امجد بخاری کے جنگ نامہ کی پذیرائی
ظہور دھریجہ
امجد بخاری ملتان کے سینئر صحافی ہیں ، اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتے ہیں ، ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے صحافت میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔ ان کی کتابوں ’’قبول عام‘‘ اور ’’زبان خلق‘‘ کو وسیب میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی مگر ان کی تاریخی کتاب 1857ء کی جنگ عظیم کے حوالے سے ہے ۔ جس پر ہم بات کریں گے ۔ چودھری ذوالفقار انجم صاحب مبارکباد کے حقدار ہیںکہ انہوں نے امجد بخاری کی قلمی نگارشات کیلئے پذیرائی کا اہتمام کیا ہے ۔ کتاب بارے گفتگو سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سینئر صحافی عامر خاکوانی نے دو قسطوں میں تحریک انصاف کو سرائیکی صوبے کے وعدے اور وسیب کی محرومیوں کے حوالے سے یاد دہانی کرائی ہے ، انہوں نے بڑی درد مندی اور تفصیل کے ساتھ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی توجہ سرائیکی صوبے اور وسیب کے مسائل کی طرف مبذول کرا کر اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ فرض منصبی اور ذمہ داری ان ارکان اسمبلی کی نہیں جو وسیب سے ووٹ لیکر اسمبلیوں میں جاتے ہیں؟ اس جملہ معترضہ کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ’’معرکہ1857ء اور جنوبی پنجاب‘‘ کے نام سے امجد بخاری نے تاریخی اہمیت کی حامل کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب انگریز کے وفادار سرداروں ، جاگیرداروں ، تمنداروں ، گدی نشینوں اور انگریز کے سول و ملٹری بیورو کریسی میں شامل ’’غلاموں‘‘ کے اس کردار کو ظاہر کرتی ہے جو کہ سرائیکی وسیب کے زمین زادوں اور حریت پسندوں کے خلاف ادا کیا گیا ۔ یہ کردار آج بھی جاری ہے۔ مقصد کرسی ، اقتدار اور عہدہ ہے ، آج بھی ان کا طواف اقتدار کے قبلے کی طرف سے اپنی دھرتی ، اپنی مٹی ، اپنے وسیب ،اپنی زبان ،اپنے کلچر اور وسیب کے لوگوں سے ان کا تعلق محض ووٹ کی حد تک ہے ، ان کے اسی کردار کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ پیارے بھائی امجد بخاری نے اپنی اس کتاب کا نام ’’معرکہ1857ء اور جنوبی پنجاب‘‘ رکھا ہے ۔ امجد بخاری کی اس کتاب میں 1857ء کے ڈویژنوں کا ذکر ہے ۔ اس میں آج کا ضلع لیہ ڈویژن ہے اور اس میں ضلع خانگڑھ ، ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان ہمیشہ سے سرائیکی وسیب کا حصہ ہے ، وہاں یہ بھی حقیقت واضح ہوئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان ، میانوالی ، بھکر ، خوشاب اور ٹانک وغیرہ سرائیکی وسیب کے ایسے اضلاع ہیں جو پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سرائیکی قوم سے وطن چھینا گیا ، ملکوں کے جغرافیے تبدیل ہوئے ، صوبائی اور انتظامی حد بندیاں تبدیل ہونے کے باوجود اس کی ثقافت اور زبان کو نہیں چھینا جا سکا کہ یہ ہوا اور خوشبو کی مانند ہوتی ہے ، آپ پھول کو توڑ سکتے ہیں ، مسل سکتے ہیں اور کسی کال کوٹھی میں قید بھی کر سکتے ہیں مگر اس کی خوشبو کو قید نہیں کر سکتے ، اس کا نام ثقافت ، پہچان اور خوشبو ہے۔ اُمید ہے بخاری صاحب اپنی آئندہ آنیوالی تحریروں میں اس بارے میں ہمدردانہ غور کریں گے دوسرا یہ کہ رنجیت سنگھ کے قبضے سے پہلے ملتان کی طرح پشاور بھی الگ صوبہ تھا ، رنجیت سنگھ نے صوبہ ملتان اور صوبہ پشاور پر بھی قبضہ کیا اور اسے پنجاب میں شامل کیا۔ بخاری صاحب کی کتاب کے مطابق 1857ء کے پنجاب میں پشاور ڈویژن کا ایک ضلع پشاور ، دوسرا ضلع کوہاٹ اور تیسرا ضلع ہزارہ شامل ہے ۔ انگریزوں سے پہلے پشتون اتنی زیادہ تعداد میں ان علاقوںمیں نہیں آئے تھے۔اس وقت پشاور اور ہزارہ کی زبان ہندکو تھی جو کہ معمولی سے فرق کے ساتھ سرائیکی ہی ہے ، کوہاٹ ضلع تو خالص سرائیکی تھا ، پھر پشتون ، افغانستان سے آنا شروع ہو گئے ، کچھ نے انگریزوں کے خلاف مسئلے پیدا کئے تو پشتونوں اور انگریزوں نے آگے چل کر سودے بازی کر لی اور 9نومبر 1901ء وائسرائے لارڈ کرزن نے سرائیکی خطے کی سر زمین جس میں ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ اور ٹانک ریاست وغیرہ شامل تھی ، پشتونوں کے حوالے کر دی اور ان کیلئے ایک نیا صوبہ سرحد بنا دیا۔ سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں اور گدی نشینوں کو چھوڑ کر باقی کسی نے انگریز کو پسند نہ کیا ۔ اس کی سزا سرائیکی قوم آج تک بھگت رہی ہے ، انگریز کے وفادار کچھ جاگیردار آج بھی کہتے ہیں کہ انگریز کے ہاں بہت انصاف تھا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر انگریز منصف مزاج ہوتا تو دوسرے ملکوں پر قبضہ کیوں کرتا؟ پھریہ کہ انگریز صوبہ ملتان نظر نداز کرکے صوبہ پشاور اس طرح بحال کرتا ہے کہ سرائیکی قوم کی سر زمین بھی ان کو دے دیتا ہے ۔ آج تو انگریز چلا گیا آج سرائیکی قوم کو اس کا صوبہ کیو ںنہیں مل رہا؟ یہ سوال عام آدمی یا مقامی سیاستدانوں سے بڑھ کر اہل دانش اور اہل صحافت کے سوچنے سے تعلق رکھتا ہے۔ امجد بخاری کی مذکورہ کتاب میں دو اور باتیں بھی قابل توجہ ہیں ۔ ایک یہ کہ 1857ء کے پنجاب کی جو تفصیل دی گئی ہے اس میں ملتان ڈویژن کے تین ضلعے ہیں ایک ضلع ملتان ، دوسرا ضلع جھنگ اورتیسرا گوگیرا‘ اس وقت لائل پور جھنگ کی تحصیل اور ملتان کمشنری کا حصہ تھی اور تمام علاقہ سرائیکی تھا۔ وسیب کے جاگیرداروں اور تمنداروں کا کردار بھی وہی ہے ، آج اس کردار کو بدلنے کی ضرورت ہے ، وسیب کے لوگوں کو وفاق پاکستان میں اکائی شناخت اور اختیار دینے کی ضرورت ہے اس کا نام تبدیل ہوگا ، اس کے ماسوا ہر تبدیلی صرف چہروں کی تبدیلی ہوگی۔