2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

اور پھر میاں نوازشریف جیل چلے گئے

ارشاد محمود
28-12-2018

میاں محمد نوازشریف کے جیل چلے جانے کا دکھ نون لیگ والوں کی طرح مجھے بھی بہت ہے۔ وہ اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہے۔اسی کی دہائی سے ایک ہنگامہ شب وروز برپا رہا اورمحمد نواز شریف کا ڈنکا لگ بھگ چالیس برس تک بجتارہا۔ اب قیدی نمبر 4470 کو دیکھ کر دل خوف سے لرز اٹھتاہے۔ ان کا مقدمہ حتمی طور پر کیا رخ اختیار کرے گا ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔عدالت سے ریلیف ملنے کا امکان بھی روشن ہے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کے اجلاسوں کی روئیداد سن او رپڑھ کر محسوس ہوتاہے کہ آصف علی زرداری بھی جیل جانے کی تیاری کرچکے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اس سار ے عمل کو سیاسی انتقام کا نام دے کر مسترد کردیتی ہیں لیکن حالیہ چند ماہ میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین کے مالی معاملات کے حوالے سے جو ہو ش ربا تفصیلات منظر عام پر آئیں وہ ہر دردمند شہری کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے،دولت کے انبار اورمحلات میں شاہانہ زندگی گزارنے والے آخر مال وزرجمع کرنے کی ہوس میں اس طرح اندھے کیوں ہوئے؟ جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔حفیظ جالندھری نے کیا خوب کہا تھا ؎ جدھر دیکھو ہجومِ رہبراں ہے کدھر ڈھونڈوں مرا رہزن کہاں ہے جرس کی ہر صدا اب رائیگاں ہے تباہی کارواں در کارواں ہے بچاؤ کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک غلطیوں کا اعتراف اور قوم سے معافی مانگ لی جائے۔ انسان خطا کا پتلا ہے ۔جذبات، مال ودولت اور اولاد کی محبت اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہے۔دوسرے پارٹیاں اپنی نئی قیادت کا انتخاب کریں۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کی بناوٹ اور ساخت ایسی ہے کہ وہ ذاتی ملکیت بلکہ نجی کمپنیوں کی ماند کام کرتی ہیں۔ پارٹی لیڈر ان جماعتوں کے راہنما نہیں‘ مالک ہوتے ہیں۔جماعتوں کے اندر خوداحتسابی کا کوئی موثرمیکانزم موجود نہیں۔قیادت سے اختلاف کا مطلب ہے کہ آپ راندہ درگاہ کردیئے جائیں۔روتے رہیں ،چلاتے رہیں، خدمات کا حوالہ دیتے رہیں لیکن دربار میں شنوائی ممکن نہیں۔چنانچہ سیاسی جماعتوں سے خوداحتسابی کی توقع کرنا عبث ہے۔ اکثر یہود وہنود کو ہمارے ہاںبے نقط سنائی جاتی ہیںمگر لیڈروں کے انتخاب میں وہ کوئی بھول چوک گوار نہیں کرتے۔ بعدازاں ان کے طرزعمل پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ کوئی چار برس پہلے کی بات ہے کہ اسرائیل کی ایک عدالت نے سابق وزیراعظم ایہود اولمرت کو رشوت لینے کے جرم میں چھ سال قید اور ایک لاکھ اکہتر ہزار سٹرلنگ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی ۔ بی بی سی نے ان پر اپنی تفصیلی سٹوری میں بتایا ’’ ایہود اولمرت کسی بھی اسرائیلی حکومت کے پہلے سربراہ ہیں جنھیں قید کی سزا سنائی گئی ۔انہیں ایک تعمیراتی منصوبے میں رشوت لینے کا مجرم قرار دیا گیا۔یہ منصوبہ یروشلم کے تل ابیب ڈسٹرکٹ میں ’ہولی لینڈ‘ کے نام پر اپارٹمنٹ بنانے کا تھا۔ ایہود اولمرت پر، جو اس وقت یروشلم کے میئر تھے، الزام تھا کہ انھوں نے 86 ہزار پاؤنڈ لے کر مقدس قرار دیے گئے زون میں قانون تبدیل کر کے متنازع اپارٹمنٹ تعمیر کرنے کی راہ ہموار کی۔ جج نے لکھا :ایہود اولمرت نے ملک کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ لیکن وہ اس معاملے میں ’ اخلاقی گراوٹ‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسرائیلی قانون کے مطابق وہ جیل کی سزا کاٹنے کے بعد سات سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے اہل نہیں ہوں گے۔ چند ماہ قبل فروری میں اردونیوز جدہ نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے لکھاکہ پولیس نے طویل تحقیقات کے بعد وزیر اعظم نیتن یاہو پر کرپشن کے دو مقدمات میں فرد جرم عائد کرنے کی سفارش کی ہے ۔ اگرچہ ان مقدمات پر ابھی تک پیش رفت ہونا باقی ہے لیکن کسی بھی ملک کی پولیس اپنے ہی وزیراعظم کے خلاف تحقیق کرے اور پھر مقدمہ شروع کرنے کی درخواست کرے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اسرائیل کی پولیس اور عدلیہ کس قدر آزاد اور شفاف ہیں۔ چند ماہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف بدعنوانی اور پسندیدہ کمپنی کو نوازنے کا الزام لگا۔جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے نے بتایا : 2016 ء میں فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی داسْو سے چھتیس رفائیل جنگی طیاروں کی خریداری میں طیاروں کی قیمت اصل سے زیادہ ادا کی گئی اور خریداری کے عمل کو شفاف نہیں رکھا گیا۔ عشروں سے اس کام کا تجربہ رکھنے والی سرکاری کمپنی کی جگہ بھارتی بزنس مین انیل امبانی کی کمپنی ’ریلائینس ڈیفنس‘ کو یہ ٹھیکہ دیا گیا۔چنانچہ حالیہ ریاستی الیکشن میں مودی مسٹر کلین کاامیج برقرار نہ رکھ سکے۔پانچ ریاستوں میں شکست کے اسباب میں ایک سبب رفائیل جنگی جہازوں کی خریداری میں غیر شفاف طرزعمل کو بھی بتایاجاتاہے۔پہلے بھی لکھ چکا کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی اہلیہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وائٹ ہاؤس میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا۔ اپنی پسند کی مچھلی کھائیں تو اس کا بھی بل بھرنا پڑتاہے۔ خود اوباما نے ہنستے ہوئے بتایاکہ وہ کچھ خاص رقم پس اندازنہیں کرسکے کیونکہ امریکی صدر کو اپنا ٹوتھ پیسٹ بھی خود خریدناپڑتاہے۔ یہ سب مثالیںان ممالک کے لوگوں کی ہیں جنہیں اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی انہیں ماں نے گو د میں تاریخ اسلام کے روشن واقعات سناسنا کر سُلایا۔سوال یہ ہے کہ آخر مغرب کی طرح اصول اور قانون کی پابندی اور شفافیت کا خیال ہمارے لیڈروں کو کیوں نہیں آتا؟ ان میں سے اکثر نے مغربی تعلیمی اداروں میںکڑی ریاضت سے تعلیم حاصل کی۔چند ایک صوم وصلوۃ کے بھی پابند ہیں۔ روضہ رسولؐ پر تسلسل سے حاضری دیتے ہیں۔ نیاز تقسیم کرتے ہیں۔ غریبوں کی اعانت بھی کرتے ہیں۔اللہ کے خوف میں آنسو بھی بہاتے ہیں ۔افسوس!اقتدار بطورعوام کی امانت‘ ان کے سپر د جب جب بھی کیا گیا وہ مقرر کردہ حدود وقیود پھلانگتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ابھی تک ادارہ جاتی شکل اختیار نہیں کرسکیں۔ اکیسویں صدی میں بھی وہ ایک فین کلب کی شکل میں کام کرتی ہیں۔ لیڈروں کی تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام ہے اور نہ پارٹیوں کے اندر اعلیٰ روایات۔رب العالمین نے دنیا کی نظرآنے اور نہ آنے والی مخلوق حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کردی۔ تو انہوں نے اللہ تعالی سے دعا کی : اے اللہ! تو نے ہر چیز میرے تابع کر دی ۔ خود مجھے بھی تو اپنے تابع کر دے۔سیاسی جماعتیں ہوں یا حکومت ‘ امامت کا منصب حاصل کرنا آسان لیکن اسے سنبھالنابہت مشکل!