امروکا بٹھنڈہ اور مخدوم شاہ محمود قریشی
ظہور دھریجہ
تبدیلی کا بہت چرچا ہے مگر جو تبدیلی نظر آ رہی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اس وقت اقتدار ن لیگ سے بھی بڑھ کر تحریک انصاف کے پاس ہے ‘ ن لیگ کے پاس مرکز اور پنجاب تھا جبکہ تحریک انصاف کے پاس صوبہ خیبرپختونخواہ بھی ہے ۔ ن لیگ کا تعلق پنجاب سے تھا جبکہ تحریک انصاف کی قیادت سرائیکی وسیب سے تعلق رکھتی ہے ۔ ن لیگ نے پنجاب خصوصاً لاہور کیلئے بہت کچھ کیا ‘ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف وسیب کے لئے کیا کرتی ہے ۔ ابھی ابتداء ہے وزیراعلیٰ ، وزیراعظم کیلئے ہماری دعائیں اور نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں ، اس کے ساتھ وزارت خارجہ بھی وسیب کی اہم شخصیت مخدوم شاہ محمود قریشی کے پاس ہے ‘ لاہور سے واہگہ بارڈر پہلے بھی کھلا ہوا ہے ‘ بابا گرو نانک کی 500سالہ برسی پر کرتار پور بارڈر کو کھولنے کی باتیں بھی ہوئیں لیکن مخدوم شاہ محمود قریشی سے درخواست ہے کہ وہ امروکا بٹھنڈہ بارڈر کے ساتھ ملتان دہلی روڈ کشادگی کیلئے بھی اقدامات کریں ۔ اس کے ساتھ ہماری وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے بھی درخواست ہے کہ سرائیکی وسیب کے لئے 2010ء میں بند ہونیوالی ٹرینوں کو چلانے کیلئے اقدامات کریں ۔ خانپور سے روہی ایکسپریس پنڈی کیلئے چلتی تھی ‘ وہ ٹرین ابھی تک بند ہے مگر سابقہ روہڑی ایکسپریس کو روہی ایکسپریس کا نام دیکر چلایا گیا ہے جبکہ خانپور روہڑی کیلئے ٹرین ابھی تک بحال نہیں ہو سکی ۔ اسی طرح سمہ سٹہ بہاولنگر بہت اہم روٹ ہے ، بہاولنگر کے لوگوں کو سفری سہولتیں قطعی طور پر میسر نہیں ہیں۔ بہاولنگر قدم قدم پر مشکلات کا شکار ہوا ہے ‘ سب سے بڑا عذاب تو دریائے ستلج کی فروختگی کا ہے ‘ جس سے بہاولنگر اور آس بہاولپور اور رحیم یارخان کے علاقوں میں چولستان کے بعد ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے ‘ اس موقع پر ہم مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی مطالبہ کریں گے کہ وہ دریائے ستلج کی پھر سے بحالی کیلئے اقدامات کریں اور شیخ رشید صاحب سرائیکی وسیب جس کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے کو سفری سہولتیں دینے کے ساتھ ساتھ ملازمتوں میں بھی حصہ دیں اور ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور کی بجائے ملتان شفٹ کریں کہ یہ ملک کے عین وسط میں ہے ‘ اس کو سب سے برابر سہولتیں حاصل ہونگی۔ قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکا بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی مسافر اور مال گاڑیوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے ۔ مگر قیام پاکستان کے بعد امروکا بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا ۔ آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں ۔ دوسری جانب اپر پنجاب میں بہاولنگر سے کم حیثیت کے شہروں کو بہت زیادہ ترقی دے دی گئی ۔ کہنے کو کہا جاتا ہے پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ریلوے نظام کو توسیع دینے کی بجائے پاکستان میں انگریز کی طرف سے بنائے گئے کئی ریلوے سیکشن بند ہوئے اور سینکڑو کلومیٹر ریلوے لائنیں اکھاڑ لی گئیں جبکہ بھارت نے ہزاروں کلومیٹر نئی ریلوے لائن بچھائیں اور کئی میٹر گیج سے براڈ گیج یعنی چھوٹی لائنوں کو بڑی لائنوں میں تبدیل کیا ۔ صرف سمہ سٹہ ، امروکا سیکشن کی مثال لیجئے کہ اس سیکشن پر اب ایک انجن ایک پسنجر بوگی پر مشتمل ریل گاڑی علامتی طور پر چلائی جا رہی ہے، وہ بھی عدالتی حکم پر وگرنہ 126 کلومیٹر طویل سیکشن پر 31 ریلوے اسٹیشن عملی طور پر بے کار پڑے ہیں ۔ مگر دوسری طرف بھارت کا ایک ریلوے اسٹیشن فاضلکا جو امروکا سے آگے والا اسٹیشن ہے بند ہوا جبکہ اس سے اگلے سٹیشن بٹھنڈہ جنگشن کو بھارت نے اتنی وسعت دی کہ اب وہاں سے سارت ریلوے لائنیں مختلف علاقوں کیلئے نکلتی ہیں اور ہمارا میکلوڈ جنکشن جسے اب منڈی صادق گنج کہا جاتا ہے، دیدہ عبرت بنا ہوا ۔ بٹھنڈہ سے آگے فیروز پور ہر طرح کی ترقی اور مواصلاتی سہولتوں سے میزن ہے جبکہ ہمارا بہاولنگر اسٹیشن بندہے ۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے اس پر کبھی غور کیا کہ یہ ترقی ہے یا ترقی معکوس؟ سمہ سٹہ بہاولنگر ریلوے لائن 1895ء میں تعمیر ہوئی ، یہ ریلوے لائن مملکت خداداد بہاولپور اور ہندوستان کے درمیان تجارت اور مواصلاتی سہولت کا اہم ذریعہ تھی ۔ یہ ریلوے لائن امروکا ، بٹھنڈہ کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ یہاں سے دہلی کا سفر واہگہ بارڈر اور کھوکھرا پار سے کہیں کم ہے اور مزید اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ علاقہ کراچی ، پشاور کے وسط میں ہے اور اس وجہ سے اس کی مرکزی حیثیت بنتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ واہگہ سے پہلے اس بارڈر کو کھولا جاتا تاکہ پاکستان کے درمیانی علاقوں کے ساتھ کوئٹہ ، کراچی اور پشاور والوں کو ہندوستان جانے کیلئے برابر مسافت طے کرنا پڑتی اور سب لوگ سمہ سٹہ سے بذریعہ ٹرین دہلی چلے جاتے مگر ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی اپنی ترجیحات اور اپنی سوچ ہے ۔ اگر قومی یا ملکی سوچ ہے تو سب سے پہلے امروکا بٹھنڈہ بارڈ کھولا جانا چاہئے ، واہگہ اور کھوکھرا پار کی باری بعد میں آتی ہے۔ لیڈ ر شپ کے مقابلے میں غریب اور پسے ہوئے لوگ بہت با شعور ہو چکے ہیں ، میں نے ان سے گفتگو کی تو وہ ستلج دریا کی موت ، امروکا ، بٹھنڈہ ریلوے بارڈر کی کشادگی ، بہاولنگر میں کیڈٹ و میڈیکل کالج کے قیام اور لاہور کیطرح بہاولنگر کیلئے بھی سندر انڈسٹریل اسٹیٹ کی باتیں کر رہے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بہاولنگر سمیت تمام پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کالج بنائے جائیں اور وہاں مقامی طالب علموں کا کوٹہ مقرر کیا جائے ۔ امروکا، بٹھنڈہ بارڈر کھولا جائے ، دریائے ستلج کیلئے پانی کا انتظام کیا جائے، تعلیمی سہولتوں کے ساتھ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹریل سٹیٹس قائم کی جائیں۔ انسانی ضرورتوں اور سہولتوں کیلئے آج اگر ہر وقت حالت جنگ میں رہنے والے خطے کشمیر کے بارڈر کو کئی جگہوں سے کھول دیا گیا تو انسانی ہمدردی کے تقاضے کے عین مطابق امروکا بٹھنڈہ بارڈر کھولنے میں کیا حرج ہے ؟ سرائیکی وسیب کے لوگ عرصہ دراز سے مطالبات کرتے آ رہے ہیں ‘ وسیب کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں ‘ پاکستان کی سرزمین اور اداروں سے محبت کرتے ہیں ‘ وسیب کے لوگ ماسوا اس کے کچھ نہیں چاہتے کہ ان کو ان کا حق دیا جائے ‘ وفاق پاکستان میں ایک اکائی کے طور پر ان نمائندگی دی جائے ‘ وہ کسی بھی لحاظ سے نہیں چاہتے کہ ان کو برتر صوبہ دیا جائے بلکہ وسیب کے لوگوں کا مطالبہ فقط اتنا ہے کہ ان کو اسی طرح کا صوبہ دیا جائے جس طرح کے دوسرے صوبے ہیں ‘ وسیب کے لوگ برتر صوبہ مانگتے ہیں اور نہ کمتر قبول کریں گے ۔ وزیراعظم عمران خان ‘ ان کی کابینہ اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اس سلسلے میں جتنا جلد ہو سکے اقدامات کریں کہ سو دن کی مدت ختم ہونیوالی ہے ‘ اگر آج بھی وسیب کے کیلئے اقدامات نہ ہوئے تو وسیب کو ملنے والے طعنوں میں اضافہ ہو جائے گا اور کہا جائے گا کہ وزیراعظم عمران خان ‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور بھاری بھرکم کابینہ کا وسیب سے تعلق ہونے کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا تو پھر تخت لاہور و تخت پشور کو دوش کیوں ؟