انصاف کیا ہے
پروفیسر تنویر صادق
امریکہ میں اگر آپ ایسا علاقہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جہاں خوبصورت نیلا آسمان ہو، پہاڑی سلسلے بھی ہوں ، کوکونٹ کے درخت بھی ہوںاور شاندار ریتلے ساحل بھی ہوں تو الباما کا علاقہ آپ کے لئے ایک بہترین سیر گاہ ہے۔ یہ امریکہ کے بہت سے علاقوں سے سستا بھی ہے اور یہاں کے لوگ بھی انتہائی ملنسار ہیں۔ٹارنٹ جیفرسن ، الباما کی ایک کائونٹی کا چھوٹا سا شہر ہے جس کی کل آبادی چھ ہزار ہے۔ولیم سٹاسی (William Stacy) ٹارنٹ کا ایک پولیس افسر ہے۔وہ ڈیوٹی پر تھا کہ اسے قصبے کے ایک سٹور سے فون آیاکہ سٹور والوں نے سٹور میں چوری کرتی ایک خاتون پکڑی ہے ۔ پولیس اسے لے جائے اور اس کے خلاف کاروائی کرے۔ولیم نے گاڑی پکڑی اور اس سٹور پر پہنچ گیا۔ ایک دبلی پتلی خاتون جس کا نام ہیلن جانسن Helen Johnson تھا اور جس کی عمر 47 سال تھی،سٹور والوں کے قابو میں تھی۔ ولیم نے اسے اپنی حفاظت میں لیا۔گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے خاتون کو پوچھا، کہ بی بی تم نے کیا چرایا۔ خاتون نے جواب دیا ، پانچ انڈے۔ولیم نے حیران ہو پوچھا، صرف پانچ انڈے، مگر کیوں۔ خاتون رونے لگی کہ اسے پچھلے چند دن میں کوئی کام نہیں ملا۔ میرے پاس بچوں کو دینے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔ پیسے بھی بالکل نہیں تھے۔اسی لئے پانچ انڈے چرائے۔ وہ انڈے میں نے جیب میں ڈالے ہوئے تھے، شاید میں اچھی چور نہیں کیونکہ وہ انڈے میری جیب میں ٹوٹ گئے اور یوں سب کو خبر ہو گئی کہ میں نے چوری کی ہے۔ اب پتہ نہیں بچوں کا کیا ہو گا۔ان کے پاس کوئی دیکھنے والا ، دوسرا بھی نہیں ہو گا۔ ولیم نے اس عورت کو گرفتار کرنے کی بجائے گاڑی ایک اور سٹور کے آگے روکی ۔انڈوں کی ایک پیٹی خریدی اور بہت سی کھانے کی چیزیں اس عورت کو خرید کر دیں۔ اس سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ چوری نہیں کرے گی اور اسے اس طرح کوئی مشکل پیش ہوئی تو وہ اسے اطلاع دے گی کہ وہ اس کی نوکری کے لئے کسی کو کہہ دے۔ اس کے بعد اس پولیس آفیسر نے اس خاتون کو اس کے گھر چھوڑ دیا۔ چھوٹا سا یہ واقعہ کسی ملک کی پولیس اور وہاں کے انصاف کے اداروں کی کارکردگی کا عکاس ہوتا ہے۔ہمارے ملک کی پولیس بھی عجیب ہے۔ اسے انصاف یا قانون سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ ہر چیز کو پیسے سے تولتے ہیں اور پیسے ہی کے حوالے سے اس میں پیش رفت کرتے ہیں۔حتیٰ کہ پولیس سے جڑے ہوئے یا اس جیسے محکمے بھی اسی مزاج کے ہیں۔ میں نے ایک محکمے کے کچھ افسروں کے خلاف درخواست دی۔ محکمے کے چھوٹے ملازم سارے ملزمان کو جانتے تھے اور میری درخواست پڑھ کر مجھے یہ بتاتے رہے کہ یہ بندہ تو بہت سادہ ہے۔ یہ دوسرا بھی نیک آدمی ہے۔ چھوڑیں جی ان کے خلاف کیا کاروائی کریں، بڑے نیک بندے ہیں۔ ان جونیئر لوگوں کو ان کے فون نمبر بھی زبانی یاد تھے۔ وہ ملزمان اس قدر طاقتور تھے کہ بجائے ان کا چالان کاٹنے کے ،محکمے نے پوری فائل ہی انہیں پکڑا دی کہ ان کے خلاف اگر کوئی جرم ہے تو محکمانہ کاروائی کی جائے۔وہ سینئر افسر جو اس میں ملوث تھے ، انہوں نے فائل دبا کر رکھ لی کہ انکوائری ہو رہی ہے۔اس انکوائری کا کیا رزلٹ آئے گا، مجھے اندازہ ہے کہ وہ فائل ہی غائب کر دی جائے گی۔ نیب نے ایک انکوائری کی ۔ مگر اس میں جو رقم فراڈ کی گئی تھی وہ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر تھی۔ انہوں نے وہ تقریباًپچاس صفحے کی وہ فائلLDA کو بھیج دی کہ اس فائل پر انکوائری کرکے فیصلہ دیں۔جس شخص کا کیس تھا اسے بلایا گیا۔ جو خط اسے ملا وہ کسی ایسے افسر کا بتا رہا تھا جو کسی تہہ خانے میںبڑے پر اسرار سے ماحول میںفائلوں اور بوریوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ مدعی جب ان کے پاس پہنچا تو وہاں موجود دو تین لوگ بڑے ڈرانے والے ماحول میںاس سے باتیں کرنے لگے۔اسے کہا گیا کہ ایسی درخواستیں دینے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے آپ جانتے ہیں۔ آپ نے ایسی درخواست کیوں دی۔ تھوڑی سی تلخی کے بعد اس شخص نے اپنا تعارف کرایا۔ سوال جواب کرنے والے کچھ سنبھلے ۔ ان کا انچارج دوسری طرف جا کر کسی سے بات کرنے لگا۔وہ کسی کو بتا رہا تھا کہ مدعی ایک سرکاری افسر ہے ۔ ہم اسے دبا نہیں سکتے۔ کوئی نیا پرابلم نہ ہو جائے۔ ٹیلیفون کرنے والا واپس آیا۔ اور مدعی کو کہا کہ آج ہم نے آپ کی باتیں نوٹ کر لی ہیں جلد ہی رابطہ کریں گے۔وہ فائل بھی LDA کے سٹور میں کہیںگم ہو جائے گی بلکہ اس بات کو چھ ماہ گزر چکے ، امید ہے وہ غائب ہو چکی ہو گی۔اور کوئی ڈھونڈھنا بھی چاہے تو وہ نہیں ملے گی۔ سچ یہی ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ایک کرپٹ قوم ہیں۔جس شخص کو موقع میسر آتا ہے ۔ وہ پوری دیانتداری سے بد دیانتی کی انتہا کر دیتا ہے۔ ہمارے یہاں کوئی قانون نہیں، انصاف کیا ہے لوگ ایسی کسی چیز کو نہیں جانتے ۔ اصلاح کی ابتدا ہمیشہ حکمرانوں سے ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرا ن کسی قانون، کسی ضابطے اور کسی آئین کو نہیں مانتے۔تو ان کے اہلکار کیوں کسی چیز کو مانیں۔ حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم اک عرصہ یہی کہتے رہے ہیںکہ اس ملک میں خونی انقلاب آئے گا۔اس وقت حالات ایسے ہی ہیں کہ وزیر اعظم کا خواب شرمندہ تدبیر ہونے والا لگتا ہے۔ ویسے بھی اس ملک کی بقا کے لئے ایک انقلاب بہت ضروری ہے۔ اسی انقلاب کے نتیجے میںلوگوں کو قانون اور انصاف کی حقیقت اور اہمیت معلوم ہو گی۔