ وزیراعظم عمران خان ہیں۔کئی باتوں پر اختلاف یقینا کیا جا سکتا ہے اور کسی حد تک مجھ نا چیز کو بھی ہے۔ اختلاف کا بیڑا کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کا جو نعرہ لگایا تھا وہی ان کی عوامی پذیرائی کی وجہ بنا۔ خلق خدا کی آواز حکام بالا سننے سے عاری تھے مگر ذوالفقار بھٹو نے اس رواج کو بھی توڑا۔ مقبولیت کا جو گراف بھٹو نے پایا آج سندھ تک محدود رہ جانے والی پیپلزپارٹی اس سے محروم ہے۔ ن لیگ میں سرے سے عوامی لیڈرنہ مل سکا۔دوسری رائے نہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کی بنیادیں بذات خود ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے ہی ڈالیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ناکامی ہی عمران خان کی کامیابی کی وجہ بنی۔پاکستانی قوم کو ریلیف چاہیے، روزگار چاہیے، مہنگائی کا جن بوتل میں اور خوشحالی کی دستک گھر کے دروازے پر چاہیے۔ ایسے میں عمران خان کا 'تبدیلی ' کا نعرہ فرحت کا باعث کیوں نا بنے۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کھلاڑی کے ساتھ آ ملا۔بلین ٹری منصوبہ عمران خان نے متعارف کروایا۔اس پر عمل بھی ہوا اور دنیا کے بڑے ، معتبر اخبارات نے اس کی تعریف بھی کی۔ حریف کچھ بھی کہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک کامیاب منصوبہ تھا۔ ماحولیات سے منسلک رپورٹس بیان کرتی ہیں کہ ہم کس قدر آلودہ فضا میں زندہ ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ آلودگی کا مارا شہر لاہور ہے۔ لگتا ہے کسی نا معلوم جگہ پر باغوں کے شہر کی خوبصورتی دفن ہو چکی۔ کیا خوب کہا گیا "نئیں ریساں شہر لاہور دیاں" کسی ملک میں اسموگ 300 کا فگر چھو جائے تو ایمرجنسی کا نفاذ لازمی ہے۔ دفتر، اسکول بند کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ چار روز قبل لاہور کے عین وسط میں ائیر کوالٹی انڈیکس 560 کی سطح کو کراس کر رہا تھا۔ پرواہ کسے!عمران خان نے اس معاملے کی حساسیت کو جانا۔ سیمنٹ سریے کی بجائے لاہور میں میاواکی فاریسٹیشن میتھڈ ' کے تحت سر سبز لاہور پراجیکٹ کا آغاز کیا جبکہ ملک بھر میں درخت لگانے کا ہر ایک سال میں ٹارگٹ متعین کیا۔ احتساب کا معاملہ جس سے انتقام کی بو بھی آنے لگی ہیں۔ مگر کیا یہ پہلی بار نہیں کہ عوامی عہدوں پر دہائیوں سے بیٹھے،سیاہ سفید کے مالک سیاست دان کٹہرے میں لا کھڑے کئے۔ جن کے بارے تصور بھی مشکل تھا۔قبضہ مافیا اس ملک میں صرف مضبوط ہوا اور اس قدر کہ سرکار کی زمینیں تک نگل گیا۔ اربوں مالیت کی زمیں پر گھر تعمیر ہو گئے۔ وارث ہونے کے باوجود لاوارثوں کی سی حیثیت۔ گریبانوں تک ہاتھ اسی حکومت نے ڈالا۔ کسی جگہ شہید کی زمیں پر مافیا نے ہاتھ صاف کئے تو کوئی بیوہ کو در بدر کر گیا۔ قبرستانوں تک کی زمیں پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ عمران خان حکومت نے ہی اقدام اٹھایا اور زمین واگزار کرانے پر مسلسل حکومتی مشینری گامزن ہے۔ان ایشوز پر عمران خان ایک ماہر کھلاڑی کی طرح سیاسی کھیل کےnext level پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن، بیشتر اہم معاملات پر طرز حکمرانی دیگر گھاک سیاست دانوں جیسا ہے۔ سول اداروں میں جیسے سسٹم چلتا آ رہا ہے اسی کو ابھی بھی گھسیٹا جا رہا ہے۔عمران خان نے جس قدر اصلاحات کی بات کی اسی قدر عمل سے اجتناب بھی برتا۔ پولیس سیاسی پروٹوکول سے تو ہٹی مگر ریفارمز اور غیر سیاسی ہونے سے بھی ماضی کی طرح بہت دور ہے۔ جو سسٹم خیبرپختون خواہ میں اپلائی کیا وہ پنجاب میں برتنے سے اجتناب کیوں؟اپنے ذاتی دوستوں کے لیے احتساب کا وہی عمل جو مخالفین کے لئے ہے اپنانے سے گریزاں نظر آتے ہیں عموما کسی بھی گیم کا مزا اور دلچسپی تب تک برقرار رہتی ہے اگر ایک کے بعد ایک نیا مرحلہ عبور کیا جائے۔ سیاست کا کھیل بھی کچھ ایسا ہے جس میں لیڈر جب تک عوام کی امنگوں پر پورا اترتا رہے اس کی کامیابی طے ہیں لیکن جس لمحے یہ احساس زور پکڑ گیا کہ عمران خان اب کسی ایک مرحلے پر رک گئے ہیں وہیں سے جذبے ختم ہونے لگیںگے۔ابھی بھی تحریک انصاف کی مقررہ آئینی مدت کا کچھ عرصہ باقی ہے، اسی ڈگر پر گر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے تو وقت دور نہیں جب 'تبدیلی ' کےnext level کو اپروچ کر لیا جائے گا۔