امریکی وزیر خارجہ کا دورہ اور بھارت پاک تعلقات
افتخار گیلانی
پچھلے ہفتے پاکستان کی نئی حکومت نے خطہ کے دورے پر آئے امریکی وزیر خارجہ مائیکل رچرڈ پومپیوکے ذریعے بھارت کو خیر سگالی کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی حکام کو باور کرانے کی سعی کی کہ انکی حکومت پڑوسی ممالک کے ساتھ امن اور اس خطے میں استحکام کی خواہاں ہے اور ان سے درخواست کی کہ چونکہ امریکی وفد اسلام آباد کے بعد براہ راست دہلی وارد ہورہا ہے، اسلئے بھارت کی نریندر مودی حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر آمادہ کریں۔بھارت میں بھی سرکاری ذرائع کے حوالے سے یہ خبرین گشت کر رہی تھیں کہ نئی دہلی پاکستان کی نئی حکومت کے تئیں، امریکی حکام کے بلا واسطہ تاثرات جاننے کیلئے بے تاب ہے۔ چونکہ بھارت کسی بھی تیسرے فریق کو ثالثی کا رول دینے کا روادار نہیں ہے اسلئے میڈیا میں اسکی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق پومپیو نے بطور پیغامبر وزیر اعظم نریندر مودی اور اس سے قبل وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ ملاقات میں یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ دو جمع دو ڈائیلاگ یعنی وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر دفاع نرملا سیتارمن اور انکے امریکی ہم منصبوں پومپیو اور جیمز میٹس کے درمیان مذاکرات کے بعد چاروں وزراء مودی سے ملاقات کرنے اور انکوپیشرفت سے آگاہ کرنے کیلئے ان کے دفتر پہنچے۔ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا، مگر اس میں وزراء نے اپنے کلمات کے بعد سوال لینے سے احتراز کیا ۔ مشترکہ بیان بھی پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد جاری کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی وزراء نے پبلک فورم میں پاکستان سے متعلق کسی سوال کا جواب دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ خیر 45منٹ کی میٹنگ میں جب پومپیو نے پاکستان کی نئی حکومت کے بار ے میں تاثرات اور پھر عمران خان اور قریشی کے پیغام کو بیان کیا تو ذرائع کے مطابق مودی نے امریکی وفد کو یاد دلایا کہ جب وہ اقتدار میں آئے تھے، تو انہوں نے اس خطے میں امن و استحکام کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی تھی۔ اور اس سلسلے میں پاکستان کو چھوڑ کر دیگر پڑوسی ممالک نے انکو بھر پور تعاون دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی پارٹی کے سخت گیر عناصر کی پروا کئے بغیر انہوں نے دسمبر 2015 کو افغانستان سے واپسی پر لاہور میں کئی گھنٹے گذار کر خیر سگالی کا پیغام دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اسوقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات اور انکے خاندان میں ہورہی شادی میں شرکت ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ مگر اس کے چند دن بعد ہی پٹھانکوٹ کے فضائیہ کے مستقر پر حملہ ہوا اور پھر ستمبر 2016 کو اوڑی میں فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا، جس سے بقول انکے بھارت میں عوامی جذبات مجروح ہوئے اور ان کی کاوشوں پر پانی پھر گیا۔ مودی نے اپنے پیشرو اٹل بہاری واجپائی کا بھی ذکر کیا کہ کیسے 1999 میں وہ بھی خیر سگالی کا پیغام لیکر لاہور پہنچے اور اسکے چند ماہ بعد ہی کرگل میں پاکستانی فوجی کارروائی نے اس عمل کو سبوتاژ کیا۔ بتایا جاتا ہے اس میٹنگ میں مودی نے خاصی تفصیل کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بھارت ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے اور پاکستان ہی خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہے۔حکومتی گلیاروں میں یہ بھی سننے میںآیا کہ مودی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بھارت۔پاکستان تعلقات کی راہ میں لاہور jinxed بد شگن ہے۔ امریکی عہدیداروں کے سامنے مودی کی اس گفتگو کے بعد مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی سلسلہ جنبانی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ہے۔ بھارتی حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سامنے اگلے سال ہونے والے انتخابات کے پیش نظر پاکستانی حکومت کا موجودہ رویہ بے چینی کا باعث ہے۔وہ تو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے ذریعے ہیجان برپا کرکے اسکوانتخابات میں بھنانے کے فراق میں ہیں۔ ابھی تک عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو بھارت کو ایسا مخالفانہ ردعمل ظاہر کرنے کا موقع دے سکتی ہو جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو منظم اور متحد کرنے میں مددگار ہو سکے۔بی جے پی کو ہزیمت کا سامنا اتر پردیش اور مہاراشٹرا میں کرنا پڑ سکتا ہے اور ان دونوں صوبوں میں پاکستان کے خلاف ہوا بناکر ووٹ بٹورنے کا ایک آزمودہ فارمولہ ہے۔ معروف کشمیری صحافی منظور انجم کے مطابق بھارت کی قیادت یہ تاثر دینا ہی نہیں چاہتی کہ وہ پاکستان کے ساتھ ٹکرائوکی صورتحال سے باہر نکل رہی ہے جبکہ پاکستان اسے ٹکرائو کی صورتحال کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز فراہم نہیں کررہا ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو کے پاکستان کے فوجی سربراہ سے گلے ملنا ایک واحد موقع ہاتھ آیا جسے بی جے پی لیڈران اچھال کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس سے پہلے پاکستان کی طرف سے متواتر طور پر جو بیانات آرہے تھے وہ بی جے پی قیادت کو بڑے مواقع فراہم کررہے تھے کہ وہ ہندوتوا کے جذبات بھڑکاسکیں لیکن اب ایسا بالکل بھی نہیں ہورہا ہے۔2013میں انتخابات سے قبل جب اسوقت کے پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک ویزا نظام کو آسان بنانے کے معاہدہ پر دستخط کرنے کیلئے دہلی آئے تھے، مگر انہوں نے الزامات اور جوابی الزامات کی ایسی لڑی لگا دی کہ ماحول کو مکدر کرکے بی جے پی کو انتخابات میں استعمال کرنے کا پھر پور موقع دیا۔ دونوں ملکوں میں ،عوام کی سوچ و فکر کو جس انداز میں ڈھالا گیا ہے اس تناظرمیں عام روش سے ہٹ کر دیا گیا کوئی بیان فورا ایک بڑے تنازع کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ پاکستان کی موجودہ قیادت شاید سیاسی دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے بہت محتاط ہے۔اس صورتحال نے بی جے پی قیادت کو بڑے مخمصے میں گرفتار کر دیا ہے۔ ایک طرف کشمیر میں بگڑتے حالات ، ابتر ہورہی معیشت، کرنسی کی گرتی ہوئی ویلیو اور بیرونی دبائو ،پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت اور تعلقات کی بہتری کے موقعے کا فا ئدہ اٹھانے پر مجبور کررہا ہے تو دوسری طرف انتخابی مہم میں اس کے نقصانات کا حساب بھی لگایا جارہا ہے۔ مغربی ممالک کے سفارت کاروں میں بھی اب یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ ایک طرف مشترکہ بیان یا کسی دو طرفہ ڈاکیومنٹ میں بھارت دہشت گردی سے متعلق پیراگراف میں پاکستان اور کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیموں کا ذکر کرنے بر بضد ہوتا ہے مگر دوسر ی طرف اس کے حل کی سمت کوئی میکانزم وضع کرنے سے دور بھاگتا ہے۔ جرمنی ہو یا امریکہ یا برطانیہ ہر مشترکہ بیان میں عسکری تنظیموں پر لگام لگانے کی بات درج کروائی جاتی ہے۔ اور جب یہ ممالک دہشت گردی یا عدم استحکام کے سورس سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ کسی تیسرے فریق کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک سفارت کار نے راقم کو بتایا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اگر تیسرے فریق کی گنجائش نہیں ہے اور ثالثی بھی قبول نہیں ہے اور دو طرفہ ہی معاملات حل کرنے ہیں تو ان ڈاکیومینٹ میں پھر کیوں پاکستان یا اس سے متعلقہ ایشوز شامل کرواتے ہو۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ کو اس ایشو کو بھر پور طریقے سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی یا عدم استحکام سے نمٹنے کیلئے فوجی یا سفارتی ذرائع سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ امریکی افواج پچھلے 18سالوں سے افغانستان میں برسرپیکار ہیں اور دور دور تک کامیابی کے آثار کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اسکے پیش نظر امریکہ طالبا ن کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے اپیل کر رہا ہے تاکہ کسی بھی طرح فا تح کا لقب حاصل کرکے جلدی اپنا بوریہ بستر لپیٹ سکے۔ بھارت بھی پچھلے 30سالوں سے کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ذریعے کسی حل کو نافذ کروانے میں ناکام رہا ہے۔ بجائے اسکے کہ حالات کو سلجھا کر کسی حل کی طرف گامزن کروایا جائے، بی جے پی ایک بار پھر پاکستان مخالف جذبات اور ریاست جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کیخلاف جارحانہ سوچ کے ساتھ مسلم مخالف جذبات کو سہارا بنا کر ہندو ووٹ اپنے حق میں کرنے کی حکمت عملی اپنارہی ہے۔ اس کی اس حکمت عملی سے جو ں جوں عدم استحکام طول پکڑتا جا رہا ہے، اس میں دیگر عناصر بھی شامل ہوتے جا رہے ہیںجو حالات کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ایک منصوبہ کے تحت مودی حکومت نے حریت قیادت کو مسلسل نظربندی سے دوچار کرکے اور دیگر ذرائع استعمال کرکے ان کے عوامی رابطوں کو محدود تو کر ہی دیا ہے بھارت نواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی عوامی ساکھ کو بھی ختم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ کسی سیاسی کنٹرل کی عدم موجودگی کی وجہ سے اب نئے عناصر کشمیر کے گلی کوچوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر ایک انارکی کا ماحول پیدا کرکے خطہ کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کرنے کے فراق میں ہیں۔ وقت ہی بتا پائے گا کہ یہ مودی حکومت کی دانستہ حکمت عملی ہے یا وہ تاریخ کے ایسے دوراہے پر پہنچ چکی ہے جہاں دونوں طرف اسے اپنے لئے کھائی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کشمیر ایک دہکتا ہوا لاوا ہے ، جو خطے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کیلئے لازم ہے کہ بھارت کو حالات کی سنگینی کا احساس کرواکے اسکو کسی حل کی طرف گامزن کروائے۔