امریکی الیکشن اور اس کے پاکستان پر اثرات !
علی احمد ڈھلوں
دنیا بھر کے ممالک کی نظریں اس وقت سپرپاور (امریکہ) میں صدارتی انتخاب پر ہیں، جہاں الیکشن کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے، متعدد سروے اور پولز کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اپنے حریف ریپبلکن اْمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے دکھائی دیتی ہیں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ٹرمپ کے جیتنے کا امکان نہیں۔ چند حلقے جن میں کاروباری شخصیات نمایاں ہیں ، ٹرمپ کو ہر صورت اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر امریکی الیکشن کا طریقہ کار کافی منفرد ہے۔ امریکی انتخابی نظام یا الیکٹورل سسٹم مجموعی ووٹوں کی تعداد کی بجائے الیکٹورل کالج سسٹم پر منحصر ہے جس میں کل 538 ووٹ ہیں جنھیں تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے بانٹا گیا ہے۔یعنی امریکہ میں جب لوگ ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ اپنے من پسند امیدوار کے لیے براہ راست ووٹ نہیں ڈال رہے ہوتے۔تکنیکی لحاظ سے وہ ’’الیکٹر‘‘ کو منتخب کرتے ہیں جوکہ الیکٹورل کالج کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ الیکٹر پھر صدر کو منتخب کرتے ہیں۔ الیکٹورل کالج ریاست سے ریاست تک کا نظام ہے جو نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں الیکٹرز کہتے ہیں۔ ان الیکٹرز کا انتخاب ہر ریاست میں الیکشن کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ امریکی آئین ساز چاہتے تھے کہ قومی ووٹ کے بجائے صدر علاقائی انتخابات جیتیں تاکہ وہ ملک کے مختلف مفادات کی نمائندگی کر سکیں۔ دو کے علاوہ تمام ریاستوں کے سارے الیکٹر جیتنے والے امیدوار کے حق میں جاتے ہیں، چاہے جیت کا مارجن کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔ یہ تعداد ہمیشہ اتنی ہی ہوتی ہے۔اس تعداد میں ایوان نمائندگان کے 435 ممبران، ایک سو سینیٹرز اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے تین ارکان شامل ہیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی امیدوار کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ 270ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے حصے میں جائیں گے یا کمیلا ہیرس کے۔ یہ تو پانچ نومبر کی ووٹنگ ہی بتا سکتی ہے، مگر یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت پاکستان کے عوام کو بھی اس الیکشن کے نتائج کا بے صبری سے انتظار ہے۔ ایسا کیوں؟ ظاہر ہے یہاں ایک سیاسی جماعت یعنی تحریک انصاف ڈونلڈکو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے، کیوںکہ وہ سمجھتی ہے، کہ پاکستان میں اْس پر لگنے والی پابندیوں اور زیادتیوں کا اگر کوئی مداوا کر سکتا ہے تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہے۔ تحریک انصاف والے شاید ایسا اس لیے بھی سوچتے ہیں کیوں کہ 2018ء میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اْس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تھی اور اس جماعت کے کارکن دونوں لیڈران یعنی عمران خان اور ٹرمپ میں بھی خاصی مشابہت پر یقین رکھتے ہیں۔ ا س لیے تحریک انصاف والے اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔ پھر سونے پر سہاگہ کے مصداق جناب مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے رواںسال کے وسط میں یہ بات کہی کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابات جیت کر کہیں کہ انہیں رہا کردیں۔انہوں نے اْس وقت مزید کہا تھا کہ ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی۔ اگر آپ اپنے گڑھ میں، اپنے گھر میں ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیئے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔اس لیے جس کا مینڈیٹ ہے اْسے دے دینا چاہیے ۔ خیر آگے چلنے سے پہلے یہاں یہ بتاتا چلوں کہ امریکا میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ڈیموکریٹک خالص جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ریپلیکن قدامت پسند ہیں۔ اب رہی بات کہ پاکستان پر امریکی الیکشن کے کیا اثرات مرتب ہوں گے تو گزشتہ 75سالی کی امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے توہر دفعہ امریکی الیکشن کے بعد پاکستان کے لیے نئی سے نئی پالیسیاں ہی بنیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہمارے لیے ڈیموکریٹک بہتر ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ہمارے لیے ری پبلکن۔ لیکن تاریخ پڑھ لیں ہمارے ساتھ تو دونوں کے ادوار میں ہی’’ ظلم‘‘ ہوتا رہا، جیسے پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کو بھی امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو صدور جان ایف کینیڈی (1961ء تا 1963ء ) اور (لنڈن بی جانسن) کی مکمل حمایت حاصل رہی اور پاکستان کو امریکا کے عالمی فوجی اتحادوں سیٹو اور سینٹو کا سب سے اہم رکن بنانے پر ایوب خان ان امریکی ڈیمو کریٹ صدور کی آنکھوں کا تارا تھے۔پھر 4 اپریل 1979ء کو جب منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر جمی کارٹر (1977ء تا 1981ء ) برسر اقتدار تھے۔یہ جمی کارٹر ہی تھے جنہوں نے جنرل ضیائ کا امریکا میں پرتپاک استقبال کرکے اْنہیں روس امریکا جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا اور جہادی تیار کروائے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک اور صدر باراک اوباما ( 2009 ئ تا 2017ئ ) کے دور میں پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نہ صرف اپنے عہدے سے برطرف ہوئے بلکہ وہ پرائم منسٹر ہائوس سے جیل منتقل ہو ئے۔ اب ری پبلکن صدور کو دیکھ لیں، یعنی امریکی ری پبلکن صدر جارج بش سینئر (1989ئ تا 1993ئ)کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کر دی گئی اور ایک اور ری پبلکن صدر جارج بش سینئر کے بیٹے جارج ڈبلیو بش جونیئر ( 2001 تا 2009ء ) کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والے ان افسوس ناک اور اندوہناک واقعات کے تناظر میں ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو امریکی ری پبلکن پارٹی سے کوئی اچھی توقعات نہ ہوں لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدور کے ادوار میں جمہوری اور سیاسی قوتوں کو زیادہ نقصان ہوا۔ بہرکیف امریکا کے ہر نئے الیکشن کے بعد دنیا مزید اْلجھ جاتی ہے، جیسا سوچا ہوتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے جب جب امریکا سے فائدہ لینے کے مواقعے سامنے آتے رہے، ہم نے اپنے ملک کے ساتھ کیا کیا؟ سب کو یاد ہوگا کہ جب پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان ثالثی میں اہم کردار ادا کیا تھا تو اْس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ وہ فکرمند تھے کہ بدلے میں پاکستان ناجانے کس چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے، لیکن وہ اس بات پر حیران ہوئے کہ یہاں کے سیاستدانوں نے صرف ذاتی مفادات کی باتیں کیں۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو یہ بات ابھی تک کسی کو نہیں بھولی کہ عمران خان دور میں جب نومنتخب صدر جوبائیڈن کو موصوف کال کرتے رہے مگر انہوں نے جواب دینا پسند نہیں کیا تو یہ بات بانی تحریک انصاف کے خلاف گئی تھی۔ اور پھر یہ بات بھی زبان زد عام رہی ہیں کہ ٹرمپ کی بیوی عمران خان کو بطور سیاستدان بالکل اسی طرح پسند کرتی ہیں جس طرح جومہاتیر محمد کی بیوی اْنہیں پسند کرتی تھی۔ لیکن میں پھر کہوں گا کہ حالات کس کروٹ بیٹھیں گے، یہ اگلے سال ہی کنفرم ہوگا جب نئے امریکی صدر حلف اْٹھائیں گے!