انقلابی شاعر نذیر فیض مگی کی برسی
ظہور دھریجہ
آج یکم دسمبر 2018ء کو فاضل پور میں سرائیکی وسیب کے معروف شاعر نذیر فیض مگی کی دوسری برسی منائی جا رہی ہے ۔ نذیر فیض مگی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے دانشور بھی تھے ، 1947ء کو راجن پور کے قصبے کوٹلہ شیر محمد میں آنکھ کھولی ۔ والد کا نام خدا بخش تھا ، مگسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ نذیر فیض مگی کے نام سے مشہورہوئے ، آٹھویںجماعت سے شعر کہنا شروع کئے۔ ان کی وفات کی تاریخ تو 22 اکتوبر 2016ء ہے لیکن برسی میں کچھ تاخیر ہوئی ، بہرحال وسیب کے مشاہیر کے کارناموں کو یاد رکھنا اور ان کے تہوار منانا قابلِ تحسین عمل ہے۔ نذیر فیض مگی نے 70 سال کی عمر پائی اور ان کی شاعری کا عرصہ 50 سال سے زیادہ ہے ۔ ان کی پہلی کتاب میں بہت شاہکار نظمیں شامل تھیں ، جبکہ دوسری کتاب ’’ ہنج دا فیض ‘‘ ان کی وفات کے بعد سامنے آئی ، جسے ان کے بیٹوں فیصل مگسی اور طاہر مگسی نے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کرایا ۔کتاب کی ترتیب و تدوین پروفیسر ڈاکٹر شکیل پتافی نے کی ہے ۔ کتاب میں کاروکاری ، جوڈیشل کونسل ،میں کافر جے کر ہوندا ، قربانی ، لُٹیرے ، کال دا موسم اور ہُنْ کیا تھیسی جیسی شہرہ آفاق نظمیں شامل ہیں ۔ سئیں نذیر فیض مگی کے ساتھ بہت یاداللہ تھی ، ان کی بہت سی یادیں میرے پاس محفوظ ہیں۔ سئیں عاشق بزدار، سئیں صوفی تاج گوپانگ اور سئیں منظور خان دریشک بہت کچھ بتاتے رہتے ہیں،ایک دن مہرے والا بیٹھے تھے ،صوفی تاج گوپانگ بتانے لگے کہ لاہور میں انوکی اور جھارا پہلوان کی مشہور کشتی ہورہی تھی،نذیر فیض مگی دعا کررہے تھے کہ یہ کشتی برابر ہوجائے یا پھر جھارا ہار جائے سب اس پر چونک پڑے کہ سب کی اس کشتی پر نظریں تھیں اور اسی طرح دلچسپی تھی جس طرح پاک بھارت ورلڈ کرکٹ میچ پر ہوتی ہے ۔ سب نے کہا کہ نذیر فیض مگی یہ تم نے کیا کہہ دیا ؟پاکستان کا بچہ بچہ جھارا کے حق میں دعا کررہا ہے اور تم اُلٹ بات کررہے ہو ،نذیر فیض مگی نے کہا کہ میں جھارا کے خلاف نہیں ہوںمیں تو اپنی ’’بھوئیں‘‘ یعنی زمین بچانے کی فکر میں ہوں کہ اگر جھارا کامیاب ہوگیا تو حاکم انعام کے طور پر اسے تھل یا چولستان میں دو مربعے الاٹ کردیں گے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سئیں نذیر فیض مگی سے بہت یاد اللہ تھی ۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان سے محبت ان کی دوکان کے ٹائٹل سرائیکی آٹوز کی وجہ سے ہوئی اور یہ بھی کہ ہم نے 1990 ء کی دہائی میں پہلا سرائیکی اخبار جھوک خانپور سے شروع کیا تو وہ فاضل پور میں جھوک کے نمائندے بنے ۔ ہم خانپور سے اخبار ٹرین کے ذریعے بھیجتے ، مسافت بہت طویل تھی ۔ اخبار پہلے ملتان پہنچتا ، پھر ملتان سے بنڈل دوسرے دن آنے والی ٹرین سے فاضل پور بھیجا جاتا ۔ اخبار دو دو تین تین دن لیٹ ہو جاتا اور بعض اوقات اخبار کے بنڈل گم بھی ہو جاتے تو اس دوران سئیں نذیر فیض مگی فون کرکے صورتحال سے آگاہ کرتے ۔ ان دنوں موبائل نہیں ہوتے تھے ۔ لینڈ لائن سے بات ہوتی اور اخبار کے معاملات سے ہوتی ہوئی بات سرائیکی زبان ‘ ادب اور شاعری کی طرف چلی جاتی ۔ میں انکی سوچ ‘ فکر اور دانش سے متاثر ہوتا اور انکی گفتگو سے استفادہ کرتا ۔ ہمارے اخبار کے سرکولیشن منیجر سئیں بشیر دیوانہ جب ریکوری کے سلسلے میں ڈی جی خان ڈویژن جاتے تو واپس آ کر پورا حال حویلہ کر تے یوں سمجھئے کہ بلوچکا حال دیتے ‘ فاضل پور کے بارے وہ بتاتے کہ ’’ سئیں نذیر فیض مگی اکھیندن جو اخبار باقاعدگی نال نی ملدا تے جیرھے شمارے امدن میں اتھاں اپنْے سرائیکی اگٖوانْیں کوں ڈٖینداں ‘ وڈٖی محبت نال گھندن ، ہک ہک لوظ ذونق شونق نال پڑھدن دین پوری صاحب دی بٖٹ کڑاک تے تاں ایویں پمدن جیویں مکھی مٹھے تے ، حالت اے ہوندی اے جو اوبٖا آکھدے پہلے میں تے اوبٖا آکھدے پہلے میں ۔میںنے دیوانہ صاحب کو کہا کہ ’’ نذیر فیض مگی سئیں سے آپ نے رقم کا تقاضا نہیں کرنا ‘‘ ۔ نذیر فیض مگی بتاتے ہیں کہ ہم دیہاتی لوگ ہیں ،پیر فقیر کو بہت مانتے ہیں ،ایک دن پیر صاحب ہمارے گائوں آئے میں نے ایک بکرا پالا ہواتھا پیر صاحب نے دیکھا تو کہا کہ یہ بکرا آپ دربار کے لنگر کی نذرکریں ہم نے وہ بکرا دے دیا ،کچھ عرصہ بعد پیر خانہ پر گئے تو پیر صاحب چار پائی پر جلوہ افروز تھے اور مریدین نیچے زمین پربیٹھے تھے ،سامنے کچھ اور بکروں کے ساتھ میرا بکرا بھی بندھا ہوا تھا ،پہلے میری نظر بکرے پر پڑی تو میں نے بکرے کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ مجھے دیکھ کر پیار سے ’’میکنے‘‘لگا ،پھر میں نے مجلس میں جا کرپیر صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور مودب ہوکر کچاری میں بیٹھ گیا ،کچھ دیر بعد پیر صاحب نے میری طرف دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ہواور کہاں سے آئے ہو؟میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا حضورمیں ابھی تھوڑی دیر پہلے پہنچا ہوں تو سامنے میرے بکرے نے تو مجھے پہچان لیا ہے مگر میں کیا عرض کروں کہ آپ نہیں پہچان رہے ،اس پر پیر صاحب نے سرائیکی میں کہا’’ہا یار توں کوٹلہ شیر محمد آلا شاعر تا ں نی؟‘‘مرحوم نذیر فیض مگی یہ واقعہ سناتے ہوئے ہنستے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے بزرگ پیر صاحب کے بارے میں بتاتے تھے کہ وہ ساری کائنات کا علم رکھتے ہیں لیکن حالت یہ تھی کہ جو علم میرے بکرے کو تھا پیر صاحب اس سے لاعلم تھے ۔ سرائیکی وسیب میں ایک رسم ہے ’’ کالا کالی ‘‘ ۔ سندھی میں اسے ’’ کارو کاری ‘‘ اور بلوچی زبان میں ’’ سیاہ کاری ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ استاد نذیر فیض مگی کی بیٹی کی فریاد کے حوالے سے ایک نظم نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔اس نظم کا مفہوم یہ ہے کہ کالی ہونے کے جرم میں سزائے موت کی سزاوار ہونے والی بیٹی اپنے باپ سے کہتی ہے کہ اے میرے ابا حضور! جو الزام مجھ پر ہے ، یہی جرم تو میرے بھائی سے سرزد ہوا تھا ، اس وقت تو اسے بچانے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہا تھا اور جرم کے عوض اپنی بیٹیاں تک دینے کیلئے تیار ہو گیا تھا ، مجھے قتل کرنے سے پہلے یہ توبتا کہ اسے تم نے کیوں نہ مارا ؟ نظم دیکھئے : اَبّا ! خوف خدا توں ڈٖریں کاوڑ نہ کہیں گاٖل تے کریں پَر تاں پیڑے پُتر وی تیڈٖے ایہو جھاں ہک جُرم کیتا ہا پرلی وستی ونجٖ پکڑیا ہا اوندے سانگے دَر دَر پگٖوں رولیاں ہانی چٹی دے وچ سوہنْیاں دھیریں گھولیاں ہانی پُتر توں ساہ چا واریا ہاوی اونکوں کیوں نہ ماریا ہاوی؟؟؟