آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟
قادر خان یوسف زئی
پاکستانی معاشرہ اس وقت ایک سنگین اخلاقی بحران سے گزر رہا ہے، جس سکی جڑیں سوشل میڈیا کے بے قابو استعمال اور فیک نیوز کے بڑھتے رجحان میں پائی جاتی ہیں۔ فیک نیوز اور پرائیویٹ وڈیوز کا پھیلاؤ، جو چند سال پہلے تک ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا، اب معاشرتی معمول بن چکا ہے۔ لوگوں کی عزت، ان کی نجی زندگی اور ان کی خودداری کو چند لمحوں کی وائرل ہونے کی دوڑ میں مٹا دیا جاتا ہے۔ اس خوفناک صورتِ حال نے پورے ملک کے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسمارٹ فون کے ساتھ سوشل میڈیا تک فوری رسائی نے ہر شخص کو ایک مبصر، تجزیہ کار، یا صحافی بنا دیا ہے۔ یوں ایک شخص، جو شاید اپنے کسی ذاتی کام میں مصروف ہو، چند گھنٹوں میں معاشرتی میڈیا کی عدالت میں کوڑی کا رہ جاتا ہے۔اس کھیل کا اگر صرف یہاں تک رہنا ہی مسئلہ ہوتا تو شاید معاشرہ اسے برداشت کر لیتا، لیکن حقیقت اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ فیک نیوز کا پھیلاؤ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک جھوٹی خبر ، غلط معلومات کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف عام شہریوں پر ہوتا ہے بلکہ مشہور شخصیات، سیاستدانوں اور یہاں تک کہ سرکاری اداروں پر بھی پڑتا ہے۔ فیک نیوز محض ایک افواہ نہیں ہوتی، یہ ایک مہلک ہتھیار بن چکی ہے جو کسی بھی وقت کسی کی عزت، کردار اور مستقبل کو تباہ کر سکتی ہے۔کچھ عرصے کے دوران، تواتر سے کچھ فیک نیوز کی ایسی مہم چلائی گئی، جس سے سچ بھی جھوٹ لگتی ہے۔بالخصوص وہ افراد جو، چند جھوٹے الزامات کی وجہ سے معاشرتی تنقید کا شکار ہوجاتے ہیںاور اسے اپنی عزت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں جس کا مدوا بھی ممکن نہیں ہویا۔ پاکستانی معاشرہ اس وقت ’وائرل ہونے‘ کے خبط میں مبتلا ہو چکا ہے۔ ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا پر وائرل ہونیکے کوشش میں دوسروں کی زندگیوں کو تباہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ لوگوں کو راہ چلتے دیکھنا، ان کی پرائیویسی کو نظرانداز کرنا، اور پھر ان کی تصاویر یا ویڈیوز کو دنیا بھر کے سامنے لا کر تذلیل کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے۔اس کے پیچھے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ دوسروں کی نجی زندگی میں دخل اندازی کرنا کس قدر سنگین جرم ہے۔ لوگ چند لمحوں کی تفریح اور توجہ کے لیے دوسروں کی عزت کو پامال کرنے میں مصروف ہیں، اور اس عمل کے نتائج پر کوئی غور نہیں کرتا۔یہ صورتحال سوال اٹھاتی ہے کہ آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا نے معلومات کی رسائی کو آسان بنایا ہے، وہیں دوسری طرف اس نے انسانیت کی بنیادی اقدار کو بھی دھندلا دیا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں سیاستدانوں اور صحافیوں کے لیے استعمال ہونے والے توہین آمیز ناموں کا استعمال ایک سنگین معاشرتی مرض کی نشانی ہیں۔ یہ تضحیک آمیز الزامات نہ صرف ان افراد کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ ان کی شخصیت کو بھی عوامی سطح پر متنازع بنا دیتے ہیں۔ اس رویے نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ایک خوفناک تقسیم پیدا کر دی ہے، جہاں ہر ایک کو اپنے سیاسی مفادات کے تحت دوسروں کو بدنام کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے اپنی زباں اور اخلاقیات کو اس حد تک کھو دیا ہے کہ کسی کی عزت کرنا یا اس کے نظریات کا احترام کرنا اب ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ سوشل میڈیا نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جب ایک شخص اپنے موبائل فون سے کسی کے بارے میں توہین آمیز بیان دیتا ہے، تو اس کی آواز جلد ہی ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، اور وہ فرد اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ایک ناپسندیدہ لقب جڑ جانے کی تلوار کے نیچے رہتا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے ہاتھوں میں موجود ہر موبائل فون ایک بم کی شکل میں ہے۔ اس کا ٹریگر سوشل میڈیا کے الگورڈمز کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھا شخص صرف ایک بٹن دباکر ہماری سوسائٹی میں ایک ہلچل پیدا کر سکتا ہے۔ یہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں، بلکہ عام لوگوں کی زندگیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ایک ٹوئیٹ، ایک ویڈیو یا ایک فیک نیوز کسی کی زندگی کو پل بھر میں تباہ کر سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں فیک نیوز میں جنس کے استعمال کے واقعات کے حوالے سے جو بھی صورت حال سامنے آئی، وہ بھی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم کس طرح کی سماجی زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نوجوان طالب علموں کو خاص طور پر ایسی وڈیوز دکھائی جا رہی ہیں، جو ان کی نفسیات پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک سنگین بحران ہے جو ہماری تہذیب کو چیلنج کر رہا ہے۔ خاص عمر اور نفسیات کے نوجوان اس پر احتجاج کر رہے ہیں، لیکن کیا ان کی آوازیں اس مسئلے کے خلاف کافی ہیں؟۔ ایسی اخلاقی زوال کی علامات ہمیں دکھائی دے رہی ہیں۔ کیا ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم اپنے اخلاقی معیار کو کھو رہے ہیں؟ یہ محض کسی ایک شخص یا طالب علم کی کہانی نہیں، بلکہ ایک قوم کی کہانی ہے جو اپنی اقدار، روایات اور اخلاقیات کو بھول چکی ہے۔اس صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں اپنی زبان کے زہر کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ کیا ہمیں سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کی تعلیم نہیں دینی چاہیے؟ ہماری نئی نسل کو نہ صرف سچائی بلکہ اپنے الفاظ کی طاقت کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔ پاکستانی معاشرہ ایک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے آج ہی اس زہر کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو کل ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔