2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

احتجاج ،حکومت اور پولیس:غلطی کہاں؟

اشرف شریف
18-10-2024

کئی دن سے دو کالموں کی آئوٹ لائنز بنا رکھی ہیں۔ مصروفیات کے باعث لکھا ہی نہیں گیا۔ اس دوران تواتر کے ساتھ حسب معمول ملک میںنئے بحران سامنے آتے رہے۔ ایک معاملہ فیک نیوز کی بحث ہے۔ ایک بچی کے ریپ کی خبر سے جڑا یہ معاملہ پورے پنجاب میں پھیل گیا ہے۔اس واقعہ درست یا فیک کی بات الگ لیکن اسی دوران لاہور کی دو سرکاری جامعات سے بھی ایسی خبریں ملیں جن سے تعلیمی اداروں میں طالبات کو لاحق عدم تحفظ کا احساس ہوا۔ یہ واقعات اور ان پر احتجاج اس لئے مزید تشویش کا باعث ہے کہ پولیس اور حکومت کے موقف پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔احتجاجی بچے ان کا یقین کرتے تو احتجاج جاری نہ رہتا۔ یہ ایک نیا بحران ہے جس میں قانون‘قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامیہ اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ اس صورت حال کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ پولیس ان فرنٹ لائن حکومتی اداروں میں سے ایک ہے جو قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی مشکل حالات میں شہریوں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ لڑائیکا وقت ہو یا امن، قانون نافذ کرنے والے اہلکار اپنی ذمہ داریوں، جیسے امن عامہ اور سلامتی کو برقرار رکھنے، جرائم کی روک تھام اور ان کا پتہ لگانے اور عام لوگوں کو مدد فراہم کرنے کی وجہ سے انسان دوست سمجھے جاتے ہیں ۔ انہیں جو اختیارات دیے گئے ہیں، جیسے گرفتاری اور نظر بندی، تلاشی ، ضبطی اور طاقت کا استعمال، یہ بہت ناگزیر حالت میں انہیں استعمال کرتے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی برسوں سے پولیس اور عوام کے اعتماد میں کمی کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔وجہ یہ ہے کہ پولیس کا نام قبضہ گروہوں، منشیات فروشوں،رشوت خوروں ،عوام پر جبر کرنے والوں اور جذبہ ہمدردی سے عاری شناخت سے جڑا ہوا ہے۔پولیس طاقتور افراد کی غلامی کرتی جبکہ غریب آدمی پر ڈنڈے برساتی ہے۔ حکومت اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی مختلف کوششوں کے باوجود، پاکستان میں پولیس فورس کو پیشہ ورانہ مہارت، احتساب اور شہریوں کو خدمات کی فراہمی کے حوالے سے اب بھی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ پولیس کے محکمے کو اکثر جرائم سے نمٹنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے میں ناکارہ، غیر موثر اور بدعنوان ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس سے اعتماد کا شدید خسارہ پیدا ہوتا ہے ۔پولیس روئیے میں بہتری یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔حالیہ برسوں میں، پاکستان میں پولیس اصلاحات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، جس میں شہریوں کو خدمات کی فراہمی کا معیار بہتر بنانے پر خصوصی توجہ کا تقاضا کیا جارہا ہے۔پولیس اہلکاروں کی تربیت میں کمی، ناکافی وسائل اور شکایات کے ازالے کے غیر تسلی بخش طریقہ کار جیسے اہم نقائص کو دور کیا جانا چاہئے ۔ شہریوں کو پولیس کی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے نہ صرف تکنیکی اور آپریشنل تبدیلیوں کی ضرورت ہے بلکہ پولیس فورس کے کلچر اور ذہنیت میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ توجہ ایک زیادہ پیشہ ور، جوابدہ اور کمیونٹی پر مبنی پولیس فورس کی تعمیر پر ہونی چاہیے جو شہریوں کی حفاظت اور خدمت کے لیے وقف ہو۔لیکن موجودہ سیاسی قیادت اور اس کی پولیس فورس میں یہ ادراک مفقود ہے۔ محکمہ پولیس پر عوام کا اعتماد خاص طور پر اس کی ساکھ سے پیدا ہوتا ہے، اعتماد پیدا کرنے والے دو اہم اجزاء ہیں ۔ کارکردگی اور رویہ۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ پولیس ان کے مقدمات کو حل کرنے اور ان کی مسروقہ اشیا کی بازیابی میں موثر ثابت ہوگی۔ مزید برآں، چونکہ لوگ عام طور پر تکلیف کے وقت پولیس سے رجوع کرتے ہیں، اس لیے وہ ڈاکٹروں کی طرح ان سے بھی خیال اور تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے، اگر پولیس بے حسی یا بدتمیزی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس سے ایک منفی تصویر بن جاتی ہے جو اعتماد کو مزید نقصان پہنچاتی ہے۔جیسا کہ طلبا احتجاج کے دوران پولیس نے اپنی منفی تصویر بنائی۔ حکومتی شخصیات کو مختلف قسم کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ قدرتی آفات اور ماحولیاتی خطرات، مالیاتی خرابی ،ر دہشت گردی کے حملے، وبائی امراض ،بم دھماکے اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی ناکامی۔موجودہ حکومت اور اس سے پہلے والی چار حکومتوں کو عوام سے رابطے اور اپنا درست چہرہ عام آدمی تک پہنچانے کا چیلنج رہا ہے۔حالیہ واقعات معمول کے نہیں ہیں ۔ اس بحران میں ناقابل فہم واقعات ہیں جو اکثر سیاست دانوں، شہریوں اور رپورٹرز کو مکمل طور پر حیران کر دیتے ہیں۔حکومت اپنی ساکھ بحال نہیں کر پا رہی، اس کے لئے وہ پولیس کو استعمال کرتی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ عام آدمی دونوں سے بیزار ہو گیا۔ اب کوئی انہیں فیک نیوز کے ذریعے آسانی سے حکومت کے خلاف ابھار سکتا ہے۔ بحران اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ایک قوم بنیادی اقدار یا باوقار زندگی کے لئے فوری خطرہ محسوس کرتی ہے ۔اس سے گہرا غیر یقینی پن پیدا ہو جاتا ہے۔حالیہ ڈرامائی واقعات حکومتاور اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے ہیں۔ کسی بحران کے دوران، حکومت اور سرکاری اداروں کو اہم مسائل پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہین ہوتا،بس ڈنڈا چلایا جاتا ہے، یہ سمجھے بنا کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ سوچنے، مشورہ کرنے اور فیصلوں کو قبول کرنے کا وقت بہت محدود ہوتا ہے۔ حکومتوں اور رہنماؤں کو ایسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن کا انہیں روزانہ کی بنیاد پر سابقہ نہیں پڑتا ، مثال کے طور پر فوج کی تعیناتی، مہلک طاقت کے استعمال، یا شہری آزادیوں پر پابندی سے متعلق۔ بحران سے متعلق فیصلہ سازی توجہ کا تقاضا کر رہی ہے جس میں بڑے سیاسی خطرات شامل ہیں۔ایک مؤثر جواب کے لیے بین الحکومتی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر فیصلے کیمؤثر نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اس کے ماتحت ادارے عوام سے ٹکراو والے امور پر خود کو جوابدہ سمجھیں۔پولیس اہلکاروںکو بحرانی حالات کے مطابق ڈھالنا ایک مشکل کام ہے ۔کچھ کہتے ہیں کہ ناممکن ہے۔ زیادہ تر ادارے اصل میں منصفانہ، قانون پسندی اور کارکردگی جیسی اقدار کے مطابق معمول کے امور چلانے کے لیے بنائے گئے تھے تاہم، بحران سے نمٹنے کے لیے لچک، اصلاح، اور قواعد کی خلاف ورزی روکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بحران سے نمٹنے کے لئے یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ باس کون ہے۔ انچارج کون ہے کا سوال عام طور پر زبردست جذبے کو جنم دیتا ہے۔یہ باس کوئی عقل والا نہیں ہوگا تو مسائل کم ہونے کی بجائے عوامی اشتعال کا باعث بنیں گے۔ میڈیا کی نئی صورت گری ہوئی ہے۔حکومتوں نے مین سٹریم میڈیا کو کمزور کیا جہاں چیک اینڈ بیلنس موجود ہے۔دوسری طرف سوشل میڈیا عوام کے اندر پھیل چکا ہے۔ملک میں ایک سیاسی ہیجان موجود ہے ،اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔یہ سوشل میڈیا حکومتوں اور مرکزی میڈیا کی توجہ سے محروم لوگوں میں ساکھ بنا چکا ہے ،یہ ساکھ اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ کوئی بھی ایسی خبر جس کی حکومت تردید کرتی ہے لوگ اسے درست مان لیتے ہیں۔