اخبار پڑھنے کا قومی دن
عبداللہ طارق سہیل
آج اگر سوشل میڈیا کی بجائے اخبارات کی خبروں پر انحصار کیا جاتا تو سانحہ سندھ رونما نہ ہوتا۔ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سوشل میڈیا بے راہ روی کا شکار ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قابل اعتماد اور درست خبر اور معلومات کے ابلاغ کیلئے پرنٹ میڈیا کو اب بھی سب سے معتبر مانا جاتا ہے۔ ملک کے عوام میں مطالعہ کی عادت کو بیدار کرکے جھوٹی خبروں کے سیلاب کو روکا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کے قیام کیلئے آزاد اور خود مختار میڈیا انتہائی ضروری ہے۔ خود مختاری کیلئے میڈیا کو اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ آج جبکہ اخبارات میں حکومتی عمائدین کے پیغامات شائع کئے گئے اس موقع پر اخبارات سے وابستہ کسی غریب عامل صحافی اور کسی غریب ہاکر کا پیغام شائع ہونا چاہئے تھا کہ عہدہ اور منصب کچھ نہیں، اصل بات عمل کی ہے۔ پیغامات دینے والے حضرات کی تصویروں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہی قتل بھی کرے اور وہ لے ثواب الٹا۔ فرسودہ روایات کو بدلنے کیلئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پرنٹ میڈیا کی اہمیت سرائیکی کہاوت ’’لکھیا لوہا الایا گوہا‘‘ سے بھی واضح ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ زیادہ دیرپا ہوتے ہیں اور اخبار کی چھپائی دراصل دنیا بھر میں ہونیوالے واقعات کی تاریخی دستاویزات ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں خبروں کو تیزی سے پھیلارہا ہے۔ایسے میں اخبارات اپنے ادارتی نگرانی اور بیرونی محتسب کے روایتی طریقہ کار کی وجہ سے اب بھی معلومات فراہم کرنے کا زیادہ معتبر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ حکمران سابقہ ہوں یا موجودہ سوشل میڈیا سے پریشان رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی نہ کوئی ساکھ ہے نہ ذمہ داری ہے جبکہ اخبارات آج بھی خبر ذمہ داری سے شائع کرتے ہیں کہ خبر کی اشاعت کا ان کے پاس ایک سسٹم ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخبارات کی اشاعت کم ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نیٹ پر آج بھی اخبار پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخبارات کا مطالعہ نہ صرف ہمیں اچھی طرح با خبر رکھتا ہے بلکہ ہمیں دنیا کے موجودہ حالات اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق مسائل پر بحث میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔اخبار قارئین کو ہر روز باقاعدگی سے دنیا میں ہونیوالی تمام تازہ ترین خبروں اور واقعات سے با خبر رکھنے کا اہم ترین اور قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ یہ ہمیں ملک اور دنیا بھر کے حقیقی واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ اخبار میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے بہت سے مفید سیکشن ہوتے ہیں جیسے سیاسی خبریں، ٹیک نیوز، کھیلوں کی خبریں، کامرس اور کاروبار کی خبریں، اداریے اور پہیلی کھیل۔ اس کے ساتھ اب اخبارات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی مسائل کو جاگر کریں۔ ٹی وی چینل پر کرنٹ افیئر پر بہت بات ہو رہی ہے ، اب اخبارات جہاں جہاں سے شائع ہوتے ہیں وہاں کی تہذیب، ثقافت اور وہاں کے آثار کے ساتھ ساتھ مقامی زبان کے ادب و ترقی کیلئے کام کریں۔ اخبارات پڑھنے کے کئی فوائد ہیں جن کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اخبار روزانہ کی بنیاد پر معلومات کا ایک خزانہ فراہم کرتا ہے۔ ہر صبح، ہم ایک کپ گرم چائے کے ساتھ اخبار پڑھتے ہیں۔ اخبار پڑھنے کے ساتھ ہم ہمیشہ اپنا الفاظ ذخیرہ، پڑھنے کی مہارت، علم اور حکمت میں اضافہ کرتے ہیں۔اخبارات نے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ اخبارات لوگوں کو موجودہ معاملات سے آگاہ کرنے اور ان کے بارے میں تجسس رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ جب عوام سوال کریں گے، اس کا مطلب ہے کہ وہ آگاہ ہیں۔ اخبارات بالکل یہی کام کرتے ہیں۔ اخبارات لوگوں کو ہر تفصیل فراہم کرتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اخبارات ہمیں زیادہ با خبر شہری بننے میں مدد دیتے ہیں۔ آج اخبارات کو خود اپنے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخبارات اہم مسائل پر پالیسی سازوں تک رائے عامہ پہنچاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کو حکومت اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح اخبارات سے لوگوں کو روزگار کے زبردست مواقع ملتے ہیں۔ نوکری کے خواہشمند افراد روزگار کے قابل اعتماد مواقع جاننے کیلئے اخبارات کی طرف دیکھتے ہیں۔ آج لاکھوں کی تعداد میں اخبارات کے ملازم بیروزگار ہو گئے، اخبارات کو دوسروں کی آواز بننے کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں کے بیروزگاروں کیلئے بھی آواز بلند کرنا ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخبارات مٹی کے مادہو کی خبریں شائع کرکے اسے قومی رہنما بنا دیتے ہیں مگر اخبارات نے اپنے طور پر یہ طے کیا ہوا ہے کہ کسی صحافی کا بیان شائع نہیں کرنا اور کہا جاتا ہے ہاں البتہ اُس صورت کی تین سطریں خبر شائع ہو سکتی ہے ، اُس کے مرنے پر۔ آج جب اخبارات کے مطالعہ کا قومی دن منایا جا رہا ہے تو انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے اخبارات کو اپنے اوپر لاگو کی گئی فرسودہ روایات کو ختم کر دینا چاہئے ورنہ جہاں اخبار پڑھنے والے لوگ ختم ہو گئے، وہاں ہم جیسے اخبار دیکھنے والے لوگ بھی باقی نہیں رہیں گے۔ اخبارات کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پیسہ اخبار 1887ء میں منشی محبوب عالم نے فیروز والا سے جاری کیا بعد میں اسے لاہور لایا گیا۔ 8 صفحات کے اس اخبار کی قیمت ایک پیسہ تھی۔ اُس وقت اخبار کو عوامی پذیرائی حاصل تھی۔ اخبار بینی کے عالمی دن کے موقع پر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اخبارات کیلئے وہی حالات پیدا کرنے کی پھر سے ضرورت ہے۔