انجام گلستاں کیا ہوگا !!
ڈاکٹر محمد سلیم شیخ
کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب پاکستان کے سیاسی حالات سے متعلق تشویش ذہن میں نہ اٹھتی ہو ۔ زندگی کی بہتر امیدیں لئے ہر نئے دن کا آغاز ہوتا ہے مگر ہر شام پاکستان کے مستقبل پر تاریکی کے سائے کچھ اور بڑھ جاتے ہیں ۔ایک بحران کم نہیں ہوتا کہ دوسرا بحران سر پر موجود ہوتا ہے ۔ 1947 ء سے آج تک ، جب کہ 2024 ء کا سال اپنے اختتام کی طرف تیزی سے گامزن ہے ، پاکستان اپنی سلامتی اور بقا کے مسائل سے ہمیشہ دوچار رہا ہے۔ بیرونی خطرات کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اب داخلی سلامتی کے مسائل ایک بڑا خطرہ بن چکے ہی جن پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ 1979 ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت سے جو عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا اور سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے درمیان اس خطے میں بالادستی کا جو بھیانک کھیل شروع ہو ا اس میں پاکستان کی عاجلانہ اور غیر دانشمندانہ شمولیت نے ریاست کی معیشت ، سماجی ساختیات اور سیاسی تحرکات کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور جس کا خمیازہ ریاست آج تک بھگت رہی ہے۔سویت یونین اور امریکہ افغانستان سے اپنے اپنے مفادات سمیٹ کر اس خطے سے نکل گئے۔زم خوردہ افغانستان جو اس دوران میدان جنگ بنا رہا اب چار عشروں کی بھیانک جنگی اور خانہ جنگی کی کیفیت سے باہر آرہا ہے اور اپنی داخلی سلامتی کی بہتری کی جانب سفر شروع کرچکا ہے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ خسارہ پاکستان کے حصے میں آیا ۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی سالوں میزبانی کے بعد بھی موجودہ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدگی سے دوچار ہیں ۔ مشرقی سرحد پر موجود بھارت کے ساتھ تنازعات تو کیا کم ہوتے اب مغربی سرحد پر بھی افغانستان کی صورت ایک متحارب ریاست وجود میں آگئی ہے ۔ غزہ میں اسرائیل کی سفاکانہ جارحیت کا دائرہ اب لبنان ایران اور یمن تک پھیل رہا ہے ۔ ایران مغرب میں ہمارا پڑوسی ہے اگر یہ جنگ ایران تک شدت اختیار کرتی ہے جیسا کہ اسرائیل اور اس کی سرپرست ریاستوں کی حکمت عملی اور خواہش ہے تو پاکستان کا اس سے بچ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی محتاج پاکستانی معیشت اس پر مستزاد سیاسی انتشار اور داخلی سلامتی کی مخدوش حالات انتظامی ہوشمندی اور سیاسی یکجہتی کے متقاضی ہیں مگر افسوس ! یہ دونوں یکسر مفقود ہیں۔ وفاق اور اس کی اکائیوں کے تعلقات سیاسی مفادات کی آڑ میں دانستہ یا نا دانستہ مسلسل کمزور کئے جارہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان کبھی بھی آسان وفاقی اکائی نہیں رہا تاہم وہاں اب ریاست کے لئے مشکلات قابو سے باہر ہوتی نظر آرہی ہیں ۔اس پر قابو پانے میں اہلیت اور نیت دونوں ہی کمزور محسوس ہوتی ہیں۔ اسی طرح خیبر پختون خوا اور اس میں ضم کئے جانے والے قبائلی علاقہ جات، جو پہلے وفاق کے زیر انتظام تھے ، مستقل حالت جنگ میں ہیں ۔ ریاست کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود امن و امان کی صورتحال ہر گز تسلی بخش نہیں ہے۔ ترقی کی تمام راستے ریاست کی داخلی سلامتی کی کیفیت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ معیشت کی بہتری کے تمام منصوبے اسی وقت ثمر بار ہوسکتے ہیں جب امن و امان کا تسلسل ہو اوراس کے لئے ضروری ہے کہ ریاست میںسیاسی استحکام ہو ، جسے گزشتہ کئی سالوں میں بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے ۔ 2016 ء سے شروع ہونے والا سیاسی انتشار اب کثیر الجہات ہو چکا ہے ۔ یہ اداروں کی نچلی سطح سے بالائی سطح تک سرائیت کر چکا ہے ۔نہ صرف ادارے سیاسی عصبیت کا شکار ہوچکے ہیں بلکہ پورا سماج ہی ا س میں جکڑا جا چکا ہے۔ اس منظر اور پس منظر میں نہ صرف سیاسی اداروں کی فعالیت متاثر ہوئی ہے بلکہ ریاست کے تمام ہی ادارے ، فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ ، اپنی فعالیت ،وقار اور اعتبار کم کر چکے ہیں۔ہر ادارے میں ، شخصیات کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر واضح تقسیم نے ریاست کے امور میں درست فیصلہ سازی کے عمل کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ تاسف انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان کی پیچیدہ ہوتی ہوئی اس صورتحال میں فیصلہ کرنے والی تمام قوتیں حالات کی سنگینی سے بڑی حد تک غافل نظر آتی ہیں !آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ایسی صورتحال میں جس میں ریاست کی سلامتی بگڑتی ہوئی کیفیت دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی مانندنمایاں ہے اور اس سے نکلنے کی کلید بھی واضح ہے پھر کیاامر مانع ہے کہ اسے اختیار نہیں کیا جارہا !! وقت مٹھی میں بند ریت کی مانند بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔ غفلت اور تساہل میں گزارا ہوا ہر لمحہ ریاست کی نازک ہوتی سلامتی کے لئے بھاری ہو رہا ہے ۔بارہا اس بات کی طرف نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ اس سے نکلنے کا واحد اور درست راستہ ہر ادارے کا اپنی آئینی حدود میں رہنا ہے ۔ جمہوری سیاست میں مفاہمت اور مکالمے سے گریز غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ عمل ہے ۔اس حقیقت سے انکار کسی کے لئے بھی ممکن نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ الیکشن میں سیاسی اور انتظامی جبر کا سامنا رہا اور اس کی مقبولیت کے راستے میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر وہ سیاسی جماعت اور اس کے بانی ، صحیح یا غلط ، آج بھی عوامی مقبولیت کی انتہائی سطح پر ہیں۔تاہم یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ تحریک انصاف نے اپنی سیاسی روش اور حکمت عملی سے ریاست کی سلامتی اور مفادات کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔احتجاج ،دھرنے اور سیاسی مکالمے سے انکار کے تسلسل نے اس کی سیاسی حیثیت کو زک پہنچائی ہے ۔اس کے کارپردازوں کو اب اس کا ادراک کرلینا چاہیئے۔ ریاست کی موجودہ صورتحال اور بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظر میں حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں اور تحریک انصاف کی قیادت کو تحمل ، برداشت اور زمینی سیاسی حقائق کو پیش نظر رکھنے کی شدید ضرورت ہے ۔ہر وہ عمل جس سے ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو اس سے ہر ایک کو گریز کرنا ہوگا۔سیاسی اختلافات جس نہج پر آج پہنچ گئے ہیں انہیں یہاں تک نہیں آنا چاہیئے تھا ۔حکومت کو سیاسی مفاہمت کی طرف قدم بڑھانے میں پہل کرنا چاہیئے ۔ تحریک انصاف کی موجودہ روش کو کسی بھی باشعور حلقے کی جانب سے سراہنا ممکن نہیں تاہم اس جماعت اور اس سے وابستہ قیادت اور کارکنوں پر غیر ضروری سیاسی اور انتظامی دبائو کے حکومتی اقدامات بھی درست نہیں ۔کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کا عمل کبھی بھی مثبت نتائج کا حامل نہیںہوتا ۔ یہ پاکستان کی ستتر سال کی سیاسی تاریخ ہے ۔ بار بار اس کے دہرائے جانے سے ،یقین کامل ہے ،نتیجہ تبدیل نہیں ہوگا۔ اس ریاست کے پچیس کروڑ عوام فیصلہ ساز قوتوں سے روشن اور محفوظ مستقبل کی امید لگائے ہوئے ہیں انہیں مایوس نہ کیجئے۔